اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف از خود توہین عدالت کیس میں ہدایت کی ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار آئندہ سماعت پر ہائیکورٹ رولز لیکر آئیں جس کے مطابق چیف جسٹس اعتراض دور کیے بغیر درخواست پر آرڈر کر سکتا ہے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیاکہ کیا اس کو نمبر لگ گیا ہے؟، جس پر عدالتی عملہ نے بتایا کہ جی نمبر لگ گیا ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ کل عدالت نے دل کی باتیں کیں اور ہم نے سنیں، آج مجھے موقع دیں میں بھی دل کی باتیں کر لوں، ایک ہی سوال ہے کیا مشعال یوسفزئی بانی پی ٹی آئی کی وکیل ہے یا نہیں، اس سوال پر یہ ساری صورتحال پیدا ہوئی ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کل مجھے آپ نے سنا، آج میں آپ کو سنوں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ مشال یوسفزئی بانی پی ٹی آئی کی وکیل ہیں یا نہیں صرف یہ طے ہونا چاہیے، نیاز اللہ نیازی کو کورٹ میں بلا کر پوچھ لیا جائے، عدالت نے کہاکہ اگر مشال یوسفزئی بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ کی وکیل نہیں تھیں تو اسی لئے تو کمیشن بھیجا تھا، آپ نے کورٹ کو یہاں تک پہنچا دیا دو منٹ میں یہی کمشن پوچھ لیتا، تیس سکینڈ کی بات تھی آپ نے کمیشن کو ڈیڑھ گھنٹہ روکے رکھا، ملاقات نہیں کرائی، ایک وکیل کہتا ہے میں وکیل ہوں، عدالت اس کی بات رد نہیں کر سکتی، جب دوسری طرف سے آتا ہے کہ وکیل نہیں تو پھر عدالت ملزم سے پوچھے گی، آپ مجھے بتائیں بطور جج میں کیا کرتا؟، میں اس وجہ سے توہین عدالت چلا رہا ہوں تاکہ ہم سیکھیں، اگر ایک ہی نوعیت کی درخواستیں مختلف بنچز میں ہوں تو اسی بنچ سے ریکویسٹ کی جاتی ہے، اس کارروائی کا مطلب ہائی کورٹ کو مزید embarrass  کرنا نہیں، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جج کا احتساب پبلک کرتی ہے، کہیں اور نہیں ہوتا، ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ اس کیس میں 37 کیسز زیر التواء ہیں، دس ہزار کیس بھی ہوں اس متعلقہ عدالت کو ہی کیس منتقلی یا لارجر بنچ کی استدعا کی جاتی ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ میں اپنے یا اپنے کولیگز کے لیے کوئی ناخوشگوار بات نہیں چھوڑنا چاہتا، کیا آپ اس عدالت کے سامنے لگی توہین عدالت درخواست پر دلائل دیں گے؟، کیا وہ بنچ توہین عدالت کیس سنے گی جس نے آرڈر ہی نہیں کیا جس کی حکم عدولی ہوئی؟، میرے لئے سب سے اہم عدالت کی توقیر ہے، مجھے اس ایشو پر ایک فائنل ججمنٹ لکھنی ہے، میں لکھوں گا کہ اس طرح کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، اگر یہ کام ہائیکورٹ جج نے نہ کیا ہوتا تو یہ کریمنل توہین عدالت ہوتی، آپ سب کو بلانے کا مقصد ہے کہ ہماری معاونت  کریں، میں ریسرچ کرنے کیلئے نہیں بیٹھ سکتا، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہاکہ ہم آپ کو مشکل پوزیشن میں نہیں رکھنا چاہتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ نے عدالتی سوالات پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ اب سوال تو یہ بھی ہے کہ ان کیسز میں ریاست کہاں کھڑی ہے؟، رجسٹرار آفس کے ریکارڈ کے مطابق واضح طور پر درخواست پر اعتراضات بھی ختم نہیں ہوئے تھے، میرے سامنے اس وقت میرے اپنے ادارے سے متعلق بہت اہم معاملہ ہے، آپکا توہینِ عدالت کا کیس سنوں گا آپکے اس متعلق دلائل اْس وقت سنوں گا، یہ ہائیکورٹ کی بجائے کسی اور نے کیا ہوتا تو کرمنل توہینِ عدالت بن جاتی، اب ہائیکورٹ کی بات آ گئی ہے تو میں یہاں رک جاتا ہوں، میں اِس کیس میں ایک تفصیلی فیصلہ دوں گا اور اس میں چیزیں طے کر دوں گا، ایک وکیل روسٹرم پر کھڑا ہو کر کہے کہ میں وکیل ہوں تو عدالت رد نہیں کر سکتی، سینکڑوں درخواستیں ہمارے سامنے دائر ہوتی ہیں کیا کلائنٹ کو بلا کر پوچھتے ہیں کہ وکیل ہے یا نہیں، اگر ایسا نہ ہو تو پھر سسٹم چل ہی نہیں سکتا، اگر دوسری طرف سے اختلاف آ جائے تو پھر عدالت کے پاس کیا آپشن بچتا ہے، میں اپنے کسی ساتھی جج کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری نہیں کرونگا، جو کارروائی میں کر رہا ہوں اس کا مقصد Educate کرنا ہے، کیسز یکجا کرنے اور لارجر بنچ بنانے کا معاملہ آئے تو اس جج کے پاس آتا ہے جو کیس سن رہا ہو، وہ جج چیف جسٹس کو لکھ کر بھیجتا ہے پھر چیف جسٹس آرڈر کرتا ہے، سیکشن 24 کے تحت درخواست دائر کی گئی اور لارجر بنچ بنا دیا گیا، لارجر بنچ میں سماعت ہو گی تو دیکھیں کہ کیا وہ قانونی کارروائی ہے یا نہیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ اچھا ایسا لکھا ہے، لیکن اعتراضات دور کرنے کہ وجہ کوئی نہیں بتائی گئی، یہ کارروائی سکھانے کیلئے ہے، عوام بھی اس کیس پر نظر رکھیں، یہ کیس ایک سیاسی جماعت کے لیڈر سے متعلق نہیں بلکہ اصول طے کرنے کا ہے، ڈپٹی رجسٹرار آئندہ سماعت پر ہائیکورٹ رولز لے کر آئیں جس کے مطابق چیف جسٹس اعتراض دور کیے بغیر درخواست پر آرڈر کر سکتا ہے، وہ رولز بھی لائیں کہ چیف جسٹس عدالت میں زیرسماعت کیس کو واپس لے سکتے ہیں، عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ایڈووکیٹ جنرل توہین عدالت درخواست پر نے کہاکہ ا لارجر بنچ عدالت نے چیف جسٹس نہیں کر کی بات

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ: بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع

بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ملاقات نا کروانے پر وکیل مشال یوسف زئی کی جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف توہین عدالت کیس کو کاز لسٹ سے منسوخ کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوموٹو توہین عدالت کی کارروائی شروع کردی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کاز لسٹ سے کیس منسوخ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کردی اور ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

کاز لسٹ کی منسوخی اور کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے بھی جواب طلب کرلیا گیا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کیا ریاست جج کی مرضی کے بغیر کیس لارجر بینچ کو منتقل کرنے کی حمایت کرتی ہے؟ یہ کرنے کی بجائے آپ میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • کاز لسٹ منسوخی، یہ کام جج نے نہ کیا ہوتا تو کرمنل توہین عدالت ہوتی، جسٹس اعجاز اسحٰق
  • عمران خان ملاقات کیسز منتقلی ہائیکورٹ جج نے نہ کی ہوتی تو یہ کریمنل توہینِ عدالت ہوتی، جسٹس اعجاز اسحاق خان
  • کیس ٹرانسفر کرنے کا کام ہائیکورٹ کے جج نے نہ کیا ہوتا تو یہ مجرمانہ توہین عدالت ہوتی، جسٹس اعجاز اسحاق خان کے ریمارکس
  • عمران خان ملاقات کیسز منتقلی ہائیکورٹ جج نے نہ کی ہوتی تو یہ کریمنل توہینِ عدالت ہوتی، جسٹس اعجاز
  • میں اس وجہ سے توہین عدالت چلا رہا ہوں تاکہ ہم سیکھیں،جسٹس سردار اعجاز اسحاق کے ڈپٹی رجسٹرار توہین عدالت کیس میں ریمارکس
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع
  • کاز لسٹ منسوخ، اس کے بجائے میری عدالت کی بنیاد میں بارود رکھ کر اڑا دیتے، جسٹس اعجاز اسحاق
  • گائیڈڈ میزائل آپ کی طرف جا رہا تھا وہ اب ہماری طرف آ رہا ہے،جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا مشال یوسفزئی سے مکالمہ 
  • کیس لارجر بنچ کومنتقل  کرنے کی بجائے آپ میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے،جسٹس سرداراعجاز اسحاق  کے ریمارکس