پنجاب اسمبلی: اپوزیشن کا احتجاج، حکومتی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
لاہور (خصوصی نامہ نگار) سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا بائیکاٹ جمہوری رویوں کے منافی ہے۔ عمران خان کے ساتھ افراتفری، انتشار اور گھیراؤ جلاؤ جیسی چند باتیں جڑی ہیں بس۔ پاکستان کی عوام نے دہشت گردی کے خلاف بڑی قربانیاں دیں۔ پاکستان کی افواج بہادر اور عوام ثابت قدم ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت کو کمزور کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے۔ صوبائی حکومتیں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی گورننس میں بڑے پیمانے پر ریفارمز ناگزیر ہیں۔ اگر صوبائی حکومت سکیورٹی فورسز کو آپریشن سے روکتی ہے تو حالات کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے 24 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس کی صدارت سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کی۔ اپوزیشن اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے احتجاج کرتے ہوئے ایوان میں داخل ہوئی، پلے کارڈ اٹھا کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے نعرے لگائے۔ سپیکر ملک محمد احمد خان نے اپوزیشن کو پلے کارڈز ایوان میں لہرانے سے منع کیا۔ اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے پنجاب اسمبلی میں سپیکر ملک محمد احمد خان کو حکومتی ایک سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر پر مشتمل کتابچہ پیش کیا، اور کہا کہ سپیکر صاحب کو وائٹ پیپر کا کتابچہ ضرور بھجیں گے تاکہ پتہ چلے صوبہ میں ہو کیا رہا ہے، حکومت نے اپنی کارکردگی کی ایک سالہ رپورٹ پیش کی جس کے جواب میں ہم نے عوام کے سامنے متوازن حقائق رکھے ہیں۔ سپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اچھا لگا صحت مند جمہوری روایت قائم کی گئی ہے، اعتراضات حکومت کے سامنے رکھے، اس پارلیمانی پریکٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ بات گالی، دشنام طرازی سے آگے بڑھے اور ریکارڈ پر آئے، جو اعتراضات ہیں حکومت کے پاس موقع ہے ان کے اعتراضات دور کرے، گالی کے بجائے دلیل، گریبان کے بجائے کتاب، تقریر بحث کی اہمیت ہونی چاہئے، اپوزیشن کو مثبت تنقید کی طرف آنا چاہیے۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے گندم خریداری کی پالیسی کا اعلان نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور اپوزیشن رکن وقاص مان نے کہا کہ گندم کی کٹائی شروع ہونے والی ہے لیکن پنجاب حکومت کی گندم خریداری کی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی، کسانوں میں گندم کی خریداری کے حوالے سے بہت اضطراب پایا جارہا ہے۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے یقین دہانی کرائی کہ اگلے ماہ سے گندم کٹائی سے پہلے حکومتی پالیسی آ جائے گی۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن کی ایوان میں امن امان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں سے 2024-25 میں کارکردگی بہتر رہی۔ حکومتی رکن راجہ شوکت بھٹی نے کہا کہ جو کچھ اپوزیشن ظلم و ستم کی بات کررہی ہیں تو جو جو یہ کرتے گئے وہ مکافات عمل ہے، ہماری لیڈر شپ کو بھی جیل میں ڈالا تھا، بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا۔اپوزیشن رکن شیخ امیر نے کہا کہ 23 سال میں دہشت گردی پر قابو کیوں نہ کر سکے، کبھی دہشت گردی بڑھی تو کبھی کم ہوجاتی ہے، لوگ سوال کرتے ہیں دہشت گردی اتنی کیسے بڑھ گئی ہے، بلوچستان کے سارے لیڈرز اور مولانا فضل الرحمن سے بات کرنا ہوگی۔اپوزیشن رکن حسن بٹر نے کہا کہ کرم ، بنوں ، جعفر ایکسپریس واقعہ پر سب کو مل کر سوچنا ہوگا، قوم کی قوت کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ جب تک پولیس والے کا احتساب پولیس والا کرے گاتو نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔اپوزیشن رکن زاہد اسماعیل بھٹہ نے کہا کہ اگر جرائم پر پولیس نے روک تھام نہیں کرنی اور پی ٹی آئی کے لیڈران یا ورکرز کو گرفتار کرنا ہے تو پھر اس پر پولیس کا نام تبدیل کرکے پولیس روک تھام تحریک انصاف رکھ دیا جائے۔حکومتی رکن اسمبلی احمد خان لغاری نے کہا کہ پولیس و افواج کے باعث اپنے گھروں میں سکون سے سو سکتے ہیں، مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کو حکومت اپنی پالیسی سے روکے گی۔ اپوزیشن رکن علی امتیاز وڑائچ نے کہا کہ جعفر ایکسپریس کوئی عام حملہ نہیں بلکہ دشمن نے اعلان جنگ کردیا ہے۔ سب حکومت میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کا حل نکالنا ہوگا۔ حکومتی رکن احمد اقبال نے کہا کہ نو مئی کا دن پاکستان کی تاریخ کا معمولی دن نہیں، کئی بار بغاوت دیکھی ،نومئی کو بغاوت ریاست کے خلاف ناکام ہوئی۔ پنجاب کو اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا۔ لاہور شہر میں پرائیویٹ ڈالہ بڑی بندوقیں راہ چلتے لوگوں کو ہراساں کرنا اور سڑک پر گالیاں دینا عام ہوگیا ہے۔ اپوزیشن رکن حافظ فرحت عباس نے کہا کہ جس طرح اسلحہ بردار کلچر آ رہا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ حکومتی رکن احسن رضا نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا کراچی کا امن نوازشریف حکومت ہی لائی۔ فضل الرحمن کو پہلے ڈیزل کہتے رہے آج ان کے پاپا بنے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن رکن ندیم قریشی نے کہا کہ جہاں پی آئی اے کا طیارہ ایک پہیہ پر اتارا گیا اس ملک کو بھی ایک پہیہ پر اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن رکن شیخ امتیاز نے کہا کہ اصل بغاوت آٹھ فروری کو ہوا، اس اسمبلی میں فارم سینتالیس سے لوگ آ گئے جو وزیر بھی بن گئے۔ بانی کو سازش سے اتارا گیا تو اس حکومت سے تباہ کاریاں ہوئیں جس میں امن و امان اور مہنگائی شامل ہیں۔ حکومتی رکن اسمبلی عظمی کاردار نے کہا کہ پی ٹی آئی کا سب شور شرابا این آر او کا ہنگامہ ہے، یہ تو ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر چھوڑ کر چلے گئے تھے، معیشت اور سٹاک ایکسچینج کے اعشاریہ مثبت ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی والے سب لوگوں کو این آر او مانگ رہے ہیں، ان کا لیڈر قیدی نمبر 804 منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا تھا اے سی بند کردوں گا، جیل میں بند کروا دوں گا، نیازی نے جس طرح بطور وزیر اعظم ظلم و ستم ڈھائے ہمارے وزیر اعظم نے خان کو دیکھا بھی نہیں، جو کیسز ہیں ان پر کوتوتوں و کرپشن کی وجہ سے ہے، وزیر اعلی مریم نواز نے آج تک کسی کیبنٹ میٹنگ میں کبھی نیازی پر بات نہیں کی، اپوزیشن لیڈر کہتا نیازی سے ملنے نہیں دیا جاتا تو نواز شریف سے وکلاء کے علاوہ کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا تھا، ہم نے پی ٹی آئی سے سیاسی انتقام نہیں لیا۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر پینل آف چیئر سمیع اللہ خان نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ملک محمد احمد خان نے پنجاب اسمبلی اپوزیشن رکن پاکستان کی حکومتی رکن پی ٹی ا ئی نے کہا کہ کے خلاف
پڑھیں:
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس غیر مؤثر رہا، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب
پشاور ہائیکورٹ میں پیشی کے بعد گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ کے پی حکومت نے کسی آپریشن کی اجازت نہیں دی، مسائل کا حل صرف مذاکرات ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس غیر مؤثر رہا۔ پشاور ہائیکورٹ میں پیشی کے بعد گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ کے پی حکومت نے کسی آپریشن کی اجازت نہیں دی، مسائل کا حل صرف مذاکرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں علی امین گنڈاپور نے بطور وزیراعلیٰ صوبے اور پارٹی کا نقطہ نظر پیش کیا۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ملک کا برا حال ہوگیا ہے، حکومت اپوزیشن الائنس سے خوفزدہ ہے، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑی خلیج تھی، جمہوریت کی خاطر ہم اکھٹے بیٹھے ہیں، جے یو آئی کے ساتھ بات چیت میں بہت سفر طےکرلیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوشش جاری ہے، امید ہے جلد مولانا بھی گرینڈ الائنس کاحصہ بن جائیں گئے۔ صحافی نے سوال کیا کہ تحریک سے پہلے حکومت نے مذاکرات کی پیشکش کی تو کیا قبول کریں گے؟ اس پر عمر ایوب نے کہا کہ حکومت کے پاس کیا اختیار ہے، پچھلے مذاکرات میں حکومت کہتی تھی کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرواسکتے، ہم نے پہلے بھی مذاکرات کیے لیکن ان کے پاس ہے کیا۔