تھائی لینڈ، ولاگر اڑن طشتریوں کی ویڈیو بنانے میں کامیاب؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
KUALALUMPUR:
مشہور وی لاگر ٹریوس لیون پرائس تھائی لینڈ کے ایریا 51 میں خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں کو دیکھنے میں کامیاب ہوگئے جن کی پوسٹ کی گئی ویڈیو سوشل میڈیا پر فوراً وائرل ہوگئی۔
کیا یو ایف او اور خلائی مخلوق ہمارے درمیان موجود ہیں؟ اگرچہ یہ سوال اکثر متنازعہ رائے پیدا کرتا ہے، لیکن تھائی لینڈ کے پہاڑی علاقے کھاؤ کالا کے رہائشیوں کیلیے اس کا جواب بالکل واضح ہے۔
تھائی لینڈ کے مذکورہ علاقے کے رہائشیوں کا ماننا ہے کہ نہ صرف خلائی مخلوق موجود ہے، بلکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار یو ایف او ضرور دیکھا ہے۔
مشہور ولاگر ٹریوس لیون پرائس نے تھائی لینڈ کے اس علاقے کا دورہ کیا، جسے مقامی لوگ تھائی لینڈ کا ’’ایریا 51‘‘ کہتے ہیں۔ امریکا کے خفیہ فضائی اڈے ’’ایریا 51‘‘ کی طرح، کھاؤ کالا بھی یو ایف او اور خلائی مخلوق کے مشاہدات کیلیے مشہور ہے۔
پرائس نے اپنے تجربے کو ایک ویڈیو میں شیئر کیا، جس میں وہ ایک مقامی شخص سے بات کرتے ہیں، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تقریباً ہر روز یو ایف او دیکھتا ہے۔پرائس کی شیئر کی گئی ویڈیو میں، مقامی شخص انہیں علاقے میں گھماتا ہے، جہاں ایک یو ایف او کلب اور بدھا کی مورتیاں ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ بدھا کی مورتی کے سامنے مراقبہ کرتے ہیں، تو ان کے ذہن میں خلائی مخلوق کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ویڈیو کے آخر میں، پرائس رات کے وقت یو ایف او دیکھنے کیلیے دیگر لوگوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
وہ آسمان میں چمکتے ہوئے روشنی کے چند نقطے دیکھتے ہیں، جو یو ایف او ہو سکتے ہیں۔پرائس کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر تجسس اور بحث کا طوفان پیدا کردیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’میں بھی یہ روشنیاں دیکھتا ہوں۔
میرے پاس فلائٹ ریڈار ہے، اور میں سیٹلائٹ کوآرڈینیٹس کو ٹریک کرتا ہوں تاکہ یقین کرسکوں کہ میں کچھ غیر معمولی دیکھ رہا ہوں۔ یہ روشنیاں فوجی ڈرونز یا خفیہ گاڑیاں بھی ہو سکتی ہیں، لیکن فی الحال میں انہیں ’اوربس‘ کہتا ہوں۔‘‘
ایک اور صارف نے لکھا ’’میں نے ذاتی طور پر ان چیزوں کو دیکھا ہے۔ یہ ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں اور کسی بھی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ طیارے نہیں ہیں۔ میں نے انہیں کئی ممالک میں دیکھا ہے، کیونکہ میں ہمیشہ ستاروں کو دیکھتا ہوں۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ کیا ہیں؟‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تھائی لینڈ کے خلائی مخلوق یو ایف او
پڑھیں:
کیا امریکی خلابازوں کی تاخیر سے واپسی کے پیچھے سیاسی وجوہات تھیں؟
امریکی خلاباز سنی ولیمز اور بچ ولمور کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر طویل قیام کے بعد واپسی کے حوالے سے ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کے اقدامات پر مختلف دعوے سامنے آئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مشیر ایلون مسک، جن کی کمپنی اسپیس ایکس نے خلابازوں کی واپسی میں مدد کی، کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال خلابازوں کو جلد واپس لانے کی پیشکش کی تھی، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ’’سیاسی وجوہات‘‘ کی بنا پر اسے مسترد کردیا۔ تاہم، ناسا اور خلائی ماہرین، بشمول دونوں خلابازوں کے، اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی تھا۔
4 مارچ کو ایک پریس کانفرنس میں، ناسا کے اہلکاروں نے کہا کہ خلابازوں کی واپسی میں تاخیر کی وجوہات میں حفاظت، ایک الگ مشن کے بجٹ کے خدشات، اور خلائی اسٹیشن پر عملے کو برقرار رکھنے کی خواہش شامل تھی۔ سنی ولیمز اور بچ ولمور کی واپسی کا منصوبہ اسپیس ایکس کے کریو کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایلون مسک سے ذاتی اپیل کرکے خلابازوں کی واپسی کو تیز کردیا۔ تاہم، خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ گزشتہ موسم گرما سے زیر غور تھا، اور ان کی واپسی کا شیڈول اسی منصوبے کے مطابق تھا۔
تاخیر سے واپسی کی وجوہات
سنی ولیمز اور بچ ولمور 5 جون 2024 کو فلوریڈا کے کیپ کیناورل اسپیس فورس اسٹیشن سے بوئنگ کے اسٹارلائنر خلائی جہاز پر زمین سے روانہ ہوئے تھے۔ اس مشن کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ کیا اس خلائی جہاز کو باقاعدہ خلابازوں کی تبدیلی کے مشنز کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، لانچ کے فوراً بعد، اسٹارلائنر میں ہیلیم کے کئی لیک ہوگئے، جس کی وجہ سے واپسی کا مشن روک دیا گیا۔
اگرچہ ہیلیم کے لیکس خلائی اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد مستحکم ہوگئے، لیکن تھرسٹرز کے مسائل کی وجہ سے ناسا نے اسٹارلائنر کو خالی واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ایلون مسک نے ناسا اور اسپیس ایکس کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ بنایا۔
اگست 2024 میں، ناسا نے اعلان کیا کہ وہ سنی ولیمز اور بچ ولمور کو فروری 2025 میں اسپیس ایکس کے ڈریگن کیپسول کے ذریعے واپس لائے گا۔ ستمبر میں، کریو-9 مشن لانچ کیا گیا، جس میں ناسا کے نک ہیگ اور روسی خلاباز الیگزینڈر گوربونوف شامل تھے، جو 29 ستمبر کو خلائی اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ کیپسول میں دو خالی سیٹیں سنی اور بچ کےلیے رکھی گئی تھیں، جو فروری میں واپس آنے والے تھے۔ ناسا کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ فروری کے آخر تک واپسی کا شیڈول دیگر مشنز کو متاثر کیے بغیر ممکن تھا۔
ٹرمپ اور مسک کے دعوے
ٹرمپ اور مسک نے حالیہ مہینوں میں دعویٰ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے خلابازوں کو نومبر کے انتخابات تک خلائی اسٹیشن پر رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ منفی تشہیر سے بچا جا سکے۔
18 فروری کو فاکس نیوز کے انٹرویو میں، ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے مسک کو خلابازوں کو واپس لانے کے مشن کو تیز کرنے کی اجازت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے جان بوجھ کر خلابازوں کو خلاء میں چھوڑ دیا تھا۔ مسک نے بھی اس بات کی تصدیق کی، لیکن ناسا اور خلابازوں نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا۔
خلابازوں کی رائے
سنی ولیمز اور بچ ولمور نے سی این این کے انٹرویو میں کہا کہ وہ خود کو ’’ترک شدہ’’ یا ’’پھنسے ہوئے‘‘ محسوس نہیں کرتے۔ ولمور نے کہا، ’’ہم تیار ہیں اور ہمارا عزم ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کےلیے تربیت دی گئی ہے۔‘‘
ناسا کی وضاحت
ناسا کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ خلابازوں کی واپسی کا فیصلہ بجٹ، حفاظت، اور خلائی اسٹیشن پر عملے کی ضروریات پر مبنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان نے بحث کو توانائی بخشی، لیکن اس نے فیصلوں کو متاثر نہیں کیا۔
نتیجہ
خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا، اور اس میں تاخیر کی وجوہات فنی اور مالی تھیں۔ ٹرمپ اور مسک کے دعوے سیاسی ہوسکتے ہیں، لیکن ناسا اور خلابازوں کے مطابق، یہ فیصلہ کسی سیاسی دباؤ کے بغیر کیا گیا تھا۔