والدین کے لیے لمحۂ فکریہ (دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
آج کل ماں باپ بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں پر بے جا پابندیاں نہیں لگاتے، اسی کا نتیجہ ہوتا ہے جو ارمغان جیسے بگڑے نوجوان پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی شکل دیکھیں تو چہرے سے ہی بگڑا ہوا لگتا ہے، جو کچھ وہ 2017 سے کر رہا تھا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ والدین خصوصاً والد کو پتہ نہ ہو بلکہ علاقے کی پولیس کو بھی کچھ نہ کچھ علم ضرور ہوگا، حالیہ کیس میں پولیس ابتدا میں اس کی مدد کرتی رہی۔ ایک آڈیو منظر عام پر آ چکی ہے جس میں کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ ’’ آپ کی وجہ سے ارمغان کو ہم نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘‘ ہر جگہ پیسہ بولتا ہے۔
کراچی میں جتنے بھی جرائم ہو رہے ہیں، ان میں سے اکثر پولیس کی مدد سے ہو رہے ہیں، جوئے کے اڈے، شراب کا کاروبار، فحاشی اور عیاشی کے اڈے، علاقے کی پولیس کی مدد وتعاون کے بغیر چل نہیں سکتے ۔
پولیس کے بعض اعلیٰ افسر اور تھانے کی سطح کے پرزے اس شہر کو بدنام زمانہ کاروبار سے پاک کرنا چاہتے ہیں نہ جرائم پیشہ مافیاز پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔میں نے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ میں قطعی اس بات پہ یقین نہیں رکھتی کہ ارمغان، ساحر حسن اور شیراز کی مشکوک سرگرمیوں سے ان کے والدین واقف نہیں تھے، پیسہ آتا کسے برا لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ اخبارات کی خبریں غائب ہونے لگی ہیں، صرف سوشل میڈیا متحرک ہے۔ ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں صاف نظر آتا ہے کہ کس کے منہ میں کس کی زبان ہے، وہی بات ہے کہ:
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
پہلے نظریں جھکا کر اور نظریں چرا کر سب کچھ کہا جاتا تھا، اب قیمت پہلے طے ہو جاتی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں دو نمبر کے پیسے کا الٰہ دین کا چراغ ہے تو پھر دنیا آپ کے قدموں میں، خواہ آپ کی اولاد کوئی بھی اور کیسی بھی غلط حرکتیں کر رہی ہو، تعلقات کا ڈنڈا ہاتھ میں ہو تو سب کچھ اچھا ہو جاتا ہے۔
والدین کے لیے وقت ایک لمحۂ فکریہ ہے، خصوصاً پوش ایریاز کے مکین جن کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے، ان میں سے بھی ’’شرفا‘‘ خاصے پریشان ہیں، گھر میں بڑے بوڑھے، دادا، دادی رہے نہیں، نام نہاد ’’پرائیویسی‘‘ کی بنا پر سب نے اپنے اپنے گھونسلے الگ الگ بنا لیے ہیں۔ اب بھی جن گھروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم برقرار ہے، ان کا ماحول الگ ہے۔
وہاں بڑوں کی عزت بھی ہے، جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی تربیت خود بخود اچھی ہو جاتی ہے۔ جہاں بچے والدین ، دادا، دادی سے ادب اور تمیز سے بات کرتے ہیں وہاں بچے خود اپنے بڑوں سے احترام سے پیش آتے ہیں۔ لیکن آج ’’پرائیویسی‘‘ کے ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے جو بگاڑ معاشرے میں پیدا ہو رہا ہے، اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، بچے اسکول اور کالج سے آ کر شام کو کوچنگ میں چلے جاتے ہیں اور واپس آکر اپنے اپنے موبائل فون میں گم۔ والدہ محترمہ کوئی ٹی وی کے ڈرامے اور موبائل پر میکے والوں سے بات کرنے سے فرصت نہیں، باپ تھکا ہارا آفس سے آتا ہے تو بیوی چائے کا کپ دینے سے گھبراتی ہے۔
روٹیاں ملازما پکا جاتی ہے، پھر بھی ہنڈیا پکنے میں رات کے دس بج جاتے ہیں کہ آٹھ سے دس بجے رات تک ٹی وی کے پرائم ٹائم پروگرام دیکھنے ضروری ہوتے ہیں اور بے چارہ شوہر اگر کبھی گرم روٹی کی فرمائش کر دے تو وہ فرماتی ہیں کہ ’’کیا مجھے گرم روٹی پکوانے کے لیے لائے تھے؟‘‘ اور بھی بہت سے مکالمات اس دوران دونوں طرف سے ادا ہوتے ہیں، گھر میں کوئی بڑا بوڑھا ہے نہیں جو دونوں کی تکرار بند کرا دے۔ آخر تھک ہار کر شوہر ہی کو خاموش ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ بیوی اگر چپ ہوگی تو گویا اس نے ہار مان لی ہے اور خواتین تنظیموں کی ڈسی ہوئی عورتیں خاموش ہونا نہیں جانتیں۔
بہت سارے والدین کی آنکھیں ارمغان، مصطفیٰ عامر اور ساحر حسن کیس نے کھول دی ہیں، پہلے لوگ کہتے تھے کہ لڑکیوں کا پالنا بہت مشکل ہے، لیکن آج کے دور میں لڑکوں کا پالنا بھی بہت مشکل ہے، کہاں جا رہے ہیں، کس کی صحبت میں بیٹھ رہے ہیں، غلط سوسائٹی میں تو نہیں موو کر رہے، یہ سب باتیں پہلے تو معنی رکھتی تھیں، لڑکے باپ سے ڈرتے تھے، لیکن آج جو مادر پدر آزادی کا ماحول چل رہا ہے، اس میں والدین نے بالکل چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔
ڈائننگ ٹیبل پر بھی پلیٹ کے ساتھ موبائل رکھا ہے، ماں باپ نظر نہیں آ رہے نہ کوئی اور، جتنے بچے ہیں اتنے موبائل بھی لے رکھے ہیں، چمچہ پلیٹ میں نظریں موبائل پر، اندازے سے کھانا منہ میں ڈال لیا، باپ یا ماں یہ نہیں پوچھتے کہ آدھی رات کو کہاں سے آ رہے ہو؟ نہ وہ یہ نوٹس لیتے ہیں کہ بیٹا آتے ہی کسی سے بات کیے بغیر دھڑام سے بستر پہ گرا اور سو گیا، کیا وہ کوئی نشہ تو نہیں کرکے آ رہا، لیکن والدین کے پاس بھی وقت نہیں۔ لہٰذا پھر نتیجے کے طور پر وہ یا تو ارمغان بن جاتے ہیں یا پھر ظاہر جعفر، جس نے نور مقدم نامی لڑکی کو بے رحمی سے قتل کر دیا ۔
مصطفیٰ عامر کی ماں نے بھی بیٹے کو بدقماش اور بدمعاش امیر زادوں سے ملنے سے نہیں روکا، سوکالڈ اپر کلاس جنھیں کہا جاتا ہے یہی معاشرے کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ چرس، گانجا، کوکین، آئس، جنگل بوائے اور نہ جانے کون کون سے نشے یہ بگڑے امیر زادے کرتے ہیں۔ ضیا الحق اور ساتھیوں نے افغانوں اور ہیروئن کا عذاب پاکستان پر مسلط کیا، آج بھی کراچی میں افغانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں غیر قانونی طور پر رہ رہی ہے۔
لڑکیوں نے بھی بہت پَر پرزے نکال لیے ہیں، جو وہ اپنی ماؤں کی آشیرواد سے پھیلاتی ہیں، دوپٹے غائب ہوگئے ہیں، مائیں خود بیٹیوں کو جینز اور ٹی شرٹ میں دوستوں کی پارٹیوں میں بھیجتی ہیں، خود بھی بغیر دوپٹے کے بازاروں میں گھومتی ہیں۔
لڑکیاں آئے دن گیٹ ٹو گیدر کا بہانہ بنا کر اپنے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ گھومتی ہیں، کبھی کالج میں پریکٹیکل کا بہانہ بنا کر دیر تک غائب رہتی ہیں۔ اپنی تیس سال کی سروس کے دوران بارہا کالج کی لڑکیوں کو پکڑا، لڑکیاں گھر سے کالج کا کہہ کر آتی اور باہر ہی سے لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں، جب بعض لڑکیاں دس دس دن تک غیر حاضر رہیں تو ان کے گھر لیٹر بھیجے گئے کہ آپ کی نور چشم مسلسل غیر حاضر کیوں ہے؟ پتا چلا کہ وہ تو روز کالج کے لیے نکلتی ہے، ماں بہت پریشان بھی ہوئیں اور شرمندہ بھی۔ کبھی کبھی لڑکیوں کے کالج جا کر ان کی متعلقہ ٹیچر سے ماؤں کو پوچھنا چاہیے کہ ان کی بیٹی کالج آ رہی ہے یا نہیں؟ اسی طرح ماں یا باپ کو لڑکے کے کالج جا کر بھی معلوم کرنا چاہیے، ورنہ معاشرے میں ارمغان اور ظاہر جعفر جیسے نوجوان پیدا ہوتے رہیں گے۔ والدین کو بچوں کو وقت دینا چاہیے، یہ ان کی ذمے داری ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حسن نواز کی کارکردگی پر والدین آبدیدہ، اہل محلہ خوشی سے نہال
پاکستان نے تیسرے ٹی20 میچ میں نیوزی لینڈ کو 9 وکٹوں سے شکست دیدی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے 205 رنز کا ہدف 4 اوورز پہلے ہی ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ میچ کی خاص بات حسن نواز کی تیز ترین سینچری ہے جو انہوں نے صرف 44 گیندوں پر اسکور کی۔ یہ ٹی20 کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے تیز ترین سینچری بھی ہے۔ مردِ میدان حسن نواز نے آج اپنا تیسرا انٹرنیشنل میچ کھیلا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں