پاکستان بطور ریاست ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔پاکستان میں موجود فیصلہ ساز اداروں اور افراد کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہماری مشکلات میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ ریاستی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ہمیں خوش فہمی اور جذباتیت کی سیاست یا خوشنما سطح کے نعروں سے باہر نکل کر حالات کا درست تجزیہ بھی کرنا ہوگا اور یہ ادراک کرنا ہوگا کہ ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہے۔
عمومی طور پر داخلی چیلنجز کی موجودگی ہمیں علاقائی اور عالمی سطح کے مسائل میں اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ داخلی نظام کی ہی کمزوریاں ہیں کہ ہم مختلف محاذوںاور مسائل پر یا سوچ و فکر میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔
یہ تقسیم چاہے سیاسی نوعیت کی ہو یا کسی اور نوعیت کی ہمیں اور زیادہ الجھا رہی ہے۔ہم اپنے داخلی مسائل کی ذمے داری خارجی وعلاقائی قوتوں پہ ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ بات بجا کہ علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے مسائل بھی ہمارے مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔لیکن اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے ہم سیاسی تنہائی کا بھی شکار ہوئے ہیں۔مگر ہم ان معاملات کی ناکامی کی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وقت ہمیں چھ بڑے داخلی چیلنجز کا سامنا ہے۔اول، انتہا پسندی اور دہشت گردی ۔دوئم، سیاسی عدم استحکام ، تقسیم اور کمزور جمہوری نظام ،سوئم، کمزور معیشت اور دوسروں پر خود انحصاری،چہارم،گڈ گورننس یعنی اچھی حکمرانی کا بحران،پنجم، آئین اور قانون کی حکمرانی سے انحراف اور کمزور ادارہ جاتی نظام،ششم، عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کی فراہمی سے انحراف شامل ہیں۔یہ تمام تر داخلی چیلنجز بطور ریاست ہمیں درپیش ہیں اور یہ کسی ایک حکومت کے پیدا کردہ نہیں بلکہ تمام حکومتیں اس کی ذمے دار ہیں۔
ہم نے اپنے داخلی معاملات سے نمٹنے اور اس کی درستگی کے لیے کوئی ایسا مربوط نظام نہیں بنایا جو ہمیں ترقی کی حقیقی منزل کی طرف لے کر جا سکے۔ہماری مجموعی پالیسی ایک رد عمل پر مبنی ہے۔یعنی اگر کچھ خرابی پیدا ہو جائے تو ہم فوری طور پر متحرک ہو جاتے ہیں لیکن ایک جامع منصوبہ بندی کا فقدان یا لانگ ٹرم ،مڈ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی کا نہ ہونا بھی ہماری ناکامی کی بڑی وجوہات کا حصہ ہے۔اسی طرح اگر بطور ریاست ہم نے داخلی محاذ پر بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کرنی یا لوگوں کو اظہار آزادی کی اجازت نہیں دینی یا نظام کو ریموٹ کنٹرول جمہوریت کی بنیاد پر چلانا ہے تو اس سے ہماری داخلی ساکھ دنیا میں متاثر ہوگی ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بطور حکومت ہمیں اپنے داخلی مسائل کا درست ادراک ہے اور ہم نے ان سے نمٹنے کی بہتر حکمت عملی کو اختیار کیا ہے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہم زیادہ خرابی کی طرف بڑھیں گے۔ ہمارے سارے ادارے اپنی اپنی سطح پر آئینی و قانونی دائرہ کار میں کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت یا ٹکراؤ کی پالیسی نے ادارہ جاتی عمل کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ سیاست مشکلات کو کم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔
عوامی مفادات کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دے کر اس نظام کو اور زیادہ کمزور کیا رہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی ہے ۔ بنیادی طور پر ریاست کی مضبوطی لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے۔اسی اعتماد کی بنیاد پر لوگ ریاست کے ساتھ مشکل حالات میں بھی کھڑے ہوتے ہیں۔لیکن یہاں لوگ مجموعی طور پر ریاستی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ریاستی پالیسیاں ہمارے مفادات کے برعکس ہیں۔الزام تراشیوں،کردار کشی اور محاذ آرائی کی سیاست نے قوم کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے،مجموعی طور پر ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے سے انکاری ہیں اور نفرت کی سیاست کو پیدا کر رہے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے باوجود ہم مرکزیت پر مبنی نظام چلانا چاہتے ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کی بجائے اس میں اور زیادہ اضافہ کر رہا ہے۔خود مختار مقامی اور مضبوط حکومتیں ہمارے ریاستی نظام کی ترجیحات کا کبھی حصہ نہیں رہیں۔اسی بنیاد پر ہمارا حکمران طبقہ اداروں کو آئین اور قانون کی پاسداری کی بجائے ان کو اپنے مفادات کے طور پر چلانا چاہتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آئین اور قانون کمزور اور حکمرانوں کے مفادات زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔معاشی استحکام و معاشی ترقی کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں۔لیکن حقیقی معنوں میں ہمارے معاشی حقائق اور لوگوں کی معاشی حالت کافی کمزور ہے۔آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے عام آدمی کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ دہشت گرد ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔دہشت گردی کی موجودگی میں سیاسی اور معاشی استحکام کی باتیں بہت کمزور نظر آتی ہیں۔
دہشت گردی سمیت دیگر ریاستی مسائل پر ایک بڑا تضاد فیصلہ سازی کا ہے۔فیصلے کون کرتا ہے اور کیوں تمام فریقین کو فیصلہ سازی سے دور رکھا جاتا ہے یا پارلیمان اس سارے عمل میں کیوں منظر پر نہیں یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور ہونا چاہیے۔اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے داخلی معاملات کا درست تجزیہ کرنا ہوگا اور خود احتسابی کے عمل کو فروغ دینا ہوگا۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں اور جو حالات کی خرابی ہے اس کو پیدا کرنے میں ہم بھی کسی نہ کسی سطح پر ذمے دار ہیں۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج کی گلوبل دنیا میں ہم کچھ نہیں چھپا سکتے۔
دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ دنیا سے اوجھل نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا میں بھی ہمارے نظام کے بارے میں بہت سے تحفظات موجود ہیں ۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ ریاست اور حکمرانی کے نظام میں متبادل آوازوں کو سننے کی سوچ اور فکر کو پیدا کرنا پڑتا ہے۔اگر ہم متبادل آوازوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور ان کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کریں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔اسی طرح سیاسی معاملات کا حل بھی اگر ہم نے طاقت کے انداز سے کرنا ہے تو وہ بھی سیاسی تقسیم کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
ہم پہلے ہی اپنا بہت سا وقت برباد کر چکے ہیں اور اگر ہم نے اب درست حکمت عملی اختیار نہ کی تو مزید نئی مشکلات ہمارے لیے اور زیادہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بنیں گی۔اس لیے مسئلے کا حل محض ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں بلکہ اجتماعی طور پر مل بیٹھ کر ایک ایسا روڈ میپ تیار کرنا ہوگا جو ہمیں داخلی مسائل سے نجات دے سکے۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب بطور حکومت ہم اپنی اپنی سطح پر ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور ماضی و حال کی غلطیوں سے گریز کیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: داخلی چیلنجز داخلی مسائل کرنے کا سبب اپنے داخلی کو پیدا کر اور زیادہ کرنا ہوگا ہیں لیکن نے داخلی رہے ہیں ہیں اور رہا ہے
پڑھیں:
خیبرپختونخوا کو کیش لیس کرنے کا فیصلہ، ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام متعارف
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈا پور نے چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو کیش لیس خیبر پختونخوا اقدام کے فوری اور مؤثر نفاذ کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔
اس ضمن میں چیف سیکرٹری کو ایک ہدایت نامہ جاری بھی کیا گیا ہے۔ اس انقلابی اقدام کے تحت تمام کاروباروں کے لیے لازمی ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے، جس کا مقصد مالی شفافیت کو فروغ دینا، نقدی پر انحصار کم کرنا، اور کاروباری ماحول کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
اس اقدام سے نہ صرف خیبر پختونخوا کی معیشت ڈیجیٹل دور میں داخل ہوگی بلکہ اس اقدام سے معاشی ترقی، ٹیکس کمپلائنس، اور فِن ٹیک سرمایہ کاری کو بھی فروغ ملے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی روک تھام ممکن ہوگی، اور خیبر پختونخوا پاکستان کا پہلا کیش لیس صوبہ بننے کی راہ پر گامزن ہوگا۔
اس اقدام سے خیبر پختونخوا جدید دور کے ادائیگی سسٹم کی دوڑ میں باقاعدہ شامل ہوجائے گا۔