لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 مارچ 2025ء)پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کنیکٹیوٹی کے چیئرمین میاں خورشید محمود قصوری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جیت کے بعد عالمی سطح پر بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل حقائق پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کا موقع فراہم کر سکتےہیں۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے یکساں خطرہ ہے اور کسی بھی ممکنہ سفارتی پیش رفت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ دونوں ممالک کے پاس بڑی فوجی قوت کے ساتھ بڑے جوہری ذخائر اور جوابی حملے کی صلاحیت موجود ہے، ایسے میں جنگ کا خیال بھی پاگل پن ہوگا۔اگر دونوں ملک اپنے باہمی تنازعات کو پُر امن انداز میں حل کرنے کے موقع کو گنوا دیتے ہیں، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر ایک طے شدہ فارمولا موجود ہے جسے ’چار نکاتی فارمولا ‘ کہا جاتا ہے (در حقیقت گیارہ سے بارہ نکات ) ، تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔

(جاری ہے)

میاں خورشید قصوری نے بلوچستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کلبھوشن یادو کی گرفتاری کا حوالہ دیا اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں موجود مضبوط تاثر کی نشاندہی کی۔ انہوں نےاس حوالے سے بھارتی رہنماؤں، بشمول وزیر اعظم نریندر مودی، مسٹر امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور اجیت ڈوول کے بیانات کا حوالہ دیا۔

سابق وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو دونوں ملک کھیل سکتے ہیں اور ایسے اقدامات اور جوابی اقدامات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے، جس میں کوئی بھی فاتح نہیں ہو گا۔ وہ لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کنیکٹیوٹی کے زیرِ اہتمام پاک بھارت تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے زیرِ قیادت بی ۔

جے۔ پی اور کانگرس دونوں پارٹیوں کی حکومتوں سے بات چیت کر چکے ہیں اور وہ اپنے تجربے کی بنیا د پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ موجودہ مایوس کن صورتِ حال کے باوجود بھارتی عوام کی خاموش اکثریت موجودہ حکومت کی ایسی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتی۔ انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ بی ۔جے۔ پی کی موجودہ حکومت کو ڈالے جانے والے کل ووٹوں کا محض تیسرا حصہ ہی ملا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ اندازہ ہے کی وزیرِ اعظم مودی جو کہ ’تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ ‘کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ، اپنی سیاسی سفر کے اختتام سے پہلے شاید کوئی مثبت میراث چھوڑنا چاہیں۔ اس تقریب میں نامور میڈیا شخصیات، ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور وائس چانسلرز کے علاوہ اور سول سوسائٹی کے ممتاز افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی، تقریب کے مہمانِ خصوصی جنگِ آزادی کے عظیم رہنما سبھاش چندر بوس کے نواسے، ممتاز صحافی، مصنف، تجزیہ کارمسٹر آشیش رے تھے ،جنہوں نے اس تقریب سے کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کیا۔

میاں خورشید قصوری نے معزز مہمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی۔ سابق وزیر خارجہ نے جیو پولیٹکس میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کا ذکر کیا جو صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد رونما ہونا شروع ہوئیں اور جنہوں نے امریکہ کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں ہر ملک بشمول بھارت کو بھی متاثر کرسکتی ہیں، اور بھارت کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔

اس حوالے سے انہوں نے بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ مسٹر شیام سرن کے ایک حالیہ مضمون کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے’’ کہ وہ امریکہ پر بھروسہ نہ کرے اور امریکہ کا ایک آسان مہرہ نہ بن کر نہ رہ جائے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو جنوبی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ سابق وزیر خارجہ نے موجودہ چیلنجز اور کشیدہ حالات کے باوجود اپنے تجربے کی بنیاد پر اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ پاکستان بھارت تعلقات اچانک اور غیر متوقع طور پر مثبت سمت میں جا سکتے ہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح صدر پرویز مشرف، جو کچھ عرصہ پہلے بھارت میں کارگل جنگ کے معمار کے طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ پھر یکایک ان کو بھارت میں دورے کی دعوت ملی اور ان کا وہاں قابل دید گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف یہ کہ ان کے آبائی گھر کا کھوج لگا لیا گیا ،بلکہ ان کی اس بوڑھی ’آیا ‘ کو بھی ڈھونڈ نکالا گیا جو صدر مشرف کے بچپن میں ان کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں ۔

اسی طرح انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والے سارک سر براہی اجلاس کی یاد تازہ کرتے ہوئے ’جس میں وہ خود بھی شریک تھے‘ کہا کہ آخر وقت تک یہ بات معلوم نہ تھی کی آیا صدر مشرف اور وزیرِ اعظم واجپائی کے درمیان دوطرفہ ملاقات ہو پائے گی یا نہیں ۔ یہ ملاقا ت ہوئی جس کے نتیجے میں ۱۹۴۷ کے بعد پہلے کامیاب ترین امن عمل کا آغاز ہوا جس میں دونوں فریق مسئلہ جموں کشمیر کے حل کے متفقہ فریم ورک پر راضی ہو گئے با لکل اسی طرح وزیرِاعظم مودی نے لاہور میں وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ اچانک ملاقات کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا ۔

ایسا ہی ایک حیران کن اقدام اس سے قبل وزیرِ اعظم واجپائی نے انجام دیا تھا ۔ انہوں نے وزیرِ اعظم نواز شریف کے دور میں بس کے ذریعے لاہور پہنچ کر سب کو حیرت زدہ کردیا تھا مزید براں یہ کہ اس بات کی بھی قابل ِ اعتبار اطلاعات موجود تھیں کہ ۲۰۲۱ میں وزیرِ اعظم نریندر مودی بظاہر ہنگلاج ماتا مندر کی یاترا کے لئے پاکستان آنے والے تھے جس کے بعد ان کےاس دورے کو اسلام آباد میں وزیرِاعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں بدل دیا جانا تھا جس میں امن عمل کی بحالی کا فیصلہ ہونا تھا۔

خورشید قصوری نے کہا کہ ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، وہ مستقبل میں بھی اسی طرح کی غیر متوقع اور مثبت پیش رفت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ موجودہ تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے، سابق وزیر خارجہ نے اس دور کو تاریخ کے بدترین ادوار میں سے ایک قرار دیا، سوائے ان اوقات کے جب دونوں ممالک براہ راست جنگ میں مصروف تھے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جنگوں کے بعد بھی، پاکستان اور بھارت نے جلد ہی مذاکرات کی میز پر واپسی کی اور امن عمل کو دوبارہ شروع کیا۔

تاہم، انہوں نے اس بگاڑ کا بنیادی سبب بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندوتوا پر مبنی سیاست کو قرار دیا، جو کہ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں، پاکستان، اور بنگلہ دیش کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔تاہم، انہوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ تاریخ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اچانک اور غیر متوقع طور پر بہتر ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام اس بات پرکیا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان اور بھارت آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ غریب آبادی رکھنے والے ممالک میں شامل ہیں اور ترقی کے میدان میں دیگر خطوں اور ممالک جیسے چین، جاپان اور آسیان ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس کی بنیادی وجہ آزادی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان جاری مسلسل کشیدگی کو قرار دیا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے انہوں نے اس کرتے ہوئے پاکستان ا بھارت کے بھارت کو کے ساتھ نے والے کے بعد کہا کہ اس بات

پڑھیں:

پی ٹی آئی قومی سلامتی پر نہیں، فوج کی وردیاں اچھالنے کیلئے اکٹھی ہوجاتی ہے، مریم اورنگزیب

پی ٹی آئی قومی سلامتی پر نہیں، فوج کی وردیاں اچھالنے کیلئے اکٹھی ہوجاتی ہے، مریم اورنگزیب WhatsAppFacebookTwitter 0 19 March, 2025 سب نیوز

لاہور(سب نیوز)سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی قومی سلامتی پر نہیں، فوج کی وردیاں اچھالنے کیلئے اکٹھی ہوجاتی ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس حکومتی کامیابیوں اور ریلیف سے متعلق نہیں بلکہ جعفر ایکسپریس کے افسوسناک سانحے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد چاہتے تھے کہ مغویوں کو محبوس کرکے معاملے کو طول دیا جائے، مگر پاک فوج نے 36 گھنٹوں میں تمام مغوی بازیاب کروائے اور دہشت گردوں قلع قمع کیا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی فوج یا کسی ایک ادارے کے خلاف نہیں،ملک کے خلاف ہوتی ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں لیکن ایک جماعت نہیں تھی۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے،جب بھی قومی سلامتی کی بات ہوتی ہے تو بانی پی ٹی آئی شریک نہیں ہوتے۔ یہ قومی سلامتی کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے، ان کا کام صرف شہدا کی یادگاروں کو جلانا، پاک فوج کی وردیاں ڈنڈوں پر اچھالنے کے لیے اکٹھا ہونا ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ لوگ فوج کے خلاف بیانہ بنانے اور پراپیگنڈا کرنے کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں، ایک چورکوجیل میں ڈالیں،190 پاونڈ کا سوال کریں تو اسے آزادی اظہار پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے پاک صوبے کو خود ان لوگوں نے دوبارہ دہشت گردی کا گھر بنایا۔ جب جب ملک ترقی کرتا ہے دہشت گردی شروع ہوجاتی ہے۔ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے فوج کے خلاف بیانیہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ گنڈا پور صاحب! 12 سال سے کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، آپ استعفا دیں اور کہیں کہ مجھ سے صوبہ نہیں چل سکتا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس وقت پوری قوم اور سیاسی جماعتوں کو فوج کے پیچھے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور کھڑی ہیں، سوائے پی ٹی آئی کے۔انہوں نے وضاحت کی کہ میاں نوازشریف اپنی طبیعت کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے۔ انہوں نیپیغام بھیجا تھا کہ وہ ملک کے لیے ہر جگہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک مشکل جگہ پر کھڑے ہیں۔ 2013 میں جب ن لیگ کی حکومت آئی، وزیر اعظم نواز شریف نے معیشت کی بہتری اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کام شروع کیا۔ اے پی ایس کا افسوسناک واقعہ ہوا ملک اس وقت بھی دوراہے پر کھڑا تھا۔میاں نواز شریف نے اس وقت پوری قوم کو ایک بیانیہ دیا۔انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت کے خلاف کوئی سیاسی جماعت دہشت گردی نہیں کرتی۔ ایک شخص جو اس وقت دھرنے کررہا تھا اس کو بھی ٹیبل پر بٹھایا گیا۔ کل نیشنل سکیورٹی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی، کل تمام سیاسی جماعتیں اپنی باتیں بھلا کر موجود تھیں، تمام عسکری قیادت موجود تھی۔ کل اعلامیے پر صرف ایک جماعت کے دستخط نہیں تھے۔
سینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ جب جب ملک کی نیشنل سکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو تحریک انصاف غائب ہوتی ہے ۔ انہوں نے کل دکھایا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تحریک انصاف اپنا حصہ ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ جماعت اپنے بانی کی طرف دیکھ رہی ہے کہ اس کا جواب آئے گا تو جائیں گے جب کہ پاکستان کو ایک مشترکہ بیانیے کی ضرورت تھی۔انہوں نے کہا کہ کورونا تھا تو یہ اٹھ کر چلے گئے جب شہباز شریف تقریر کرنے لگے۔کور کمانڈر کوئٹہ شہید ہوگئے، سیلاب کی صورتحال کے دوران تو کیا کیا سب کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم ہو تو اس کا حصہ نہیں بنتے، اپوزیشن میں ہوتے ہو تو کہتے ہیں چھوڑو گے تو جاں گا۔ کل پاکستان کو ایک آواز کی ضرورت تھی جس کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا۔
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ انہوں نے کووڈ، سیلاب کے خلاف اکھٹے ہونا ہے۔ انہوں نے منتخب وزیر اعظم کے خلاف اکھٹے ہونا ہے ، 9مئی کے لیے اکھٹے ہونا ہے ، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے کے لیے اکھٹا ہونا ہے۔ دنیا میں کون سی سیاسی جماعت ان کاموں کے لیے اکھٹا ہوتی ہے؟۔ انہوں نے بچوں کے ہاتھوں میں پیٹرول بم دینے کے لیے اکھٹے ہونا ہے فوج کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے اکھٹے ہونا ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ان سے 190ملین پاونڈز کا جواب مانگو تو جواب نہیں ہے۔ کہتے ہیں کے پی کے کو پیسے نہیں ملتے، اس لیے جنگ نہیں لڑسکتے ۔ نواز شریف نے دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان دیا تھا ۔ 800 بلین دیا تمہیں، کدھر گیا؟ سی ٹی ڈی آج بھی کرایے کی بلڈنگ میں ہے۔ کہتے ہیں ملک نہیں چل رہا، یہ کہو صوبہ نہیں چل رہا ۔انہوں نے کہا کہ آج ملک دوبارہ ترقی کررہا ہے، صنعتیں لگ رہی ہیں، لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔ دہشت گرد دوبارہ ملک پر حملہ آور ہیں۔ جب جب پاکستان ترقی کرتا ہے تو ان کو پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز تو صوبائی نیشنل ایکشن پلان کو مضبوط کررہی ہیں، مگر تم کیا کررہے ہو؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو فوج کے خلاف بیانیہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ کے پی کے میں 12 سال سے حکومت تحریک انصاف کی ہے کہو مجھے عقل نہیں ہے مجھ سے کام نہیں ہوتا۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سب کو پاک فوج کے پیچھے یک زبان ہو کر کھڑا ہونا ہے صرف ایک جماعت کے سوا، جن کو صرف آگ پھیلانی آتی ہے۔ انہوں نے تماشا لگایا ہوا ہے کہ ہماری ملاقات نہیں ہوئی، ملاقات کروائیں گے تو آکر کہیں گے کہ قیدی کو کھانا نہیں ملا۔ 12 سال سے تمہاری حکومت ہے، ساڑھے 4 سال تمہاری وفاق میں حکومت تھی، کرلیتے۔ایک بٹن دباتے ہیں ملک کے خلاف غلاظت اگلنے لگ جاتی ہیں، جواب پوچھو تو فریڈم آف اسپیچ یاد آجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کس طرح سے ملک ترقی کررہا ہے سب کے سامنے ہے۔ کل مولانا فضل الرحمن اور اے این پی بھی اجلاس میں موجود تھے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان ہے تو ہماری سیاست ہے۔ پاکستان کی آنے والی نسلوں کی بقا کا عزم ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کل فیصلہ ہوگیا ہے کہ اس طرح کی جو بھی حرکت کرے گا اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ میں تو ان کو سپورٹ کرنے والوں پر حیران ہوں۔ یہ کبھی ریاست کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ ہم ملکی سالمیت اور بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ جیسے 2014 میں اکھٹے ہوکر دہشت گردی کو صاف کیا تھا۔ میڈیا اور تمام صوبائی حکومتوں کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو پاکستانیت کی ضرورت ہے ۔ شہباز شریف ان شا اللہ ملک کی دہشت گردی سے جان چھڑوائیں گے۔سینئر صوبائی وزیر پنجاب نے کہا کہ یہ پورے ملک کا، پاکستان کی ریاست کا معاملہ ہے۔ پورا ایکشن پلان کل تیار کرلیا گیا ہے۔ جو بھی فیصلہ ہوگا تمام سیاسی جماعتیں، جنہوں نے کل اس پر دستخط کیے ہیں۔ جو بھی دہشت گردوں کا ساتھ دے گا، وہ بھی دہشت گردی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پالیسی بدلی نہ پاکستانیوں کے اسرائیل جانے کا علم، دہشت گردی میں بھارت ملوث: پاکستان
  • وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات، دونوں ممالک کے بڑھتے اقتصادی تعاون پر اظہار اطمینان
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات
  • وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات، باہمی تعاون اور اقتصادی شراکت داری کے فروغ پر اتفاق
  • پی ٹی آئی قومی سلامتی پر نہیں، فوج کی وردیاں اچھالنے کیلئے اکٹھی ہوجاتی ہے، مریم اورنگزیب
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف اعلی سطح وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے کیلئے روانہ
  • وزیرِ اعظم اعلی سطح وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے اہم دورے پر روانہ
  • وزیرِاعظم شہباز شریف اعلی سطح وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے اہم دورے پر روانہ
  • دہشتگردی کا تدارک پیچیدہ مسئلہ، حل کیلئے ہوش مندی درکار ہے، پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی