گنڈا پور کہتے آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے،پارلیمانی میٹنگ میں آپریشن کی بات ہی نہیں ہوئی
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 20 مارچ 2025ء ) وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا ہے کہ گنڈا پور کہتے آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے،پارلیمانی میٹنگ میں آپریشن کی بات ہی نہیں ہوئی،کنفیوژن پیدا کرنے کیلئے آپریشن کا شوشہ چھوڑا گیا ہے، زیراعلیٰ علی امین اگر دہشتگردوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے تو ان کے دوست بن کر ان کے ساتھ بھی کھڑے نہ ہوں۔
انہوں نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کیمرہ بریفنگ ہوئی ، ان جماعتوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی جو دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہیں یا پھر ان میں اتنی ہمت نہیں کہ ان دہشتگردوں کے سامنے کھڑی ہوسکیں۔پی ٹی آئی پھر پاکستان کے سکیورٹی ایشو پر بڑی میٹنگ سے باہر رہی،عمران خان اپنی حکومت میں بھی سکیورٹی میٹنگ میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکاری رہا، عمران خان نے اپنے دور میں دہشتگردی کا بیج بویا جس کی وجہ سے آج ہر روز شہادتیں ہمارے نصیب میں لکھی گئی ہیں۔(جاری ہے)
نہ وہ پالیسی بنتی اور نہ دنیا کو مطلوب دہشتگردوں کو پاکستان میں بسایا جاتا۔کے پی وزیراعلیٰ علی امین اسی میٹنگ بارے بیانات دے رہے، قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے پر کنفیوژن پیدا کی جارہی ہے، وہ اعلامیہ جو پاکستان کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔ علی امین گنڈا پور کہتے آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، میں کہتا ہوں کہ نیاآپریشن نہیں ہونے جارہا، نہ ہی نئے آپریشن بارے کوئی بات ہوئی ہے۔کنفیوژن پیدا کرنے کیلئے آپریشن کا شوشہ چھوڑا گیا ہے، واضح طور پر کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر من وعن عملدرآمد کیا جائے گا۔پاکستان میں دہشتگردی ہو اور اس کیخلاف کاروائی کرنے کیلئے پاکستان کی کوئی حکومت یا ادارہ ہچکچائے تو وہ کس کے ساتھ کھڑا اس کیلئے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔وزیراعلیٰ کے پی اگر دہشتگردوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے تو ان کے دوست بن کر ان کے ساتھ بھی کھڑے نہ ہوں۔بانی پی ٹی آئی نے ایک ہفتے بعد جعفر ایکسپریس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ سکیورٹی فورسز اور ایجنسیز کی ناکامی تھی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آپریشن کی کھڑے نہ کے ساتھ
پڑھیں:
دہشتگردوں کو واپس لانے کی پالیسی جنرل باجوہ، جنرل فیض اور بانی پی ٹی آئی کی تھی، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں شریک تھا، میٹنگ میں لوگوں نے دہشتگردوں کو لانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ یہ پالیسی جنرل باجوہ، جنرل فیض اور بانی پی ٹی آئی کی تھی، ہمیں جتنی شدت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہیے تھی شاید ہم اثرات کو صحیح طرح اندازہ نہیں کرسکے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ میں نے میٹنگ میں بات نہیں کی تھی اندازہ تھا کہ سب کچھ طے ہے، میٹنگ میں سوالات ہوئے میں خود گواہ ہوں، میں نے حصہ نہیں لیا، میٹنگ میں محسن داوڑ بولا، دوبارہ بولنے کے لیے اٹھے تو ان کو بٹھا دیا گیا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ واپس لاکر بسائے گئے افراد کی تعداد 4 ہزار کے لگ بھگ بتائی جا رہی تھی، کچھ بندے اس پالیسی کے تحت آچکے تھے، ان کے خلاف جلوس بھی نکل رہے تھے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ بلوچستان میں موجود لوگوں کے تانے بانے ایران اور افغانستان میں بھی ہیں، دہشتگردوں کے خلاف کائنیٹک آپریشن چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں یاد کہ میٹنگ میں آپریشن کیلئے تین ماہ کی مدت کا کہا گیا ہو، میٹنگ میں اگر مدت سے متعلق بات اگر ہوئی بھی ہو تو میں نہیں بتاؤں گا، علی امین گنڈاپور نے اجلاس میں رسمی تنقید کی ہے۔