ملک کے پانی کی کمی تشویشناک حد تک پہنچ گئی، ڈیمز کی تفصیلات سامنے آ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
ملک کے پانی کی کمی تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے، تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول پرپہنچ گیا جبکہ منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ صرف 4 فٹ رہ گیا۔ چشمہ بیراج میں بھی پانی ختم ہونے کے قریب ہے۔ دریائے راوی میں بھی 13 سو کیوسک پانی موجود ہے۔
ملک بھر کے ڈیموں اور دریاؤں میں پانی کی کمی سنگین صورتحال اختیار کرگئی۔ تربیلا ڈیم میں پانی ڈیڈ لیول پر پہنچ گیا ہے۔ منگلا ڈیم میں بھی پانی کا ذخیرہ صرف چار فٹ رہ گیا۔ چشمہ بیراج میں بھی پانی ختم ہونے کے قریب ہے۔
منگلا ڈیم سے پانی کااخراج بند ہونے دریائے جہلم بری طرح متاثر ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کمی 53 فیصد تک جا پہنچی۔ سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں کے حلق سوکھنے لگے۔ سندھ کی 90 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں خطرے سے دوچار ہو گئیں۔
ہیڈ مرالہ پر بھارتی آبی جارحیت کے باعث دریائے چناب مکمل خشک ہو گیا۔ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بری طرح متاثر ہیں۔ہری پور میں واقع تربیلہ ڈیم میں پانی کا بحران شدت اختیارکرگیا۔ تربیلا میں کل17یونٹس میں سے صرف 8 یونٹس کام کر رہے ہیں ۔دوسری طرف دریائے راوی جس میں اڑھائی لاکھ کیوسک فٹ پانی کی گنجائش ہے، اس میں صرف 13 سو کیوسک پانی موجود ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں پانی میں بھی ڈیم میں پانی کی
پڑھیں:
دریائے سندھ پر 6 نہریں نہیں بننے دیں گے، سعید غنی
میڈیا سے گفتگو میں وزیرِ بلدیات سندھ نے کہا کہ پنجاب میں بھی پانی کی قلت ہے، جو پانی انہیں چاہیئے وہ میسر نہیں ہے، یہ کون سے پنجاب کا پانی نکالیں گے اور کہاں لے جائیں گے، گورنر سندھ کی پارٹی وفاق میں ہے وہ مہربانی کریں کہ وفاق کو کہیں کہ کراچی پر پیسہ لگائیں، وفاق کو کراچی بہت حصہ دیتا ہے اور مطالبہ سندھ حکومت سے ہو رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِ بلدیات سندھ سعید غنی نے واضح کر دیا ہے کہ دریائے سندھ پر 6 نہریں نہیں بننے دیں گے۔ سعید غنی نے شاہراہِ بھٹو کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملیر ایکسپریس وے پر قائد آباد انٹرسیکشن اپریل تک مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کا کام دسمبر 2025ء تک مکمل ہو جائے گا، اس منصوبے کی لاگت 54 بلین ہے، اس کو اسی لاگت میں مکمل کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کے پاس احتجاج کے علاوہ بھی راستے ہوتے ہیں، نہروں کا معاملہ سندھ کا نہیں، پنجاب کے لوگوں کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ پنجاب میں بھی پانی کی قلت ہے، جو پانی انہیں چاہیئے وہ میسر نہیں ہے، یہ کون سے پنجاب کا پانی نکالیں گے اور کہاں لے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ الگ چیز ہے اور کینالز الگ ہیں، کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنانے والے بھی ذہین لوگ ہوں گے، دریائے سندھ سے نہریں نکالنے سے زرعی زمینیں تباہ ہوں گی، پینے کے پانی کی بھی کمی ہوگی۔
سعید غنی نے کہا کہ وفاقی وزراء سندھ حکومت کے ساتھ مل کر معاملہ حل کریں، ہم نے کوشش کی کہ شہر کی جماعتوں سے رابطہ کریں، کسی منصوبے پر اتفاق نہیں تو اس کو نہ بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سال شہر میں ٹریفک کے مسائل پہلے سے کم ہیں، ڈالمیا والا واقعہ ٹارگٹڈ ہے، سندھ حکومت اور پولیس اس پر کام کر رہی ہے۔ وزیرِ بلدیات نے کہا کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کراچی پر کتنا پیسہ لگتا ہے، یہ سوال سندھ حکومت سے نہیں وفاق سے ہونا چاہیئے، یہ نہیں کہتے کہ سارا پیسہ کراچی میں لگا دیں، مگر کچھ خیال کریں، کینالز کا منصوبہ پنجاب حکومت کا ہے اور آیا ایس آئی ایف سی سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کی پارٹی وفاق میں ہے وہ مہربانی کریں کہ وفاق کو کہیں کہ کراچی پر پیسہ لگائیں، وفاق کو کراچی بہت حصہ دیتا ہے اور مطالبہ سندھ حکومت سے ہو رہا ہے۔