اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مارچ 2025ء) بھارت میں خواتین کی جنسیت کے بارے میں بات چیت کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر شادی شدہ خواتین کے ساتھ، جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہروں اور بچوں کو خود پر ترجیح دیں۔

طلاق کے لیے عدالت سے استدعا، 'میری بیوی عورت نہیں ہے'

بھارت: مسلمانوں کے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اور متنازعہ فیصلہ

بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں بدھ 19 مارچ کو یہ فیصلہ ایک شخص کی جانب سے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سنایا گیا۔

اس عدالت نے اس شخص کی طلاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے طلاق دینے کی وجہ ان کی بیوی کی جانب سے مبینہ طور پر ظلم و ستم کے متعدد واقعات کو بنایا ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ فحش مواد دیکھنے کے دوران خود لذتی کی عادی تھیں۔

(جاری ہے)

'شادی کے بعد بھی خاتون کی انفرادیت برقرار‘

مدراس کی ہائیکورٹ نے اپیل کو خارج کرتے ہوئے لکھا، ''خود لذتی کوئی حرام پھل نہیں ہے۔

‘‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا، ''جب مردوں میں خود لذتی کو عالمگیر تسلیم کیا جاتا ہے تو خواتین کی جانب سے خود لذتی کو بھی بدنام نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ ایک خاتون شادی کرنے کے بعد بھی ''اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے اور ایک فرد کے طور پر اس کی بنیادی شناخت اس کی شریک حیات کی حیثیت کا حصہ نہیں ہوتی ہے۔

‘‘

عدالت نے دلیل دی کہ پورنوگرافی کی لت ''بری‘‘ ہے اور اسے ''اخلاقی طور پر جائز‘‘ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن یہ طلاق کے لیے قانونی بنیاد نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں طلاق ممنوع ہے اور ہر 100 میں سے صرف ایک شادی ایسی ہوتی ہے جو طلاق پر ختم ہوتی ہے۔ خاندانی اور معاشرتی دباؤ وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سےناخوش شادیوں کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

ہندوستان کے فوجداری انصاف کی فراہمی کی سست روی کے سبب طلاق کی بعض درخواستوں کو حل ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔

ا ب ا/ا ا (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عدالت نے خود لذتی

پڑھیں:

کیا جاپان سیمی کنڈکٹر سپر پاور بن سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مارچ 2025ء) حالیہ برسوں میں،چونکہ تنازعات، محصولات اور وبائی امراض سے متعلق رکاوٹوں کی وجہ سے عالمی تجارت بتدریج زیادہ غیر مستحکم ہوئی ہے، ایسے میں جاپان اپنی گھریلو سیمی کنڈکٹر صنعت کی تعمیر نو کے لیے کام کر رہا ہے۔

کسی زمانے میں اعلیٰ کارکردگی والے الیکٹرانکس کی مارکیٹ پر اس کا غلبہ تھا اور اب بھی دنیا کی چند سب سے جدید ترین چپ فیبریکیشن ٹیکنالوجی پر فخر کرتا ہے۔

تاہم، 1980 کی دہائی میں، جاپان نے مؤثر طریقے سے جنوبی کوریا جیسے ممالک کو بنیادی چپس کی بڑے پیمانے پر پیداوار کا کام سنبھالنے کی اجازت دی کیونکہ اس وقت یہ شعبہ زیادہ منافع بخش نہیں تھا۔ یہ بھی خیال کیا گیا تھا کہ جاپان کو درآمدات پر انحصار کرنے کی اجازت دینے سے اس کی اپنی بین الاقوامی تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔

(جاری ہے)

جاپانی کرنسی ین امریکی ڈالر کے مقابلے میں دہائیوں کی کم ترین سطح پر

تاہم، ٹوکیو یونیورسٹی میں سائنس اور ٹیکنالوجی پالیسی کے پروفیسر کازوتو سوزوکی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ خیال بدل گیا ہے"۔

انہوں نے اس کے لیے کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے سپلائی چین میں خلل کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ "جاپان، یورپ اور امریکہ میں چپس کی اچانک کمی نے جاپانی حکومت کو یہ احساس دلایا کہ اگر ملکی صنعت کو زوال پذیر ہونے سے بچانا ہے، تو ہمیں خود اپنی مخصوص سپلائیز کی ضرورت ہو گی۔"

سوزوکی نے مزید کہا کہ ابھی حال ہی میں، نئی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے متعارف کرائی گئی پالیسیوں سے جاپانی حکومت کے احساسِ عجلت میں اضافہ ہوا ہے ۔

جاپان کا مقصد سرفہرست بننا نہیں

جاپان ایکویٹی ریسرچ کے سربراہ اور ٹوکیو میں میکوری گروپ میں سیمی کنڈکٹر سیکٹر کے ماہر ڈیمیان تھونگ نے کہا، "حکومت کے لیے سب سے بڑا واحد عنصر معاشی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔"

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "خیال یہ ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ جاپان اپنے مینوفیکچررز کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سیمی کنڈکٹرز میں ایک آزاد صلاحیت کو برقرار رکھنے کے قابل ہو۔

"

جاپان میں کساد بازاری کے سبب جرمنی تیسری سب سے بڑی معیشت

تھونگ نے مزید کہا کہ پچھلے چند سالوں کے دوران 'اے آئی کی ترقی' نے حکومت کی توجہ اس شعبے پر مزید مرکوز کر دی ہے۔ تاہم، ان دباؤ کے باوجود، تھونگ کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ جاپان دنیا کے غالب چپ ساز کے طور پر اپنی سابقہ ​​پوزیشن کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تھونگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جاپان کی حکومت عالمی سطح پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔" "حکومت جاپان کے لیے اپنا پیمانہ برقرار رکھنا چاہتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ، دیگر غیر ملکی کمپنیوں کے لیے جاپان آنے اور مستقبل میں اپنی پیداواری سہولیات قائم کرنے کے لیے اسے بہتر اور پرکشش مقام بنانا چاہتی ہے۔

تائیوان کی سیمی کنڈکٹرز کمپنیوں کا سونی، ڈینسو سے اشتراک

ان اہداف کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جاپان ملکی پیداوار کو بڑھانے کے لیے دو جہتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

سب سے پہلے، اس نے 2021 میں عالمی چپ کمپنی تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (ٹی سی ایم سی) کو سونی اور آٹوموبائیل کے پرزے بنانے والی کمپنی ڈینسو کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور جنوبی جاپان کے کماموٹو میں ایک پلانٹ بنانے کی دعوت دی۔ اس منصوبے کی مالیت 1.2 ٹریلین ین (8.01 بلین ڈالر) ہے جس میں 40 فیصد سے زیادہ کی مالی اعانت حکومتی سبسڈیز سے ہوتی ہے۔

پلانٹ 22 نینو میٹر اور 28 نینو میٹر کے چپس تیار کر رہا ہے جو کاروں اور کنزیومر الیکٹرانکس میں استعمال ہوتے ہیں۔ 2023 میں، ٹی سی ایم سی نے اعلان کیا کہ وہ بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اس علاقے میں ایک دوسرا فیبریکیشن پلانٹ بنائے گی۔

حکمت عملی کا دوسرا عنصر ایک نیا جاپانی سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنی 'ریپیڈس' بنانا تھا۔ 2022 سے، جاپانی سرکاری ایجنسیاں نئی ​​کمپنی کو ہوکائیڈو میں پیداواری سہولیات قائم کرنے میں مدد کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں۔

ریپیڈس، امریکی فرم آئی بی ایم اور بیلجیئم کے انٹر یونیورسٹی مائیکرو الیکٹرانکس سینٹر(آئی ایم ای سی) تنظیم کے ساتھ کام کر رہی ہے تاکہ جدید سیمی کنڈکٹر تحقیق کو پیداوار میں شامل کیا جا سکے۔ حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ 2025 کے بجٹ کے تحت ریپیڈس کو اضافی 100 بلین ین فراہم کیے جا رہے ہیں۔

سوزوکی نے کہا، "مقصد دوسری کمپنیوں کے ساتھ جدید ترین چپس بنانا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جاپان ایک عالمی کھلاڑی رہے۔

"

انہوں نے کہا، "سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں تیزی سے مسابقت بڑھ رہی ہے، خاص طور پر مصنوعی ذہانت، الیکٹرک گاڑیوں، خودکار ڈرائیونگ، ڈرونز اور دیگر کے شعبوں میں بہت زیادہ مانگ کی وجہ سے"۔

جاپان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں

جب کہ تائیوان کے مینوفیکچررز اب جدید سیمی کنڈکٹرز کی عالمی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں، جاپانی کمپنیوں کو اب بھی جدید ترین چپس بنانے کے لیے درکار مشینری تیار کرنے میں مہارت حاصل ہے۔

تاہم، چین کسی وقت یہ ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، تائیوان کے بارے میں بیجنگ کا بڑھتا ہوا دھمکی آمیز موقف، جسے وہ ایک الگ صوبے کے طور پر دیکھتا ہے، بھی سپلائی میں رکاوٹ کے خدشات کو ہوا دے رہا ہے۔

سوزوکی کا کہنا ہے کہ جاپان کے پاس چیلنج کے لیے "قدم بڑھانے" کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ مقابلہ "صرف سخت ہونے والا ہے۔

" ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت چپ کی پیداوار میں خود کفالت کو یقینی بنانے کے لیے صحیح راستے پر گامزن ہے۔

ٹوکیو میں مقیم پروفیسر کے مطابق، "ہمارے فوائد یہ ہیں کہ ہمارے پاس ضروری مواد اور بہتر سیمی کنڈکٹرز بنانے کے لیے ضروری سامان موجود ہے۔"

سوزوکی نے کہا، "حکومت اسے گھریلو صنعت کو بحال کرنے کے آخری موقع کے طور پر دیکھتی ہے، لیکن ہمارے پاس اب بھی مطلوبہ علم کے حامل انجینئرز اور سائنسدان موجود ہیں۔"

ج ا ⁄ ص ز (جولین ریال، ٹوکیو)

متعلقہ مضامین

  • بھارتی کرکٹر یوزویندر چہل طلاق پر سابق اہلیہ کو کتنی رقم دیں گے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • کیا جاپان سیمی کنڈکٹر سپر پاور بن سکتا ہے؟
  • بھارتی تاریخ کی مہنگی ترین شادی جس کا ریکارڈ امبانی خاندان بھی نہیں توڑ سکا
  • بھارتی سنیما کے کیمرامین نے بیوی کے تشدد سے تنگ آکر خودکشی کرلی
  • یوزویندر چاہل اور دھناشری کی راہیں الگ، کرکٹر عدالتی حکم پر اہلیہ کو کتنی رقم دینے کے لیے تیار ہوگئے؟
  • پانچ بار میڈیسن نے کام نہ کیا تو دوائی بدل کر دیکھنا چاہیے، کامران مرتضیٰ
  • بھارت کی امریکہ سے سکھ علیحدگی پسند گروپ کو دہشتگرد قرار دینے کی درخواست
  • عدنان سمیع سے طلاق کے بعد زیبا بختیار نے شادی کیوں نہیں کی؟ اداکارہ نے بتادیا
  • ایرا خان رو پڑیں، وجہ عامر خان کی گرل فرینڈ یا خود کی طلاق؟