ٹرمپ کی ایران کو جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے دو ماہ کی مہلت
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نیا جوہری معاہدہ کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دے دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایف پی کے مطابق، ٹرمپ نے ایک خط کے ذریعے ایران کو مذاکرات کی دعوت دی، جو متحدہ عرب امارات (UAE) کے صدر محمد بن زاید النہیان کے ذریعے ایرانی حکام تک پہنچایا گیا۔
امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے تصدیق کی کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری تنازع کو جلد از جلد سفارتی طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ایران مذاکرات سے انکار کرتا ہے تو متبادل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی اس معاملے پر بات چیت کی، تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
ایرانی وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ ٹرمپ کا پیغام موصول ہو چکا ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، لیکن خامنہ ای نے امریکی حکمت عملی کو "دھمکی آمیز" قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی اقتصادی پابندیاں اور سفارتی تنہائی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ساتھ ہی، ٹرمپ نے ایران سے یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ،وائس آف امریکااورمیڈیاکی آزادی کابحران
وائس آف امریکاکاقیام1942ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کامقابلہ کرنے کے لئے کیاگیاتھا۔اس کابنیادی مقصد دنیا بھر میں آزاداورغیرجانبدارخبریں فراہم کرناتھا۔ وقت کے ساتھ یہ ادارہ سردجنگ کے دوران کمیونزم کے خلاف مغربی نظریات کی ترویج کاایک اہم ذریعہ اورکمیونزم کے خلاف اہم ہتھیاربن گیا۔اس کی نشریات، بشمول اردو،پشتو،دری،اورچینی سمیت50 زبانوں میں نشرکی جاتی ہیں۔ 2014ء میں پاکستان کے لئے اردوزبان میں اس کاآغازکیاگیاجسے مقامی صحافیوں نے آزادانہ خبررسانی کابہترین ذریعہ قراردیا۔آج کے دور میں ’’وی اواے‘‘ کاکروڑوں افرادتک معلومات پہنچاتا ہے۔ بی بی سی ورلڈسروس کی طرح،یہ بھی حکومتی فنڈنگ پرچلنے والاایک میڈیاادارہ ہے، جس کامقصد بین الاقوامی سطح پرامریکاکی ترجمانی کرناہے۔
صدرڈونلڈ ٹرمپ نے17مارچ2025ء کو پرزیڈنشل آرڈرپردستخط کرتے ہوئے یوایس ایجنسی فارگلوبل میڈیاکی فنڈنگ بندکردی ہے۔ اس ایجنسی کے تحت وائس آف امریکا، ریڈیوفری یورپ،اورریڈیو فری ایشیاء جیسے ادارے چلتے ہیں۔صدارتی حکم نامے کے بعدوائس آف امریکا نے پاکستان، ایران اورافغانستان کے200سے زائدملازمین کومعطل کردیاہے۔آج کے دورمیں ’’وی اواے‘‘ نشریات کے ذریعے کروڑوں افرادتک معلومات پہنچاتاہے۔بی بی سی ورلڈ سروس کی طرح،یہ بھی حکومتی فنڈنگ پر چلنے والاایک میڈیاادارہ ہے،جس کامقصد بین الاقوامی سطح پرامریکاکی ترجمانی کرناہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہاکہ ٹیکس دہندگان کاپیسہ بنیادپرست اوربائیں بازوکے پروپیگنڈے اورٹرمپ مخالف بیانیہ کی تشہیر پر نہیں لگایاجائے گا۔اس صدارتی حکم نامے کے بعدفوری طورپرپاکستان سمیت دنیابھرمیں تین ہزارسے زائد ملازمین کوانتظامی چھٹی پربھیج دیاگیاہے۔40زبانوں میں نشرہونے والے50سے زائد ملکوں میں کروڑوں سامعین اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
اُردوسروس کے پروگرام حقائق کی تلاش، آزادی کی آوازاورچین میں سنسرشپ کے خلاف چینی پروگرام سمیت تمام پروگرام روک دیئے گئے ہیں جس کے بعد بین الاقوامی میڈیا گروپس آرایس ایف }اورسی پی جے نے اس اقدام کوعوامی معلومات تک رسائی پر حملہ قرار دیا ہے جبکہ وائٹ ہاس کے مطابق وی اواے کی بندش کے لئے بطوردلیل یہ کہاہے کہ انتخابات کے دوران فیک نیوزکے ذریعے متعصبانہ کاروائی کوفروغ دیاگیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وی اوا ے پر ’’ٹرمپ مخالف‘‘اور’’بنیادپرست‘‘ہونے کاالزام عائد کرتے ہوئے اس کی فنڈنگ ختم کرنے کا حکم نامہ جاری کیاہے۔اس فیصلے کے نتیجے میں وی اواے کے پاکستان سمیت دنیابھرمیں موجودعملے کوانتظامی چھٹی پربھیج دیا گیاہے۔یہ حکم وی اواے کے ماتحت ادارے،یوایس ایجنسی فارگلوبل میڈیا (یوایس اے جی ایم)کونشانہ بناتاہے،جوریڈیو فری یورپ اور ریڈیوفری ایشیاء جیسے اداروں کوبھی فنڈفراہم کرتاہے۔
وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ فیصلہ اس بات کویقینی بنانے کے لئے کیاگیاہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم کسی بھی’’بنیادپرست پروپیگنڈے ‘‘ پر خرچ نہ ہو۔بیان میں وی اواے کوایک جانبدارادارہ قراردیاگیاہے جودائیں بازوکے سیاستدانوں کے مطابق ’’بائیں بازوکے نظریات کی ترویج‘‘میں ملوث ہے۔ وائٹ ہاؤس کایہ بھی کہناہے کہ عوام کے پیسے سے چلنے والے ادارے کو مکمل طورپرغیرجانبدارہوناچاہیے اور اسے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جانے کی بجائے ملک کے مفادات کواجاگرکرناچاہیے۔
ٹرمپ اپنے دورِاقتدارکے دوران ’’وی اواے ‘‘ پرکڑی تنقیدکرتے رہے ہیں۔ان کے مطابق یہ ادارہ ان کی انتظامیہ کے مؤقف کی درست عکاسی نہیں کرتا اور ’’امریکامخالف بیانیہ‘‘ کو فروغ دیتاہے۔ان کاکہناہے کہ ’’وی اواے ‘‘بعض اوقات غیرملکی حکومتوں کے حق میں ایسے بیانیے کوآگے بڑھاتاہے جوامریکی مفادات کے خلاف ہوتاہے۔کچھ رپورٹس کے مطابق،ٹرمپ انتظامیہ نے اس ادارے کی خبروں میں بارہاسیاسی مداخلت کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے اپنی پالیسیوں کے مطابق ڈھالاجاسکے۔
وی اواے کے ڈائریکٹرمائیکل ابرامووٹزنے کہاکہ وہ ان1,300افرادمیں شامل ہیں جنہیں ہفتے کوچھٹی پربھیجاگیاتھا۔ مائیکل کے مطابق’’مجھے دکھ ہے کہ83سالوں میں پہلی دفعہ وائس آف امریکا کو خاموش کیاجارہاہے۔اس حکم نے خاص طور پرآج کے دورمیں ’’ وی اواے ‘‘ کو اپنے ’’اہم مشن کوانجام دینے میں ناکام بنادیاہے،جب، ایران،چین اورروس جیسے امریکاکے مخالفین، امریکاکوبدنام کرنے کے لئے جھوٹے بیانیے تیار کرنے میں اربوں ڈالرخرچ کررہے ہیں‘‘۔
امریکی صدراپنے پہلے دورِاقتدار کے دوران وی اواے پرسخت تنقیدکرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان کا تازہ فیصلہ ایسے وقت آیاہے جب قدامت پسند حلقے ان نیوزسروسزپر تنقید کرتے رہے ہیں، جبکہ کچھ ماہرین کاکہناہے کہ یہ ادارے دنیابھرمیں آزادصحافت کے فروغ میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔نیشنل پریس کلب،جوکہ امریکی صحافیوں کے لئے ایک سرکردہ نمائندہ گروپ ہے،نے ایک بیان میں کہاکہ یہ حکم آزاداور خودمختارپریس کے لئے امریکاکے دیرینہ عزم کوکمزور کرتا ہے۔
بیان میں کہاگیاہے’’ایک پورے ادارے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم کیاجارہاہے۔یہ صرف عملے کو ہٹانے کافیصلہ نہیں ہے، یہ’’ وی اواے ‘‘میں آزاد صحافت کے مستقبل کوخطرے میں ڈالنے والی ایک بنیادی تبدیلی ہے۔ دریں اثناجمہوریہ چیک کے وزیرخارجہ جان لیپاوسک نے کہاکہ انہیں امید ہے کہ یورپی یونین ریڈیوفری یورپ،ریڈیولبرٹی کوپراگ میں چلانے میں مددکرسکتی ہے۔وہ پیرکوہونے والی میٹنگ میں یورپی وزرائے خارجہ سے کہیں گے کہ وہ براڈکاسٹرکی کارروائیوں کو کم ازکم جزوی طورپربرقراررکھنے کے طریقے تلاش کریں۔
اس صدارتی حکم نامے کے بعد اس پرتنقید اور دفاع میں مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں۔ وی اواے کے ڈائریکٹررابرٹ للی اور ماہرین نے اسے آزادی اظہارپرحملہ قراردیاہے جبکہ میڈیا ماہرین اسے غیرجانبداری سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔ٹرمپ کے حامیوں کا کہناہے کہ وی اواے امریکی مفادات کے خلاف کام کررہاہے جبکہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹرمپ کے فرسٹ امریکاپالیسی کی حمائت کی جائے۔
وی اواے کی فنڈنگ کی بندش پربین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آرہاہے جس میں امریکی صحافت میں غیرجانبداری اورآزادی کے اصولوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔اگر حکومتی ادارے آزاد میڈیاکو محدود کرتے ہیں،تویہ مستقبل میں دیگرمیڈیاہاسزکے لئے بھی خطرہ بن سکتاہے۔وی اواے بین الاقوامی سطح پرامریکی پالیسیوں کواجاگرکرنے اورجمہوری اقدارکے فروغ میں ایک اہم کردارادا کرتاہے۔اس ادارے کی بندش سے امریکاکی عالمی ساکھ پرمنفی اثرپڑسکتاہے، خاص طورپر ان ممالک میں جہاں آزادصحافت پہلے ہی دباؤ کا شکارہے۔
پاکستان اوردیگرممالک پربھی اس کے نمایاں اثرات دیکھنے کوملیں گے۔وی اواے کی نشریات پاکستان،بھارت،مشرق وسطیٰ اور افریقامیں لاکھوں افراد سنتے ہیں۔اس ادارے کے کمزور ہونے سے وہاں خبریں فراہم کرنے کے ذرائع محدودہوسکتے ہیں اورمتبادل میڈیا پلیٹ فارمزپردباؤبڑھ سکتاہے ۔وی اواے کی بندش کافیصلہ امریکی سیاست میں مزید تقسیم پیداکر سکتا ہے۔دائیں بازوکے سیاستدان اورقدامت پسندمیڈیا اس فیصلے کوحکومتی اصلاحات کے طورپرپیش کریں گے،جبکہ لبرل حلقے اورآزادی صحافت کے حامی اس کی مذمت کریں گے گویا امریکی سیاست میں پولرائزیشن کاخدشہ بڑھ گیا ہے۔ادھربرطانیہ نے وی اواے کی بندش کے بعداس خلاکو پرکرنے کے لئے بی بی سی ورلڈسروس کے بجٹ میں 200ملین پاؤنڈکااضافہ کردیاہے اوروی اواے کے سامعین کواپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اردواورپشتومیں نشریات میں اضافہ کردیاہے۔(جاری ہے)