Daily Ausaf:
2025-03-20@21:12:27 GMT

تھینک یو۔۔۔ قائد انتشار

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

قائد انتشار کی اصلیت اور حقیقت پر ہمیں تو کبھی کوئی شبہ نہیں رہا، روز اول سے یقین واثق ہے کہ یہ شخص پاکستان کادوست نہیں ، یہ کوئی جذباتی یا سیاسی موقف نہیں،معلومات ، شواہد اور موصوف کے اقدامات کی روشنی میں ایک سوچی سمجھی رائے ہے ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ریاست کی غلط پالیسیوں، سیاستدانوں کی مفاد پرستی ،کرپشن، بیوروکریسی کی اقرباء پروری اورلوٹ مار،اشرافیہ کی عیاشیوں اور ملکی وسائل سے کھلواڑ ، عدلیہ کی ناانصافیوں اورحکومتوں کے شاہانہ و متکبرانہ روئیوں کے سبب محروم رہ جانے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دجالی سوشل میڈیا کی یلغار کے زیر اثر زہر کو تریاق سمجھ بیٹھی ہے اور اس فتنے کو نجات دہندہ سمجھنے لگی ہے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت اس شعور سے عاری ہے کہ یہ فتنہ کس قدر ہمہ گیر، تباہ کن اور خطرناک ہے ،یہ کس حد تک سرایت کرچکا ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔ اس امر کا بھی ادراک کم ازکم سیاسی قیادت کو بالکل بھی نہیں کہ قائد انتشار تو صرف ایک مہرہ ہے ، ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں ۔ جب مرض کی شدت کا ہی اندازہ نہیں تو علاج کیسے موثر ہو سکتا ہے؟ جب سے یہ عارضہ ملک کو لاحق ہواہے، اس کا جائزہ لیں تو ایک ابلیسی چکر ہے ،جو عام آدمی کی سمجھ بوجھ سے بالاتر اور حساس اذہان وقلوب کو جکڑ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک شخص یا سیاسی اکائی نہیں بلکہ پورا نظام ہے ، جس نے ہشت پاء کی طرح معاشرے کو اپنے گرفت میں لے رکھا ہے ۔ پہلے عوامی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے، عالمی ماہرین کے تعاون سے حکمت عملی طے کی جاتی ہے پھر مقامی کارندوں کے ذریعے اسے نافذ کیا جاتا ہے اور بعینہِ اسی لمحے انہی کا دوسرا ونگ جو عوامی چہرہ رکھتا ہے ، اپنے ہی اس کرتوت کی مذمت کرتے ہوئے، اس کا الزام اپنے مخالفین پر تھوپنا شروع کردیتا ہے، جس طرح سوات میں کیا گیا، دہشت گردوں کو خود لے کر آئے پولیس پروٹوکول دیا، مراد سعیدالزام فورسز پر لگاتے ہوئے احتجاج کرتا رہا ۔یہ طریقہ واردات ایک طویل تحقیق کا موضوع ہے ، جس کا یہ محل نہیں ۔ البتہ قائد انتشار اور ان کی ٹیم کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا واجب ہے کہ انہوں نے اپنے ہینڈلرز کے ایماء پر ہی سہی ، قومی سلامتی کمیٹی کا انتہائی بھونڈے انداز سے بائیکاٹ کرکے ، اپنےبارے میں ہماری رائے کو توثیق بخشی اور اپنا اصل چہرہ دیکھنےسمجھنے میں قوم کی مددکی ، لہٰذا تھینک یو قائد انتشار ۔
پیرکی شام سے منگل کی صبح تک جتنے یو ٹرن لئے گئے ، اس پر بھی ان کا شکریہ کہ کوئی ذی ہوش تجزیہ کرنا چاہے تو سہولت رہے گی کہ فتنہ انتشار اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ۔ یہ غلامان انتشار ، مجبور محض ہیں ، تاویل بھی مرضی سے نہیں کرسکتے ۔ اجلاس کی دعوت ملنے پر پہلے شرکاء کی فہرست جاری کردی گئی ، امریکہ سےسوشل میڈیا کے مخصوص لونڈوں لپاڑوں کے ذریعہ ہدایات کا ورود شروع ہوا تو پہلےکہا گیا کہ قائد سے ملاقات کروائیں،ورنہ اجلاس میں نہیں آئیں گے۔ صبح جب دیکھا کہ ملاقات کروائےجانے کا امکان ہے تو نیا مطالبہ لے آئے کہ قائد انتشار کو رہا کیا جائے ۔ کیوں بھئی ؟ کس لئے؟ یہ پہلا موقع نہیں جو ثابت کر رہا ہے کہ فتنہ انتشار اپنے قائد سمیت’’کسی کی کٹھ پتلی‘‘ہے ، 26نومبر کو جب فتنے کو کنٹرول کرلیا گیا اور وزیر اعلیٰ کے پی نے اسلام آباد سے دور جا کر مارچ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پریس کانفرنس کا اعلان کیا تو اس وقت بھی وہی امریکی گرینیل کے ہم مشرب وہم شوق بھگوڑے بروئے کار آئے تھے ، وزیر اعلیٰ اور قائد کی اہلیہ کو حکم دیاگیا کہ لاشوں کے انبار کی بات کئے بغیر پریس کانفرنس نہیں ہوگی اور پھر ایسا ہی ہوابھی ۔
ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ فتنہ پاکستان کی بقا کا دشمن ہے ۔یوں تو 2009 میں برطانوی عدالت میں دہشت گرد ہیربیار مری کے حق میں بیان دیتے ہوئے یہ کہنا کہ I’d do the same as terror suspects ، اسے دہشت گردوں کا حامی قرار دینے کو کافی تھا ، لیکن افسوس کہ سہولت کاروں کی عقل پر پتھر پڑگئے یا وہ خود اس ملک دشمن منصوبے کا حصہ تھے کہ اس دوٹوک ملک دشمن بیانیہ کےباوجود اسے قوم پر مسلط کیا گیا ۔ اس کے بعد 2014 میں جب پوری قوم دہشت گردی سے نبرد آزما تھی ، آپریشن ضرب عضب چل رہا تھا ، موصوف کا مشہور زمانہ دھرنا اور چینی صدر کے دورہ کی راہ روکنا بھی کافی ثبوت تھا ، لیکن اقتدار میں آکر سی پیک کو برباد کرنے ، پاکستان کے دوستوں سے ریاست کے تعلقات بگاڑنے کی دانستہ کوششیں ، سرمایہ کاری کی راہ روکنے کی خاطر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے سے لے کر بھارتی حملے پر اس کے پائلٹ کو فوری رہا کرنے اور قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرتی اپوزیشن کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھنے سے لے کر دورہ واشنگٹن کے دوران کشمیر فروشی تک ایک ایک قدم موصوف کی ملک دشمنی کا ثبوت ہے ۔ یہ وہی شخص ہے جو وزیراعظم ہوتے ہوئے ہزاروں دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا،جس نے اپنے دوراقتدار میں کسی ایک بھی شہید کی نمازجنازہ ادا نہیں کی ، جس نے سزا یافتہ 103 دہشت گردوں کو صدارتی حکم سے عام معافی دےکر رہا کروایا اس سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ان پیارے لاڈلے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی میں حصہ لے گا ۔
حکومت کی جانب سے قومی اتفاق رائے کی کوشش ایک احسن سوچ ہو سکتی ہے، لیکن فتنہ انتشار کے اتحادی بلکہ انتشاری اتحاد کے قائد محمود اچکزئی کی پریس کانفرنس کے بعد بھی کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ فتنہ انتشار کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں؟ محمود اچکزئی اور اس کی ہمنوا اس فتنہ انتشار کی پوری قیادت جب یہ کہہ رہی تھی کہ ’’حکومت چاہتی ہےکہ اس اجلاس کے ذریعہ سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کرے ،اور اسے قومی حمائت یافتہ ثابت کرے ، ہم ایسا نہیں کر سکتے ، ہم آپریشن کی حمائت نہیں کر سکتے۔ ‘‘ تو کسی اورثبوت کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ انہوں نے سلامتی سے متعلق اجلاس کا بائیکاٹ کیوں کیا؟ صاف مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد ملک پر حملہ آور ہیں ، ریاست ان کا مقابلہ کرنے جا رہی ہے ، یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم ریاست کے ساتھ نہیں تو سیدھی بات ہے کہ پھر آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں ۔ معاملہ صرف اس پریس کانفرنس تک نہیں ہے ۔ پارٹی (اگرچہ یہ پارٹی نہیں کلٹ ہے ) کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور دیگر نے بار بار اعلان نہیں کیا کہ ’’ قائد نے کہا ہے ، ماہ رنگ بلوچ اور منظور پشتین سے مل کر احتجاج کیا جائے ، باربار اصرار نہیں کیا گیا کہ’’ ہم مہ رانگ اور منظور پشتین کو ساتھ لےکرچلیں گے۔‘‘ اس کے بعداس کلٹ کو ملک دشمن ایجنٹ اور دہشت گردوں کا سہولت کار کیوں نہ کہا جائے ۔یہ لوگ ملک دشمنی میں کس حد تک جا سکتے ہیں ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو روز قبل قاسم سوری نے پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم کی الزام تراشی پر مشتمل گفتگو کا کلپ نہ صرف ٹویٹ کیا بلکہ اس کی تائید کی ۔
وقت آگیا ہے کہ گلی کوچوں میں اور اسمبلی کے ایوانوں میں ان سے سوال کیا جائے ، پوچھا جائے کہ بتائو تم کس کے ساتھ ہو؟ دہشت گردوں کے؟ یا ریاست کے؟ انہیں جواب دینا ہوگا کہ جب بھی کوئی پاکستان پر بھونکتا ہے ، تم اس کے بھونپو کیوں بنتے ہو ؟ تمہارا سوشل میڈیا بی ایل اے کا سہولت کارکیوں ہے ؟ جب پاکستانی فوج لڑ رہی تھی، تم نے کیوں ریاست مخالف مہم چلائی؟ تم نے دشمن کے ہاتھ مضبوط کیوں کیے؟ تم نے پاکستان کے شہداء کی قربانیوں کی توہین کیوں کی؟ سوال صرف انتشاریوں سے نہیں ریاست سے بھی بنتا ہے ، حکومت سے بھی بنتا ہے کہ جب ایک ایک قدم پر یہ فتنہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کی ہمدردیاں دشمنوں کے ساتھ ہیں ، جب ان کی زبانیں ملک کے خلاف اور دہشت گردوں کے حق میں قینچی کی طرح چلتی ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ فتنہ پرور عناصر دندناتے کیوں پھرتے ہیں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے پریس کانفرنس فتنہ انتشار ملک دشمن کے خلاف کے ساتھ اور اس

پڑھیں:

کوہاٹ میں مسلم آباد چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنادیا گیا


کوہاٹ میں انڈس ہائی وے پر مسلم آباد پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔

 ریجنل پولیس آفیسر کوہاٹ عباس مجید مروت کے مطابق دس سے پندرہ دہشت گردوں نے مسلم آباد پولیس پوسٹ پر افطاری کے بعد فائرنگ کی۔ 

پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ کے بعد دہشت گرد آدھے گھنٹے بعد فرار ہوگئے۔

متعلقہ مضامین

  • کوہاٹ میں مسلم آباد چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنادیا گیا
  • سی ٹی ڈی کی کارروائی، 2 خطرناک دہشتگرد گرفتار
  • اولپنڈی اور اسلام آباد بڑی تباہی سے بچ گئے،سی ٹی ڈی نے 2خطرناک دہشتگرد گرفتار کر لئے
  • سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی، تھانہ آئی 9 حملے میں ملوث فتنہ الخوارج کے 2 دہشت گرد گرفتار
  • دہشت گردوں کوکوئی ڈھیل دی جائے گی نہ مذاکرات ہوں گے.راناثنااللہ
  • افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • جعفر ایکسپریس آپریشن میں ہلاک دہشت گردوں کی لاشوں کی تصاویر منظر عام پر
  • پاکستان میں لگی دہشت گردی کی آگ کو روکا نہ گیا تو یہ سات سمندر پار تک جائیگی، بلاول بھٹو
  • سی ٹی ڈی کی بنوں اور چارسدہ میں کارروائی، 3 خوارج جہنم واصل