سندھ باب السلام،عظیم فاتح جرنیل محمد بن قاسمؒ
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں اپنے محبوبﷺ کے پیغام کو پھیلانے کے لئے سندھ کو اسلام کا دروازہ بنایا اور اس عظیم الشان کام کے لئے سترہ سالہ نوجوان جرنیل کو منتخب کیا۔ عالم اسلام کا عظیم جرنیل (سپہ سالار) محمد بن قاسم جس نے سندھ فتح کیا 75 ہجری میں طائف کے مقام پر پیدا ہوا۔ آپ کے والد کا نام قاسم تھا۔ جبکہ آپ کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا۔ محمد بن قاسم کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے ثقیف سے تھا۔ یہ قبیلہ عرب میں چالاکی اور بہادری میں بڑا مقام رکھتا تھا اور اس وقت خلیفہ ولید بن عبدالمالک تھا۔ جس نے محمد بن قاسم کے چچا حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ حجاج نے اپنے بھائی قاسم کو بصرہ شہر کا حاکم مقرر کیا۔ جس کی وجہ سے محمد بن قاسم کا بچپن بصرہ میں گزرا ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا اور جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ مگر محمد بن قاسم نے پانچ سال کی چھوٹی عمر سے ہی ذہانت اور بہادری کے وہ کام کئے کہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر عظیم شخصیت بن جائے گا ’’تلوار بازی‘‘ نیزہ بازی اور شہسواری میں وہ مقام حاصل کیا کہ بڑے بڑے شہسوار آپ کے سامنے آنے سے کتراتے تھے۔ اپنی اسی بہادری اور شہسواری کی وجہ سے دمشق جا کر اسلامی لشکر میں بھرتی ہو گئے اور بڑے بڑے سپہ سالاروں کے زیر نگرانی تربیت (جنگی)مکمل کی اور 14سال کی عمر میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے فوج میں اعلیٰ عہدہ حاصل کیا اور کئی اہم مہمات سر کیں 15 سال کی عمر میں ایران میں کردوں کی بغاوت کو ختم کیا ور ایران میں پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے کئی علاقے فتح کئے ابھی ایران میں پیش قدمی جاری تھی۔
اس وقت ایران کی سرحد سندھ کے ساتھ ملتی تھی۔ محمد بن قاسم نے ایک نئے شہر شیراز کی بنیاد رکھی تھی کہ ایک ایسا واقعہ ہو گیا جس سے مسلمان ہل گئے واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ کچھ مسلمان تاجر جزیرہ سراندیپ (سری لنکا)میں یہ حالت سفر فوت ہو گئے تھے۔ ان کے یتیم بچے اور بیوہ خواتین اس جزیرہ میںرہ گئیں تھیں۔ سراندیپ کا راجہ مسلمان خلیفہ سے خوفزدہ تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ مسلمان خواتین اور بچے ہیں تو اس نے خلیفہ ولید بن عبدالمالک اور حجاج بن یوسف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان بچوں اور خواتین کو بڑے عزت کے ساتھ اپنے سفیروں کے ساتھ بحری جہاز کے ذریعے روانہ کیا اور بہت سے قیمتی تحائف بھی خلیفہ اور حجاج کے پاس روانہ کئے اور ان یتیموں اور بیوائوں سے امید رکھی کہ یہ قافلہ اس کی ضرور تعریف کرے گا۔ یہ کشتیاں سراندیپ سے روانہ ہو کر ساحل کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ تھی کہ راستے میں طوفان نے ان کشتیوں کو سندھ کے بندرگاہ دیبل جسے آج کل دھابی جی کہتے ہیں۔ لاڈالا،یہاں سندھ کے راجہ داہر کے سپاہیوں نے ان کشتیوں کو لوٹ لیا اور مسافروں کو قید کر لیا۔ کچھ مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی کشتیوں پر حملہ آور ہوئے وہ ’’مید‘‘قوم کے افراد تھے۔ دیبل شہر مید قوم کا اس وقت مرکز تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیبل کے علاوہ حکمران سندھ،کا ٹھیا واڑ کے ساحل پر رہنے والی ساری قومیں جن کا پیشہ لوٹ مار اور قزاقی تھا،ان سب کو ’’مید‘‘ہی کہا جاتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے جب ان کشتیوں کو لوٹا جارہا تھا تو اس موقع پر ایک مسلمان عورت نے چیختے چلاتے ہوئے بلند آواز میں کیا ۔’’اے حجاج میری مدد کرو ،یا پہنچو‘‘۔
اس مظلوم مسلمان خاتون کی آواز بچ نکلنے والے کچھ مسلمانوں نے حجاج بن یوسف تک پہنچائی اور ڈاکوئوں کے مظالم سے آگاہ کیا۔ جس پر حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجہ داہر کو خط لکھا کہ ہمارے کچھ لوگ تمہارے علاقے میں قید کر لئے گئے ہیں اور ان کا مال لوٹ لیا گیا ہے۔ ان کو باعزت طریقے سے ہمارے پاس روانہ کرو اور جو نقصان ہوا ہے اس کا تاوان ادا کرو۔ اس خط کے جواب میں راجہ داہر نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نامعقول جواب لکھا۔یہ کام میرا نہیں بلکہ بحری ڈاکوئوں اورقزاقوں کا ہے میں ان کا ذمہ دار نہیں اور نہ ہی میرا کوئی تعلق اور واسطہ ہے۔ راجہ داہر کے اس جواب کے بعد حجاج بن یوسف نے تمام تفصیلات خلیفہ ولید کے پاس بھیجیں اور سندھ پر حملے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے کے بعد حجاج نے ایک جرنیل عبداللہ بن نہان اسلمی کو لشکر دے کر سندھ پر حملے کے لئے روانہ کیا۔ عبداللہ اسلمی دیبل پر حملہ آور ہوا اور بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ جس کے بعد حجاج نے ایک دوسرا کمانڈر بدیل بھیجا۔ بدیل کو بھی 6 ہزار کا لشکر د ے کر روانہ کیا مگر بدیل بھی مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا بدیل کی شہادت کی خبر سننے کے بعد حجاج بن یوسف نے تیسری مرتبہ محمد بن قاسم کو جو اس کا داماد بھی تھا اور صرف سترہ سال کی عمر کا تھا ۔ 6 ہزار شامی فوج دے کر روانہ کیا کیونکہ حجاج کو یہ شک ہو گیا تھا کہ ایرانی سپاہی غداری کررہے ہیں۔ یہ 6ہزار شامی لشکر ایران پہنچا اور وہاں سے محمد بن قاسم کی سربراہی میں سندھ کے علاقے مکران کی طرف بڑھ گیا۔ مکران کے بعد محمد بن قاسم نے پجنگور پر حملہ کیا اور بہت جلد ہی فتح کر لیا۔ واضح رہے کہ اس وقت تک مکران اورپنجگور پر سندھیوں کی حکومت تھی پنجگور سے روانہ ہونے کے بعد محمد بن قاسم نے ارمن بیلہ کا محاصرہ کیا اسے بھی فتح کر لیا۔ بالاآخر آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے 92ہجری بروز جمعہ اسلامی لشکر دیبل پہنچا اور اسی دن اتفاق سے جہازوں کے ذریعے اسلامی لشکر کے لئے کمک بھی پہنچی۔ ان جہازوں میں منجنیقیں اور دوسرا سامان تھا۔ اور ایک ایسی منجنیق بھی تھی جس کو 500 افراد کھینچتے تھے۔ دیبل شہر کی آبادی اس وقت بہت زیادہ تھی اور شہر میں ایک بہت بڑا عالی شان مندر تھا جس کو مقامی لوگ دیول کہتے تھے۔ اس مندر میں ایک گنبد بہت اونچا بنا ہوا تھا جو بہت دور سے نظر آتا تھا۔ اس گنبد کے اوپر ی حصے میں ایک بہت لمبے بانس پر ایک ریشم کا سبز پرچم لگا ہوا تھا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حجاج بن یوسف کے بعد حجاج روانہ کیا راجہ داہر کی وجہ سے سندھ کے کے ساتھ ہو گیا کے لئے
پڑھیں:
سندھ میں جوڈیشل افسران کی تقرریاں و تبادلے
سندھ میں جوڈیشل افسران کی تقرریاں اور تبادلے کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج خالدحسین لغاری کا ٹنڈو محمد خان سے حیدر آباد تبادلہ کیا گیا ہے جبک ایڈیشنل سیشن جج محمدعلی کا کراچی غربی سے شکار پور تبادلہ کیا گیا۔
محمد اسلم چانڈیو کا شکارپور سے کراچی غربی تبادلہ کر دیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سول جج کرم علی شاہ کو قمبر میں تعینات کر دیا گیا۔ جبکہ سول جج محمد علی جروار کا کراچی وسطی سے میر واہ تبادلہ کر دیا گیا۔
سول جج شکیل مولانی کا میر واہ سے کندھ کوٹ کشمور، جبکہ سول جج عادل عزیز سولنگی کا کراچی شرقی سے ملیر تبادلہ کر دیا گیا۔
سول جج محمد مزان بلیدی کا کشمور سے کراچی وسطی اور سول جج شاہنواز کا کراچی ضلع جنوبی سے ضلع چمبڑ تبادلہ کر دیا گیا۔
سول جج نواب خاصخیلی کا ضلع چمبڑ سے کراچی جنوبی کی عدالت میں تبادلہ کیا گیا۔ سول جج عطا حسین کا گمبٹ سے میر واہ تبادلہ کر دیاگیا۔