مشرق وسطیٰ میں رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ شروع ہوگیا، عبادات کے لیے مسلمانوں نے بیت المقدس کا رُخ کرلیا ہے۔

مسجد اقصیٰ میں 70 ہزار مسلمانوں نے نماز عشاء اور تراویح ادا کی، ہر سال ہزاروں مسلمان رمضان کے آخری عشرے میں مسجد اقصیٰ پہنچتے ہیں۔

رمضان المبارک کا آخری جمعہ یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔

مسجد اقصیٰ کا انتظام اردن کی حکومت کے پاس ہے جبکہ مسجد اقصیٰ کے اطراف سیکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

رمضان اصلاح و تربیت سے زیادہ کمائی کا مہینہ

علمائے کرام ماہ صیام یعنی رمضان المبارک کو اصلاح اور تربیت کا مہینہ قرار دیتے ہیں جب کہ حکومت اور ناجائز منافع خوروں نے رمضان کو زیادہ سے زیادہ کمائی کا مہینہ بنا رکھا ہے اور چاروں صوبائی حکومتیں ماضی کی طرح اس بار بھی رمضان میں قیمتوں پر کنٹرول رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور رمضان میں قیمتیں بڑھانے کا آغاز وفاقی حکومت نے خود کیا تھا جس نے رمضان المبارک میں چینی کی کھپت زیادہ ہونے کے اندازے کے باوجود بیرون ملک چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔

رمضان المبارک سے کئی ماہ قبل تک ایک سو 35 روپے سے ایک سو چالیس روپے کلو چینی عام مل رہی تھی مگر حکومت نے جان بوجھ کر زرمبادلہ کے چکر میں بڑے منافع خوروں کو چینی ملک سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دی تھی جس پر عوامی حلقوں نے اعتراض بھی کیا تھا مگر مہنگائی بڑھانے کی اصل ذمے دار وفاقی حکومت نے بڑے منافع خوروں کو نوازنے کے لیے عوام کے مفاد کے خلاف فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں چینی کی قلت تو نہیں ہوئی مگر رمضان میں چینی ملک بھر میں ایک سو نوے سے دو سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔

 ملک بھر میں سرکاری افسروں نے ناجائز منافع خوروں کے خلاف چھاپے مارنے بھی شروع کر رکھے ہیں اور ملک بھر میں ناجائز منافع خوروں سے لا کھوں روپے جرمانے کی مد میں وصول کر کے حکومت کو مالی فائدہ ضرور پہنچا دیا ہے جب کہ جرمانوں کے علاوہ سیکڑوں ناجائز منافع خورگرفتار بھی ہوئے اور ان کی دکانیں بھی سیل کی گئیں مگر عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جو ماضی سے رمضان المبارک میں لٹتے آئے ہیں اور اس سال بھی موجودہ حکومتوں میں بھی لٹے ہیں۔

جن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ ایک سالہ اقتدار مکمل کرنے والی حکومتیں رمضان المبارک میں قیمتوں پرکنٹرول کریں گی مگر حکومتی دعوے ماضی کی طرح غلط ہی ثابت ہوئے اور ناجائز منافع خوروں نے رمضان المبارک میں اپنی اصلاح اور مذہبی تربیت حاصل کرنے کے بجائے رمضان کو سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ ہی بنائے رکھا اور رمضان میں سب سے زیادہ کمائی کا اصول برقرار رکھا اور حکومت پھلوں اور سبزیوں کو مقررہ سرکاری نرخوں پر فروخت نہیں کرا سکی۔ سرکاری نرخوں پر اشیا صرف اس وقت فروخت ہوئیں جب وہاں سرکاری چھاپے لگے یا میڈیا ٹیموں نے بازاروں، مارکیٹوں کا سروے کیا تو ہر جگہ ہی عوام نے گراں فروشی کی شکایات کے انبار لگا دیے اور جب گراں فروشوں سے ان کی گراں فروشی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے اس کا ذمے دار پیچھے والوں کو قرار دیا، پیچھے والوں سے ان کی مراد ہول سیلرز تھے جنھیں کوئی نہیں پوچھتا۔

ریٹیلرز کے پاس اشیا خوردنی مہنگی کرنے کا صرف ایک ہی جواز ہوتا ہے کہ انھیں ہول سیل مارکیٹوں سے مال مہنگا ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی مال مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہول سیل میں انھیں اتنا مہنگا نہیں ملتا جتنا وہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہول سیل سے خرید کر مال لینے پر ٹرانسپورٹیشن کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اندرون شہر جو چھوٹی مارکیٹیں یا وہاں لگے پتھارے اور ریڑھیاں لگتی ہیں یا جو ریڑھیاں سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔

 ان سے بلدیاتی اداروں والے اور پولیس اہلکار بھتہ لیتے ہیں اور نہ دینے پر انھیں سڑکوں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ پھل فروش رمضان میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے افطاری کے نام پر مفت پھل لینے کا بھی الزام لگاتے ہیں جو درست بھی ہے کیونکہ رمضان المبارک میں ناجائز منافع خور اگر عوام کو لوٹتے ہیں تو قبضہ مافیا، پولیس، بلدیاتی اہلکار اور علاقائی بدمعاش بھی ان سے بھتہ اور عیدی وصول کرتے ہیں کیونکہ رمضان المبارک ان کے لیے بھی کمائی کا مہینہ ہے۔

رمضان اور عید کے موقع پر فٹ پاتھوں پر بھی پیسے لے کر پتھارے اور ریڑھیاں لگوائی جاتی ہیں اور کوئی بھی کمائی کے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ہر کوئی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔پنجاب میں تو چار ماہ پہلے ہی رمضان المبارک میں مہنگائی کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بنا لی گئی تھی اور پہلی بار اشیا کی ڈیمانڈ پر توجہ دی گئی جو پہلے صرف سپلائی پر ہوتی تھی۔ پنجاب میں تو لگتا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے اور وہاں پہلی بار پرائس کنٹرول کا الگ محکمہ بنایا گیا ہے اور قیمتوں کی مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے اور ڈھائی سو فیئر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں مگر سندھ و دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہاں کی حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور وہاں حکمت عملی کا فقدان دیکھا گیا ہے۔

حکومتوں کو پتا ہے کہ رمضان میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے جو پہلے عید کے بعد ختم ہو جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے ۔ رمضان میں علمائے کرام پر بیانات دے کر ناجائز منافع خوروں کی شرعی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی اثر نہیں لیتا‘ چھاپوں کا خوف تو وہ کیوں اپنی اصلاح کریں گے۔

حکومتی سخت پالیسی اور ان پر حقیقت میں عمل ہی اس کا علاج ہے۔ وقتی جرمانوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ناجائز منافع خوروں کو رمضان میں جیلوں میں رکھا جائے اور انھیں کام ہی نہ کرنے دیا جائے تو ممکن ہے ایک بار سرکاری گرفت میں آ کر وہ توبہ کر لیں تو ہی ان کی اصلاح ہو سکتی ہے، ورنہ حکومتی جرمانے اور علمائے دین کے بیانات مہنگائی روکنے میں کبھی معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کے آغاز پر مسجد الحرام سمیت کئی سعودی شہروں میں موسلادھار بارش
  •  میاں نواز شریف کی طبیعت ناساز، ڈاکٹرز کا آرام کا مشورہ
  • رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسجد الحرام میں ابر رحمت برس پڑی
  • رمضان المبارک کا تقدس، یوم پاکستان پریڈ محدود پیمانے پرکرانے کا فیصلہ
  • رمضان المبارک کے باعث 23 مارچ کی پریڈ محدود کرنے کا فیصلہ
  • رمضان اصلاح و تربیت سے زیادہ کمائی کا مہینہ
  • گلگت، رمضان المبارک کے آخری عشرے کے پروگرامز کے انتظامات کے حوالے سے انجمن امامیہ کا اجلاس
  • ’نیکی کا تندور‘، پشاور میں روٹی صرف 10 روپے میں!
  • ’رمضان میں شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے تاکہ وہ روزے داروں کو بہکانے سے باز رہیں ‘