Juraat:
2025-03-20@18:58:38 GMT

اگر۔۔۔۔۔؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

اگر۔۔۔۔۔؟

ب نقاب /ایم آر ملک

میلان اٹلی کا ایک بڑا شہر ہے جس کا شمار دنیا کے گنجان آباد اور چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میلان کا بجٹ ہمارے پورے ملک کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے، یہ شہر میٹرو پولیٹن کہلاتا ہے۔
آپ بلدیاتی نظام کے ماضی کا باب اُٹھا کر دیکھیں جس کرسی پر جنرل ریٹارڈ تنویر نقوی کے ایجاد کردہ نئے ضلعی نظام کے تحت ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ناظمین یا بڑے شہروں میں سٹی ناظمین کو متمکن کیا گیا اِس کرسی پر میئر بیٹھا کرتا تھا اور بڑے شہروں کا کنٹرول عوام کے منتخب نمائندے میئر کے ہاتھوں میں تھا ،لوکل گورنمنٹ کے ہاتھوں تکمیل پانے والے تمام عوامی ترقیاتی منصوبہ جات کی منظوری اِن میئرز کے احکامات کی مرہون ِ منت ہوا کرتی ۔
میٹرو پولیٹن میلان بھی عوامی ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک میئر کے احکامات کی دسترس میں تھا جو خود نہ صرف کرپٹ تھا بلکہ اپنی کرپشن کی خاطر اُس نے ایک مخصوص گروہ رکھا ہوا تھا ،اِس کثیر الآباد شہر کے تمام ترقیاتی منصوبہ جات کی تعمیرات کے ٹھیکہ جات میئر کے منظور ِ نظر اِس گروہ کو ملتے ،چونکہ اِس گروہ کی پشت پر میئر کا ہاتھ تھا اِس لیے یہ گروہ تعمیراتی منصوبہ جات میں ناقص اور غیر میعاری مٹیریل کا دھڑلے سے استعمال کرتا اور کرپشن کی مد میںکروڑوں روپے میئر کی جیب میں جاتے، اِنہی منصوبہ جات میںمیئر کے اِس مخصوص گروہ کو ”نرسنگ ہوم ” کی تعمیر کا کنٹریکٹ ملا ،کام شروع ہوا اور چند روز میں مطلوبہ عمارت کھڑی ہو گئی۔
میئر کی ہدایت پر رشوت کی چمک پر انجینئرز آئے ،نرسنگ ہوم کی تعمیر میں استعمال ہونے والے میٹیریل کی کوالٹی کو چیک کیا اور عمارت کے اوکے ہونے کی سند جاری کردی ،نرسنگ ہوم کو تعمیر ہوئے ابھی چند روز ہوئے تھے ناقص مٹیریل اور کرپشن نے اپنا رنگ دکھایا پوری عمارت زمین بوس ہو گئی اور معصوم بچوں کی کثیر تعداد نیچے دب کر زندگی کی بازی ہار گئی، ہمارے ہاں یہ روایت نہیں مگر یورپ کے عوام آج بھی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں ،شاہرات پر نکل آتے ہیں میلان میں بھی انسٹی ٹیوشن نے کرپشن کے خلاف ری ایکٹ کیا، کارپوریشن کے ایک مجسٹریٹ نے از خود نوٹس لیا اور اتنے بڑے سانحہ پر میئر سے جواب طلب کرتے ہوئے لکھا کہ میئر آکر وضاحت کرے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا ؟
اٹلی کے اتنے بڑے شہر کے میئر اور کارپوریشن کے مجسٹریٹ کے اختیارات میں واضح فرق تھا نوٹس میلان کے میئر کو موصول ہوا تو اُس کا غصہ دیدنی تھا اُس نے نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا اور مجسٹریٹ کو جواباً لکھا کہ مجھے نوٹس بھیجنے والے تم کون بے وقوف ہو ؟مجسٹریٹ محب ِ وطن تھا ،اخلاقی دبائو آڑے آیا تو اگلے مرحلے پر اُس نے میئر کے وارنٹ جاری کر دیئے ،میئر چونکہ کرپٹ مافیا کا ہیڈ تھا اِس لیئے غصے میں آگیا اور ایم پی سے کہا مجسٹریٹ کا ٹرانسفر کر دو، ایم پی نے ٹرانسفر کیا تو میڈیا تاک میں تھا فوراً سارا حوال میڈیا پر آگیا، میلان کے عوام کو جب میڈیا کے ذریعے اصل حقیقت کا ادراک ہوا تو مجسٹریٹ کی مدد کیلئے فوراً میلان کی شاہراہوں پر نکل آئے، سراپا احتجاج عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ مجسٹریٹ کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے ،میئر معصوم بچوں کا قاتل ہے، اُسے سزا دی جائے، احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کر لی، میئر کو گرفتار کرنا پڑا اُس کا اور اُس کے گروہ کا جرم ثابت ہو گیا اور اُنہیں جیل ہو گئی۔ کرپشن کے خلاف میلان شہر سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک اِٹلی کے گلی کوچوں تک جا پہنچی ،عدلیہ کو ہمت ہوئی اور کرپشن کے جرم میں اِٹلی کے 12وزرائے اعظم اور چار سو ایم پیز پابندِ ِ سلاسل ہوئے۔یہ انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن تھا۔
مجھے اِٹلی کے عوام کا احتجاج ،انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن اور عدلیہ کے کٹہرے سے سزا یافتہ 12وزرائے اعظم اُس وقت یاد آئے جب 26ویں غیر آئینی ترمیم کا کلہاڑا چلا کرعدلیہ کے مد مقابل ایک جعلی عدلیہ کا وجود قائم کیا جارہا تھا ،مجھے اٹلی کے عوام کا احتجاج اس وقت یاد آیا جب فروری کے الیکشن میں عوام کی عدالت سے عبرت ناک شکست خوردہ ٹولے کو عوام کا حق خودارادیت قتل کرکے اقتدار کی کرسیوں پر بٹھایا جارہا تھا ،عوام کے مجرموں کوبادشاہت دیکر عوامی ووٹ کی طاقت کو ہوا میں اُڑا دیا گیا میں سوچنے لگا کہ عین اس وقت جب عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھی خود عوام کو شاہرات پر ہونا چاہیے تھا۔ اگر عوام اس وقت سراپا احتجاج ہوتے جب 90روز میں الیکشن کرانے کے احکامات پر حکمرانوں کی طرف سے عمل درآمد نہ کرنے پرآئین پاکستان کی شکل مسخ کی گئی ،اگر عوام چادر اور چار دیواری کی پامالی ،بے گناہ افراد کو جھوٹے مقدمات پر پابند سلاسل کرنے پر شاہرات پر نکل آتے تو حالات اس نہج پر کبھی نہ پہنچتے ۔اگر موجودہ حکمرانوں کے خلاف انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن ہوتا تو آئے روز پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ نہ ہوتا ،مہنگائی کا عفریت بیروز گاروں کی زندگیاں نہ نگلتا ،حکمران بے گناہوں کی گرفتاری پر دندناتے ہوئے نہ پھرتے ،اقتدار کی تنخواہ دار سپاہ کی طرف سے عوام کی آخری امید گاہ "عدالت عظمٰی”کے عوام دوست اقدامات پر اسے آئینی حدود میں کام کرنے کا مضحکہ خیزمشورہ نہ دیا جاتا ،اگر عوام اپنے اوپر مسلط ہونے والی 17سیٹوں والی حکمرانی اور 180سیٹیں جیتنے والی لیڈر شپ کے پابند سلاسل ہونے پر گھروں کی دہلیز پار کر لیتے تو عوامی فیصلے کی توہین کرنے کی جرات کوئی نہ کرتا ۔یہ سارے کارن محض اِس لیے ہوئے کہ اپنے حقوق کی پامالی پر عوام خاموش ہو کر بیٹھ گئے ،اور عوامی ووٹ کی طاقت کو پامال کرنے والے اقتدار کی اندھی طاقت میں عدلیہ کے ہر فیصلے کو روندتے چلے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: منصوبہ جات بڑے شہر عوام کا کے عوام میئر کے

پڑھیں:

سابق ڈپٹی میئر ملتان عباس علی انصاری کا انتقال

سٹی 42: سابق ایم پی اے و ،سابق ڈپٹی میئر ملتان عباس علی انصاری انتقال کر گئے۔

عباس علی انصاری کی نماز جنازہ  رات 10 بجے فیضان مدینہ میں ادا کی جائے گی۔ عباس علی انصاری عرصہ سے بیمار تھے. بیماری کے باعث سیاسی سرگرمیاں بھی محدود تھیں. مرحوم کا شمار ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔ عباس علی انصاری پیپلز پارٹی ملتان کے صدر اور ملتان شہر سے رکن صوبائی اسمبلی تھے

بیٹے نے کھانے میں معمولی تاخیر پر  ماں کو  قتل کردیا

متعلقہ مضامین

  • مفتاح اسماعیل نے غلط  اعداد و شمار سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی،وزیر توانائی اویس لغاری کا  ردعمل
  • پیپلز پارٹی نے 9 ارب روپے کے بدلے سندھ کے دریا کا پانی بیچا: محمد علی درانی
  • میئر استنبول اکرم امام گرفتار، عوام سڑکوں پر نکل آئے
  • محمد علی درانی کا پیپلز پارٹی پر سندھ کے حقوق بیچنے کا الزام
  • ترکیہ ، صدارتی امیدوار اکرم امام اعولوکی گرفتاری کیخلاف عوام کا سمندر امڈ آیا،شدید نعرے بازی
  • سپریم کورٹ میں خصوصی اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم
  • سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ کا نابینا وکیل کو جوڈیشل مجسٹریٹ بھرتی کرنے کا حکم
  • عوام کی آراء کو حکومت تک پہچانے میں میڈیا کا اہم کردار ہے، مظہر سعید
  • سابق ڈپٹی میئر ملتان عباس علی انصاری کا انتقال