Juraat:
2025-03-20@19:03:59 GMT

چولستان منصوبہ:فوائداورخدشات

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

چولستان منصوبہ:فوائداورخدشات

سمیع اللہ ملک
پاکستان میں زراعت اورمعیشت کے استحکام کیلئے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں،جن میں چولستان کی بنجرزمینوں کوقابلِ کاشت بنانا ایک اہم منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ پاکستان گرین انیشی ایٹیوکاحصہ ہے،جس میں فوج کوکلیدی کرداردیاگیاہے۔چولستان،جورقبے کے لحاظ سے پنجاب کا26٪حصہ ہے،چولستان کی بنجرزمینوں کوقابلِ کاشت بنانے اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے منصوبوں کے پیچھے کئی اہم مقاصد اوروجوہات ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ فوج اورپنجاب حکومت چولستان کی بنجرزمینوں کوقابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟
٭پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اورزرعی زمین محدودہونے کے باعث خوراک کی ضروریات پوری کرنے،خوراک کی فراہمی کویقینی بنانے اورخوراک کی پیداوار میں اضافہ کیلئے نئی زمینیں قابلِ کاشت بنائی جارہی ہیں۔
٭پاکستان کی آبادی ایک اندازہ کے مطابق23کروڑسے زیادہ ہے،اورخوراک کی طلب میں سالانہ 4فیصد اضافہ ہورہاہے۔مستقبل میں غذائی تحفظ کیلئے چولستان کی1.

6ملین ہیکٹرزمین کوآبادکرکے گندم،کپاس،اورسبزیوں کی پیداواربڑھانے کاہدف ہے۔
٭پاکستان اپنی زرعی برآمدات کوبڑھانے کاخواہاں ہے،اوراس منصوبے کے تحت جدیدزرعی تکنیکوں کااستعمال کرکے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی صلاحیت بڑھانے کیلئے زرعی برآمدات میں اضافہ کی کوشش کی جائے گی۔
٭معاشی ترقی کیلئے زراعت کے شعبے کوجدید خطوط پر استوارکرکے بیرونی زرِمبادلہ کے حصول میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔فوج پہلے ہی معیشت کے مختلف شعبوں میں متحرک ہے ، اوراس منصوبے میں فوجی اداروں کامعاشی کرداراوران کی شمولیت سے زرعی ترقی میں تیزی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
٭چولستان کی سرحدی حیثیت اوراسٹریٹجک اہمیت(بھارت کی سرحد کے قریب ہے۔فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے(روڈز، کمیونیکیشن نیٹ ورک)کی تعمیر سے دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
٭پاکستان کی قومی غذائی سیکیورٹی پالیسی2018میں زرعی زمینوں کے استعمال پرزوردیا گیاتھااورپاکستان اکنامک سروے2022۔23 میں چولستان کو”غیرمستعمل زمینوں کی بحالی”کے حوالہ سے خبردارکیاگیاتھاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کی بناپرقحط کا سامناہوسکتاہے،اس لئے اس خطرے سے بچنے کیلئے پیشگی انتظامات کرناازحدضروری ہیں۔
٭قومی سلامتی پالیسی2022-2026میں ماحولیاتی تحفظ کوقومی سلامتی سے جوڑاگیاجس کیلئے15مارچ2023میں فوج کے زرعی منصوبوں پرتفصیلی رپورٹ بھی شائع کی گئی تاکہ اس منصوبہ کی آگاہی اورادراک پیدا کرکے اس پراتفاق رائے پیداکیاجاسکے۔
٭پنجاب کے دیگرزرخیزعلاقوں پرآبادی کے دباؤکوکم کرنابھی مقصودہے۔چولستان کاریگستانی علاقہ دفاعی نقطہ نظرسے بھی بہت اہم ہے،جہاں فوجی مفادات کیلئے فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرکوترجیح دی جاتی ہے۔
٭فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پرمنصوبوں کوتیزی سے عملی شکل دینے کی تنظیمی صلاحیت،ٹیکنالوجی،مالی وسائل،اور انجینئرنگ ماہرین تک فوری رسائی ممکن ہے اورسیکورٹی فوکس کی بناپرماحولیاتی تحفظ کوقومی سلامتی سے جوڑنے کانظریہ بدرجہ اتم موجودہے۔
٭اس منصوبے کے تحت پانی کے بہتروسائل مہیاکرنے کیلئے نئی نہریں تعمیر کی جارہی ہیں،جن سے پانی کی دستیابی بہترہوسکتی ہے۔تاہم،یہ اقدام سندھ اورپنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کومزیدسنگین بناسکتاہے۔
٭گرین پاکستان انیشی ایٹیوایک ایسامنصوبہ اورایک قومی مہم ہے جس کامقصدجنگلات کی بحالی،پانی کے وسائل کامؤثراستعمال،اور جدیدزراعت کوفروغ دیناہے جس کامقصد ملک بھرمیں غیرآبادزمین کوقابلِ کاشت بناناہے۔
٭پنجاب میں سب سے زیادہ40لاکھ ایکڑزمین لیزپردی جارہی ہے لیکن مقامی70فیصدکسانوں کامؤقف ہے کہ انہیں صحیح معاوضہ نہیں دیاجارہا۔
٭15فروری کو چولستان میں گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت نئے زرعی منصوبوں کا افتتاح کے موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس ہے، جدید زراعت کے طریقے صوبے کے کسانوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید زراعت پنجاب کو پاکستان کا فوڈ باسکٹ بنائے گی۔
٭آخرگرین پاکستان کا منصوبہ کیا ہے جس کیلئے ہنگامی اور انقلابی اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
٭ملک میں ایک ارب درخت لگائے جائیں گے اورہرسال جنگلات میں اضافہ کیاجائے گاجوملک کوموسمیاتی خطرات کے تدارک کا سبب بنے گا۔
٭جدید خطوط پراستوارمبنی نظام کے تحت ملک میں پانی کے ضیاع کو30فیصد کم کیاجائے گا۔
٭جدیدزراعت کوفروغ دینے کیلئے نئے سائنسی اورآزمودہ اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
٭فوج کے کورکمانڈرزکوصوبائی سطح پرمنصوبوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔مثال کے طورپر،سندھ میں فوجی انجینئرزکی زیرنگرانی نہری نظام کی تعمیرکاسلسلہ شروع کیا جائے گاتاکہ کسی بھی صوبے کوکسی قسم کااعتراض نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ میں فوج کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں کیونکہ:
٭فوج اپنی منظم حکمتِ عملی، انتظامی صلاحیت، انفراسٹرکچر اور وسائل کی بدولت بڑے پیمانے پر منصوبوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
٭حکومت کو امید ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کارے کے فروغ کیلئے فوج کی نگرانی میں چلنے والے منصوبے شفافیت کی ضمانت دے سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
٭فوج کی موجودگی سے ان علاقوں میں سیکیورٹی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں اور زمین کے قبضے، قانون و امن و امان سے متعلق تنازعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ہائبرڈ نظام سے مراد سویلین حکومت اور فوج کے درمیان طاقت کا اشتراک ہے۔ معیشت کے شعبوں (خاص طور پر زراعت اور سیاحت)میں فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو ایس آئی ایف سی (سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل)کے ذریعے تقویت ملی ہے۔ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل اور ہائبرڈ نظام کے قیام کا بنیادی مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، اس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے
٭سویلین حکومت کے ساتھ فوج کا معاشی اور انتظامی امور میں براہ راست مداخلت کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
٭ایس آئی ایف سی کے تحت فوجی افسران کی جانب سے لینڈ ایکوائزیشن کے فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ اس میں مقامی کسانوں کو مشاورت سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی 2023کی رپورٹ میں فوج کے معاشی کردار پر جو تجزیہ کیا گیا ہے، اس کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔
٭انسٹی ٹیوٹ فار ریجنل میڈیا کی جانب سے ایس آئی ایف سی کی غیرشفافیت پر رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیںصرف دو معاہدوں کے نتائج سے ایس آئی ایف سی کی کارکردگی کو پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلا معاہد قطر کے ساتھ ”کیوآئی اے”(QIA)اور دوسرا سعودی عرب کے ساتھ ”اے سی ڈبلیو اے”(ACWA) ابھی تک تاخیر کا شکار ہیں اور ان معاہدوں کا اعلان ہونے کے باوجود ان پر دستخط نہیں ہو سکے۔
٭سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا موقف کہ ایس آئی ایف سی نے صوبائی خودمختاری کو نظرانداز کیا ہے اور پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو2023کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تنازعہ ابھی تک توجہ اور حل طلب ہے۔ علاوہ ازیں سندھ اسمبلی کی جانب سے دسمبر 2023میں ایس آئی ایف سی کے خلاف قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔
٭کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس ادارے کے قیام سے سویلین ادارے مزید کمزور ہو رہے ہیں اور معاشی فیصلوں میں فوج کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور سویلین اداروں کی بیدخلی کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ کیونکہ ایس آئی ایف سی کی 11 رکنی کونسل میں 6 ارکان فوج سے وابستہ ہیں۔
٭فوجی کنٹرول کی گرفت مضبوط نظر آ رہی ہے۔ سویلین اداروں کے بجائے فوجی افسران کی فیصلہ سازی سے غیر شفافیت کا احساس ابھرتا ہے منصوبوں کی تفصیلات عوامی سطح پر واضح نہیں کی جاتیں ، زمینوں کی لیز پر فراہمی کے دوران مقامی کسانوں کو نظرانداز کرنے سے مقامی آبادی کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
٭جون 2023 میں قائم ہونے والی ”ایس آئی ایف سی”کا مقصد غیرملکی سرمایہ کاری کو آسان بنانا، اقتصادی اصلاحات کو تیز کرنا، اور زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور سیاحت جیسے شعبوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا بتایا گیا ہے لیکن اس کے قیام کے باوجود،معاشی فوائد کی غیر یقینی صورتحال نظر آ رہی ہے اور اب تک کوئی بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں نہیں آئی۔ صوبوں سے زمینوں کی لیز پر حصول کے عمل میں بھی تنازعات پیدا ہور ہے ہیں۔
٭بیوروکریٹک رکاوٹوں( Bureaucratic obstacles)یعنی سرکاری اداروں کی جانب سے اجازت ناموں میں تاخیر کی بنا پر منصوبہ پر شکوک وشبہات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
٭حکومتی تبدیلیوں کے باعث معاہدوں پر عملدرآمد میں رکاوٹوں سے پالیسی عدم استحکام کا تاثر بڑھ رہا ہے۔
٭غیرملکی کمپنیوں نے ٹیکس کے نئے قوانین اور پیش آنے والے مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
٭غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے قانونی اور کاروباری ماحول کے حوالے سے چین اور یو اے ای کے سرمایہ کار شکایات کا اظہار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کے منصوبے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔
٭چینی کمپنیوں کو یہ شکایت ہے کہ ابھی تک سی پیک معاہدوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور ڈیما باراج ڈیم میں تاخیر سے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان مسائل پر 2023میں رائٹرز کی رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے۔
٭یو اے ای کی سرمایہ کاری میں یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ دبئی کی کمپنی ایمریٹس گروپ کو پنجاب میں سولر پارک کے منصوبے میں ٹیکس کے مسائل بدستور قائم ہیں اور ان کے حل میں تاخیر سے سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔
٭اس سلسلے میں عرب نیوز )جنوری (2024میں یو اے ای کے سرمایہ کاروں کی شکایات بھی شائع ہو چکی ہیں جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امیج کو نقصان ہو رہا ہے۔۔
ایس آئی ایف سی (SIFC)کے تحت زرعی اور سیاحتی منصوبوں پر ملک کے مختلف علاقوں میں ردِعمل ملا جلا ہے
٭فوج کے زیرِ انتظام سیاحتی منصوبے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور کچھ مقامی افراد کا گلگت بلتستان میں سیاحتی ترقی پروگرام پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ مقامی افراد کو بے دخل کر سکتا ہے اور ان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
٭سندھ میں کسانوں کے احتجاج اور تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ گرین انیشی ایٹیو کے تحت پانی کے استعمال میں پنجاب کو ترجیح دی جا رہی ہے، جس سے سندھ کے زراعت پیشہ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
٭چولستان میں نہروں کی تعمیر کے باعث سندھ کے کسانوں کا موقف ہے کہ دریائے سندھ کا پانی پنجاب کی طرف موڑا جا رہا ہے، سندھ کی جانب سے اسے پانی کی چوری قرار دیا گیا ہے۔سندھ کا مؤقف ہے چولستان میں نہروں کی تعمیر کے باعث دریائے سندھ کا 44 فیصد پانی پنجاب استعمال کرے گا جبکہ سندھ کو صرف 10 فیصد پانی ملے گا جو کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 کے آرٹیکلز کے خلاف ہے۔سندھ کی حکومت کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جانب سے نہروں کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس سلسلے میں سندھ اسمبلی کی جانب سے جاری کردہ سفارشات پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
٭بنیادی حقوق اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت مقامی کمیونٹیز کا مطالبہ ہے کہ انہیں منصوبوں میں مقامی کمیونٹی کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے براہ راست ان کی شمولیت کو لازمی دیتے ہوئے ان کے تحفظات کو سنا جائے لیکن اس منصوبے کے باعث سندھ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم پر کشیدگی بڑھ رہی ہے، کیونکہ نئی نہریں تعمیر کیے جانے سے سندھ کے پانی کے حصے پر اثر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں فوج کے معاشی کردار اور زرعی منصوبوں پر ہونے والی تنقید ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ چولستان اور دیگر علاقوں میں بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کا منصوبہ یقینی طور پر پاکستان کی زرعی ترقی کیلئے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے انتظامی، سیاسی اور ماحولیاتی پہلوں پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔(SIFC) ایس آئی ایف سی کے دائرہ کار اور فوج کے معاشی کردار پر جاری بحثیں مستقبل میں بھی پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئے ایک اہم چیلنج بنی رہیں گی۔
فوج اور پنجاب حکومت کے چولستان کے منصوبوں کو قومی مفاد قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ اقدامات صوبائی تنازعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ایس آئی ایف سی جیسے اداروں میں فوج کی شمولیت سے سویلین حکومت کی خودمختاری متاثر ہو رہی ہے۔ مستقبل میں ان منصوبوں کی کامیابی کیلئے شفافیت، مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ، اور بین الصوبائی ہم آہنگی ضروری ہے۔یہ تفصیلات پاکستانی میڈیا، سرکاری دستاویزات، اور بین الاقوامی رپورٹس پر مبنی ہیں۔مزیدتحقیق کیلئے پاکستان اکنامک سروے 2023-24، اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کی تحقیقات پر مبنی رپورٹس بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: غیر ملکی سرمایہ کی سرمایہ کاری ملکی سرمایہ کا ایس آئی ایف سی میں اضافہ کی پاکستان میں چولستان کی پاکستان کی کی جانب سے کی شمولیت زمینوں کو جا رہا ہے ہو رہا ہے بھی شائع اضافہ ہو کے معاشی کی تعمیر سندھ کے رہے ہیں پانی کی کے باعث سکتا ہے پانی کے ہیں اور میں فوج رہی ہے فوج کی کے تحت ہے ہیں فوج کے گیا ہے ہو چکی اور ان ہے اور

پڑھیں:

جو جماعت سکڑ رہی ہے، وہ عوام سے کہہ رہی ہے ہمارے پیچھے چلیں، سعید غنی

صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ ملک میں پانی کی تقسیم منصفانہ اور آئین کے مطابق ہونی چاہیے، سندھ کی اجازت کے بغیر دریائے سندھ سے نئی کینالز نہیں نکالی جا سکتیں، جو جماعت سکڑ رہی ہے، وہ عوام سے کہہ رہی ہے کہ ہمارے پیچھے چلیں۔

صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قائد آباد میں بڑا برج تعمیر کیا جارہا ہے، اور آئندہ ماہ اپریل کے آخر میں اس منصوبے کا آغاز ہوگا۔

سعید غنی نے کہا کہ ملک میں پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس حوالے سے سندھ اور پنجاب دونوں کو چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں بھی پانی کی قلت ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے عوام کو پینے کا پانی میسر ہے۔

انہوں نے پانی کے وسائل اور کینالز کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مخالفین پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر رہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی کو علم بھی نہیں تھا، اس وقت ہم نے کینالز پر آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کا اجلاس بلانے کے لیے کئی خطوط لکھے، اور بارہا اس مسئلے کو اجاگر کیا۔

سعید غنی نے کہا کہ پانی کی تقسیم کا طریقہ کار منصفانہ، قانونی اور آئینی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کی اجازت کے بغیر نئی کینالز نہیں نکالی جا سکتیں، اور نئی کینالز بنانے کا منصوبہ فی الحال ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جو جماعت سکڑ رہی ہے، وہ عوام سے کہہ رہی ہے کہ ہمارے پیچھے چلیں۔ انہوں نے اپوزیشن سے اپیل کی کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں اور مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔

صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ کئی لیگی رہنماؤں نے اس مسئلے کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جبکہ بعض عناصر کشیدگی پیدا کر رہے ہیں، ملک میں پہلے ہی پانی کی قلت ہے، اس صورتحال میں نئی کینالز بنانے کا منصوبہ سمجھ سے بلاتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام فورمز کو استعمال کر رہے ہیں جو ہمیں میسر ہیں، اور تمام معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہیں۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • دریائے سندھ میں پانی کی کمی، 25 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
  • دریائے سندھ میں پانی کی کمی کا 25 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا،پاکستان میں قحط سالی کا خدشہ
  • کم پانی سے کاشت ہونیوالی 22 نئی فصلیں تیار
  • دریائے سندھ پر کینال، پنجاب حکومت نے اربوں روپے مختص کر دیے
  • سندھ کی ترقی اور غربت
  • دریائے سندھ پر 6 نہریں نہیں بننے دیں گے، سعید غنی
  • سندھ کے سائنسدانوں کا کارنامہ، کم پانی پر زیادہ پیداوار والی 22 نئی اجناس تیار
  • جو جماعت سکڑ رہی ہے، وہ عوام سے کہہ رہی ہے ہمارے پیچھے چلیں، سعید غنی