روس کے بعد یوکرین نے بھی 30 روزہ عارضی جنگ بندی پر اتفاق کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روس سے 30 روزہ عارضی اور محدود جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جبکہ امریکا کے صدر ٹرمپ نے یوکرین کے معدنی ذخائرکے بعد توانائی تنصیبات پر ملکیت کی بھی خواہش ظاہر کی ہے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے درمیان فون پر شاندار گفتگو ہوئی۔ ٹرمپ کی یوکرینی ہم منصب سے ٹیلی فون پر ایک گھنٹے بات ہوئی ہے جس میں صدر زیلنسکی نے امریکی تعاون پر شکریہ ادا کیا اور اتفاق کیا ہےکہ روس کے توانائی انفراسٹرکچر پر حملے نہیں کیے جائیں گے۔
زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ جوہری پلانٹس کے حوالے سے تجویز پر بات چیت کی ہے۔ انہیں ٹرمپ کی طرف سے روس کے حق میں کسی قسم کی رعایت دینے کا دباؤ محسوس نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: ’اپنا منہ بند رکھو‘، ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر کے مابین زبانی جھڑپ کی ویڈیو وائرل
صدر ٹرمپ نے ٹیلیفونک گفتگو میں یوکرینی ہم منصب سے کہا کہ یوکرین کے توانائی انفراسٹرکچر کو محفوظ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایٹمی اور الیکٹریکل پلانٹس سمیت توانائی تنصیبات امریکی ملکیت میں دے دی جائیں۔
تاہم یوکرینی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی تجویز قابل عمل نہیں کیونکہ یوکرین میں قائم یورپ کا سب سے بڑا انرجی پلانٹ Zaporizhzhia روس کے کنٹرول میں ہے۔ صدر ٹرمپ کی تجویز یوکرینی صدر کے اعلامیہ میں شامل بھی نہیں کی گئی۔
یہ بھی واضح نہیں کہ عارضی جنگ بندی کا آغاز کس تاریخ سے ہوگا۔ تاہم اس معاملے پر آئندہ چند روز میں تکنیکی ٹیمیں سعودی عرب میں ملاقات کریں گی جس میں عارضی جنگ بندی کا سلسلہ انرجی تنصیبات سے بڑھا کر اس میں بحیرہ اسود میں لڑائی بند کیے جانے کو بھی شامل کرنے پر بات کی جائےگی۔
مزید پڑھیں: یوکرینی صدر سے وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان سامنے آگیا
وائٹ ہاؤس کے مطابق روس نے ایک روز قبل یوکرینی توانائی انفرا اسٹرکچر پر 30 روز کے لیے حملے نہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور دونوں نے بُحیرہِ اسود میں جنگ بندی، مستقل امن کے لیے تکنیکی مذاکرات پر اتفاق کیا تھا۔
واضح رہے کہ یکم مارچ 2025 کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے کے دوران جھڑپ ہوگئی تھی جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنکسی سے کہا تھا کہ آپ نے بہت باتیں کرلیں اب اپنا منہ بند رکھیں۔ اگر ہم نے اپنا فوجی سازوسامان نہ دیا ہوتا تو آپ کی جنگ 2 ہفتوں میں ختم ہوجاتی۔ آپ لوگ یہ جنگ نہیں جیت سکتے اور بڑی مشکل میں ہیں۔
اس پر زیلنکسی نے کہا تھا کہ وہ یہ بات جانتے ہیں۔ جناب صدر ہم شروع سے اس جنگ میں اکیلے ہیں۔ اس کے بعد زیلنکسی مزید کہنا چاہ رہے تھے لیکن ٹرمپ انہیں بار بار ٹوکتے اور بات کاٹتے رہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ٹرمپ جنگ بندی روس زیلنکسی یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا زیلنکسی یوکرین ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے ٹرمپ کی روس کے کے بعد کے صدر
پڑھیں:
ٹرمپ اور پیوٹن کا ٹیلیفونک رابطہ، یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق روسی اور امریکی صدور کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کا مقصد روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینا تھا، امریکہ ایک عارضی جنگ بندی کے لیے کوششیں کر رہا ہے تاکہ جنگ کو روکنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا روسی صدر پیوٹن کو ٹیلی فون، یوکرین کی صورتحال سے متعلق تبادلہ خیال ہوا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں راہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کا مقصد روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینا تھا، امریکہ ایک عارضی جنگ بندی کے لیے کوششیں کر رہا ہے تاکہ جنگ کو روکنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ امریکی میڈیا کے مطابق کے مطابق یہ گفتگو صبح 10 بجے (ایسٹرن ٹائم) شروع ہوئی اور اس دوران ٹرمپ نے روس کی طرف سے دی جانے والی ممکنہ رعایتوں پر تبادلہ خیال کیا، جن میں مقبوضہ علاقوں سے فوج کے انخلا کا امکان بھی شامل تھا۔
ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات میں زمین، توانائی کے منصوبے اور دیگر وسائل کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے، وائٹ ہاؤس کے نائب چیف آف سٹاف ڈین سکاوینو نے بتایا کہ گفتگو ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی اور مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ دوسری جانب کریملن نے تصدیق کی کہ پیوٹن اس بات چیت کے لیے پہلے سے تیار تھے اور روسی حکام نے اس گفتگو کے لیے اپنی حکمت عملی مرتب کر لی تھی۔
گزشتہ ماہ ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بعد امریکہ نے مذاکرات کی راہ ہموار کی تھی جس کے نتیجے میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی واشنگٹن کا دورہ کیا، تاہم، اس ملاقات کے دوران کشیدگی اس وقت بڑھی جب ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر دباؤ ڈالا اور بعد میں فوجی امداد کو عارضی طور پر روک دیا گیا۔
سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ایک 30 روزہ جنگ بندی منصوبے پر بات چیت ہوئی جسے یوکرین نے قبول کر لیا ہے، اب امریکہ روس کو اس پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ٹرمپ کے مطابق "روس کے پاس تمام اختیارات ہیں۔