23مارچ، ہماری کمزوریاں اور دشمن کی چالاکیاں
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
انشاء اللہ دو دن بعد ایک مرتبہ پھر پوری قوم 23 مارچ کو یوم پاکستان منائے گی۔ بحیثیت پاکستانی یوم پاکستان ہمارے لیے بہت بڑا اور اہم دن ہے کیونکہ یہی ہماری آزادی کا سنگ میل ہے۔ 23 مارچ 1940 کے تاریخی دن بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اللہ کے حکم سے مسلمانان برصغیر کے لیے ایک مملکت خداداد کے حصول کا اعلان لاہور کے منٹو پارک میں کیا جسے قیام پاکستان کے بعد مصور پاکستان علامہ اقبال سے منسوب کرکے گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا۔
23 مارچ 1940کی یادگار مینار پاکستان پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا، آج بھی اسی دن کی مناسبت، ملک سے محبت اور تاریخ کا گواہ ہے۔ اس مقام پر قائد اعظم اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جانب سے واشگاف انداز میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ وہ برسوں سے جاری انگریز ہندو گٹھ جوڑ کو توڑنے اور اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے ایک الگ ملک کی خاطر جان کی بازی لگانے کو بھی تیار ہیں۔
اس اجلاس میں واشگاف انداز میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ مسلمانان برصغیر اب پاکستان سے کم کسی بات پر راضی نہ ہوں گے۔ اسی اجلاس کے نتیجے میں برطانوی راج کو 46-1945 میں دوبارہ انتخابات کرانے پڑے جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا باعث و موجب بنے۔ 14 اگست 1947کومسلمانان برصغیر کی قربانیاں رنگ لائیں اور دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ابھر کر سامنے آگیا۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے پاکستان ایک ایسے جدید، ترقی یافتہ اور متمدن اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے حاصل کیا تھا جو دور جدید میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کی عملی تصویر نظر آئے اور پوری قوم کو "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" پر یکجا کرکے جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔
مملکت خداداد پاکستان بننے کے بعد ریاست پاکستان نے یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلام آج بھی انسانیت کی ضرورت ہے۔ آج بھی قرآن و سنت کے مطابق اسلام کی آفاقی اقدار پر مشتمل ایک جدید، ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ اسی خواہش کو مفکر پاکستان علاّمہ محمد اقبالؒ نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے پیرائے میں بیان کیا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم اور ان کے رفقاء نے ایک ایسے پاکستان کے لیے جدوجہد شروع کر دی جو جمہوری، اسلامی اور ترقی یافتہ ہو۔
ان کا وعدہ تھا کہ پاکستان میں قانونی نظام قرآن و سنت کے تابع ہوگا اور اس جدید ریاست میں اجتہاد کے ذریعے ایسا ترقی یافتہ قانونی نظام قائم کیا جائے جو جدید اسلامی قانون کا پرتو ہو اور اس کی مدد سے مملکت خداداد میں ایک ایسامعاشرہ قائم ہو جس میں امن، سکون، سلامتی، اقتصادی ترقی اور معاشرتی ہم آہنگی کے اسلامی اصولوں کا رواج ہو، جب کہ غیر مسلموں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے حقوق کا مکمل تحفظ ہو۔
علاقائی ثقافتوں اور زبانوں کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک مرکزی پاکستانی اسلامی تہذیب کا حصہ بنایا جائے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے یہ پاکستان ہندوستان کا سینہ چیر کر حاصل کیا، جسے انتہا پسند ہندوؤں نے آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا، آج بھی جنونی ہندو اور ان کے نیتا اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھتے ہیں، اس خواب کی تعبیر نے ہر جنونی ہندو بنئے کی زندگی 1947 سے لے کر آج تک اجیرن کی ہے۔ آج تک ہندوستانی ریاست نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جب دشمن ہمیں نیست و نابود کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہو تو ہمیں اپنی کمزوریوں کو اس کی طاقت بننے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں اگرچہ پاکستان کو کئی چیلنجز درپیش تھے، تقسیم پُر امن ہونے کے بجائے خون ریز ہوگئی، معاہدے کو پامال کرتے ہوئے پاکستان کے کئی علاقے ہندوستان کے حوالے کر دیے گئے، کشمیر پر ہندوستان نے قبضہ کر لیا، پاکستان کو اس کے اقتصادی اور مالیاتی حقوق سے محروم کر دیا گیا، لیکن بانیانِ پاکستان کی مسلسل جدوجہد اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان نے اپنے مسائل حل کرنا شروع کر دیے اور ملک دن بدن مستحکم ہوتا چلا گیا۔گزشتہ آٹھ دہائیوں میں حکمرانوں کی نااہلی کے باوجود پاکستان نے ترقی کی اور مستحکم رہا کیونکہ ہمارے مجاہد ایٹمی سائنسدانوں کی جہد مسلسل اور اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ بانیان پاکستان کی جدوجہد اور اللہ کے فضل سے ہم قرار داد پاکستان کی منظوری کے سات سال بعد کلمہ طیبہ کے نام پر آزاد ملک بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
مگر کم و بیش 8 دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم نے یہاں "لا الہ الا اللہ کا نظام" عملی طور پر نافذ کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ جس منزل کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا اور جس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانان ہند نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں وہ آج بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔
انتہائی ستم ظریفی یہ کہ ہم نے اس عرصے میں اللہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے پاکستان کے بعض دشمن عناصر نے اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھایا اور معصوم نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی اس ناعاقبت اندیشی کے نتیجے میں جہاں ایک ایسی آزاد خیال، مادر پدر آزاد، نام نہاد روشن خیال اور قوم پرست نسل پیدا ہوگئی ہے جو نظریہ پاکستان کی نفی پوری ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے کرتی ہے اور مسلمانان پاکستان کو پنجابی، پختون، بلوچی اور سندھی میں تقسیم کرکے ان کے گلے کاٹ رہے ہیں۔
وہاں ایسے گروہ بھی جنم لے چکے ہیں جو امن و سلامتی کے دین مبین اسلام کے نام پر ملک بھر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں مساجد، مدارس پر حملے کررہے ہیں، علماء کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ یہ ناعاقبت اندیش گروہ پاکستان اور اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، گزشتہ ایک ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے دارالعلوم حقانیہ اور بنوں کینٹ کی مسجد پر حملے کیے گئے۔
ایک طرف شہید ابن شہید مولانا حامد الحق حقانی جیسے حق پرست عالم دین کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا تو دوسری طرف متنازعہ شخصیت کے حامل مفتی منیر شاکر کو خود کش دھماکے کا نشانہ بنایا اگر یہ مذہبی منافرت ہے تو دونوں کا قاتل اور منصوبہ ساز ایک نہیں ہوسکتے مگر یہ مذہبی منافرت بالکل نہیں یہ دونوں پاکستان اور اسلام دشمنی پر مبنی اور پاکستان کی سالمیت پرخود کش حملے تھے، تربت میں جے یو آئی کے رہنما مولانا شاہ میر کو نماز تراویح پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا، مولانا شاہ میر نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، وانا میں جمعیت علمائے اسلام کے امیر مفتی عبدالباقی کو شہید کیا گیا۔
یہ کیسے مانا جاسکتا ہے پاکستان میں نفاذاسلام کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے علماء پر حملہ آور، مساجد و مدارس کو خون میں نہلانے اور معصوم و بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرنے والوں کا امن وسلامتی کے دین مبین اسلام سے دور کا بھی واسطہ ہے؟ مگر افسوس صد افسوس کہ وہ یہ سب کچھ دین کے نام پر کررہے ہیں۔ حالانکہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم عالیہ نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ سے مکالمے میں یہ واضح طور پر کہا تھا کہ"پاکستان اسلامی ریاست ہے اور اس کا دستور اسلامی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ وہی معاملہ کرنا چاہیے جو بطور فردایک مسلمان سے کیا جاتا ہے۔
ریاست سے نفاذِ اسلام کے باب میں کوتاہی ہوئی لیکن جس طرح مسلمان کسی کوتاہی کے سبب سے کافر نہیں ہو جاتا، اسی طرح ریاست بھی کافر (دارالحرب) نہیں ہو جاتی اگر اس نے اپنے دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہو"۔ مفتی صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ "بیس سال کی مسلح جدوجہد جس کے نتیجے میں ہزاروں بچوں، عورتوں، علماء، سرکاری اہلکاروں اور پاکستانی عوام کی شہادتیں ہوئی، کیا اس سے ملک میں کوئی ادنیٰ تبدیلی آسکی؟"
ارباب اختیار کی ذمے داری ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی طرف لوٹ کر اللہ سے معافی مانگ کر اپنی ان کمزوریوں کو دور کریں جن کا فائدہ دشمن قوتیں اٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہیں، 1973کے آئین پرمن و عن عمل درآمد کیا جائے۔ جس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنے گا اور جو ایسے قوانین پہلے سے موجود ہیں انھیں بتدریج قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ بہت تاخیر ہوچکی، مزید تاخیر اس ملک کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کرسکتی ہے۔
ریاست یہ ذہن نشین کرلے کہ پاکستان کے جید علماء و شیوخ کی اکثریت آج بھی کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں نفاذ اسلام و شریعت کے لیے پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے لہٰذا انھیں مایوسیوں کی جانب مت دھکیلیں، کہیں وہ مٹھی بھر شرپسندوں کے سامنے شرمسار نہ ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے نتیجے میں پاکستان میں پاکستان نے پاکستان کو ترقی یافتہ پاکستان کی پاکستان کے کے نام پر اسلام کے کیا گیا دیا گیا نہیں ہو ا ج بھی اور اس کے لیے تھا کہ میں کو
پڑھیں:
پاکستان افغانستان سے بلاوجہ دشمنی مول نہ لے ، بانی پی ٹی آئی کا اہم بیان
بانی کی بہن نے کہا ہے کہ بانی افغانستان کو دشمن نہیں سمجھتے اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان افغانستان سے بلاوجہ دشمنی مول نہ لے۔
بانی کا افغانستان کی حکومت سے لڑائی مول نہ لینے کا بیان آج شام اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کی حکومت اور ریاست کے اداروں کے رہنما پاکستان میں افغانستان کی سرپرستی سے ہو رہی دہشتگردی کے سبب پاکستان کی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات پر غور کرنے اور وطن کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اسمبلی کے فلور پر اہم ترین مشاورت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
آج قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر، ڈٓئریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز، سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو، وزیر دفاع خواجہ آصف علی، جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان خان اور دیگر قومی عمائدین بریفنگز اور ان بریفنگز مین سامنے لائے گئے سنگین مسائل پر اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ اس قومی مشاورت مین پی ٹی آئی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی نے پہلے اجلاس مین شرکت کے لئے اپنے 14 رہنماؤں کے نام دیئے، پھر پراسرار طور پر اس اجلاس میں نہیں آئی۔
آج دوپہر یہ اجلاس پی ٹی آئی کے نمائندوں کے بغیر ہی ہوا جو اب تک جاری ہے۔اس دوران اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان ان سے ملاقات کے لئے آئیں اور اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد کہا کہ بانی نے کہا ہے، افغانستان ہمارا دشمن نہیں ہے، آپ اسے دشمن بنانے کی کوشش نہ کریں، آپ کیوں بلاوجہ مسلمان بھائیوں سے لڑائی مول لے رہے ہیں۔
علیمہ خان نے پاکستان کی موجودہ سنگین صورتحال کے متعلق بانی کا مؤقف یہ بتایا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گراف نکال کر دیکھیں دہشتگردی 2021 تک کم ترین ہو گئی تھی اور 2022 میں پھر بڑھنا شروع ہوئی۔عمران خان نے کہا ، “افغانستان ہمارا دشمن نہیں ہے، آپ اسے دشمن بنانے کی کوشش نہ کریں، آپ کیوں بلاوجہ مسلمان بھائیوں سے لڑائی مول لے رہے ہیں۔”