Express News:
2025-03-21@06:06:17 GMT

چوہدری صاحب رلا گئے سب کو

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

یہ ہمارے پڑوس میں ایک چوہدری صاحب ہیں جاوید چوہدری جو پورے کے پورے اور پکے پکے میرتقی میر ہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کہیں سے کوئی ایسی بات لے آتے ہیں جس سے ہمیں رلا دیتے ہیں

میر صاحب رلا گئے سب کو

کل وے تشریف یاں پر لائے تھے

دو بچوں کی وہ کہانی۔اب بھی یاد کرکے جھرجھری آجاتی ہے کیا واقعی اب بھی دنیا میں ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو لالچ میں چنگیز و ہلاکو کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور وہ بھی اس ملک میں۔جسے بنانے والوں نے دی تھی قربانی لاکھوں جانوں کی۔ کہ کافروں کے ظلم وستم سے دور اپنے بچوں کے لیے ایک امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں گے جہاں محبت اخوت اور بھائی چارے کے پھول اگیں گے انصاف و عدل کا بول بالا ہوگا اور جنت کا ماحول ہوگا۔

بہشت آن جا کہ آزارے نہ باشد

کسے را باسکے کارے نہ باشد

لیکن ہوا کیا؟ہمیشہ کی طرح’’اشراف‘‘ تاک میں تھے مورچوں میں بیٹھے تھے اور اصلی بنانے والے مخلص تو سادہ دل لوگ تھے جب تک ان کو پتہ چلتا اشراف ہراول میں پہنچ کر قبضہ جماچکے تھے اور اصلی لوگوں کو ادھر ادھر کرکے قافلے کو یوٹرن دے چکے تھے۔

دنیا میں ہمیشہ جب بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے انقلاب برپا ہوتا ہے تو جن اشراف کے خلاف اٹھتا ہے وہ پہلے تو اسے کمی کمین لوگوں کی شور پشتی قرار دیتے ہیں یا پھر بزور دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی انقلاب کامیاب ہوتا نظر آتا ہے تو بڑے کمال کے ساتھ اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور ہراول دستہ میں پہنچ جاتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اسے اپنی ڈب پر لے آتے ہیں۔جو کچھ ہوچکا وہ تو ہوچکا۔ہمارے چوہدری کے مطابق ان دو بچوں پر ظلم کی انتہا کرنے والے، والے پکڑے گئے ہیں۔لیکن کیا واقعی ’’پکڑے‘‘ گئے ہیں ؟اس ملک میں جو قوانین چلتے ہیں جن کو انگریزوں نے ’’تعزیرات ہند‘‘ کا نام دیا تھا اور اب مشرف بہ پاکستان ہو کر تعزیرات پاکستان کہلاتے ہیں وہ ایک ایسی موم کی ناک ہیں جن کو کوئی بھی گرم ہاتھ جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے ۔

ہمارا ایک بہت ہی معزز محترم اور بزرگ عزیز ایک دن ہمارے پاس کچھ معزز مہمانوں کے ساتھ آگئے، مہمانوں کے لباس اور انداز و اطوار سے لگتا تھا کہ’’خواص‘‘ ہیں عوام نہیں۔مسئلہ یہ تھا کہ ان کا کوئی آدمی قتل کے جرم میں ماخوذ ہوا تھا۔اور اس قتل میں خود مقتول نے اپنے ’’بیان نزع‘‘ میں اس شخص کا نام لیا تھا،اب قانون کی کتابوں میں’’بیان نزع‘‘ کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن کمال کرنے والے اگر کمال نہ کریں تو باکمال کیسے کہلائیں، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ’’بیان نزع‘‘ کے وقت جو ڈاکٹر موجود تھا اگر وہ ہمارے وکیل کے سوال پر مطلوبہ بیان دے دے تو باقی کام وکیل کا ہے۔ ڈاکٹر سے وکیل یہ سوال کرے گا کہ سکرات مرگ کے وقت مرنے والے کا دماغ سو فیصد درست ہوتا ہے یا اس میں کوئی بگاڑ بھی ہوسکتا ہے، ڈاکٹر نے صرف اتنا کہنا ہے کہ دماغ متاثر بھی ہوسکتا ہے۔

اتفاق سے وہ ڈاکٹر ہمارا گہرا دوست بھی تھا اور ہماری طرح پاگل بھی، چنانچہ ان لوگوں نے اس پر اپنا سارا زور تمام کیا تھا لیکن وہ ان کی مرضی کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا، پاگل جو تھا اور اب یہ لوگ اس پاگل کو مجھ پاگل کے ذریعے رام کرنا چاہتے تھے۔ظاہر ہے کہ ہم بھی پاگل تھے چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا وہ بزرگ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہوگیا کہ پاگل ان کی مرضی کی مرضی نہیں کرسکا تھا۔خلاصہ اس بکواس کا یہ ہے کہ شک زندہ اور شک پیدا کرنے والے پایندہ۔آپ دیکھ لیں گے کہ کیا ہوتا ہے اس طرح کے کیسوں میں۔ہم ابھی سے ان کو چشم تصور سے ان کو ہاروں سے لدے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تھا اور

پڑھیں:

ریاست اپنی رٹ کیسے قائم کرے

یوں لگتا ہے کہ جیسے خدا نخواستہ پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔پچھلے چند ہفتوں سے دہشت گردی کی لہر آئی ہوئی ہے۔دہشتگردی کے واقعات اتنی کثرت اور تسلسل سے ہو رہے ہیں کہ جیسے ملک میں شرپسندوں کا راج ہو۔بنوں کینٹ، جعفر ایکسپریس اور نوشکی حملہ اتنے بڑے واقعات ہیں کہ مقتدر حلقوں کو جھنجھوڑنے کے لیے بہت کافی ہیں لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔مذمتی اور للکارنے والے بیانات کی بھرمار ہے لیکن یہ حملے رک نہیں رہے۔

ہمارا ملک تو1980کی دہائی سے اس مشکل سے گزر رہا ہے، اتنے لمبے تجربے کے ہوتے ہوئے ہمارے اداروں کو تو کسی کو ہلنے نہیں دینا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی اور اے آئی کی کرشماتی ایکٹوٹی نے دنیا بدل دی ہے۔ ان کی موجودگی میںمنصوبہ بندی اور کاروائی کا دائرہ بہت بدل گیا ہے۔شرپسند سوشل میڈیا کے نت نئے پلیٹ فارموں سے بخوبی آگاہ ہو کر اور انھیں استعمال کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں جب کہ ہمارے سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی وہ Efficiency نہیں ہوتی۔وہ پہل کرنے اور سرپرائز دینے سے عاری صرف ری ایکٹ کرتے ہیں۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ابھی چند مہینے پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی اسی گاڑی پر حملہ ہوا تھا جس میں بہت سی جانیں گئیں۔اس مرتبہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کر کوئی ایک بجے جائے وقوعہ پر پہنچی۔ ڈرائیور جو معجزانہ طور پر بچ نکلا،اس کا کہنا ہے کہ سبی سے پہلے اوسی پور پہنچنے پر گاڑی کے انجن کے نیچے زوردار دھماکہ ہوا جس سے انجن پٹڑی سے اتر گیا اور اسے خاصا نقصان پہنچا۔ٹرین رک گئی تو ہر طرف سے فائرنگ کی زد میں آ گئی۔

مسافروں نے جان بچانے کے لیے بوگیوں کو اندر سے بند کر لیا لیکن حملہ آور دروازے توڑ کر اندر گھس آئے اور مسافروں کو دھمکا کر باہر نکالا۔بچ جانے والے کچھ مسافروں کے مطابق حملہ آوروں نے مسافروں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا۔یوں ان مسافروں کو تین چار ٹولیوں میں کھلے آسمان کے نیچے بٹھا کر ان پر پہرہ لگا دیا۔وقفے وقفے سے کچھ مسافروں کو لے جا کر مار دیا گیا۔کوئٹہ سے ٹرین جب چلی تو اس میں عملے کے علاوہ425کے قریب مسافر تھے۔

سب سے پہلے حملے کی اطلاع چار کلومیٹر دور سبی سکاؤٹس کو پہنچی اور پھر یہ اطلاع انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کو ملی۔سیکیورٹی ادارے فوراً حرکت میں آ گئے۔ایس ایس جی کی ضرار کمپنی جوAnti Terroristآپریشن میں انتہائی مہارت رکھتی ہے،وہ بھی وہاں پہنچ گئی اور سب نے مل کر صورتحال کا جائزہ لے کر مسافروں کو بازیاب کرانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا۔آپریشن کم و بیش 36گھنٹے جاری رہا۔آپریشن اگلے دن 12مارچ کی شام اختتام پذیر ہوا۔354یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔علیحدگی پسندوں کی ظالمانہ فائرنگ سے 26افراد شہید ہوئے۔18شہیدوں کا تعلق سیکیورٹی اداروں سے تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق33حملہ آور جہنم واصل ہوئے باقی وہاں سے نکل گئے۔وقوعہ کی تمام تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں ۔

بنوں کینٹ ، جعفر ایکسپریس اور نوشکی حملہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ناکامی ہے۔بنوں کینٹ پر اس سے پہلے بھی حملہ ہو چکا تھا اور کیونکر اتنا بڑا دوسرا حملہ ہوا۔حملہ آور دہشت گرد بارود سے بھری دو گاڑیاں لے کر خاصا فاصلہ طے کر کے بنوں کینٹ تک پہنچے۔راستے میں کئی چیک پوسٹیں تھیں لیکن نہ اس حملے کی بروقت اطلاع ملی، نہ ہی ان کو راستے میں کہیں پر روکا گیا۔کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی جب اسی گاڑی کو پہلے نشانہ بنایا جا چکا تھا،پھر جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملہ کیسے ہو گیا۔کیوں نہ اس کا تدارک کیا گیا۔نوشکی میں حملہ بھی بالکل ایسا ہی ایک جانکاہ اور انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔اس قافلے کو بھی سیکیورٹی مہیا نہیں کی گئی۔

شرپسندوں،دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو ظالمانہ،مجرمانہ لیکن کامیاب کارروائیاں کرنے کے لیے ریکروٹمنٹ،فنڈنگ اورموثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے۔حالیہ حملوں کے بارے میں ملنے والی تفصیلات سے عیاں ہوتا ہے کہ ان عناصر کو اب خاصی تعداد میں ریکروٹ منٹ کے لیے نفری دستیاب ہے۔اس کی وجہ ان کا موثر پروپیگنڈہ ہے جس سے لوگوں کے ریاست مخالف جذبات بھڑکتے ہیں۔خیبر پختون خواہ میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اب دہشت گرد قبائلی اضلاع سے آگے بڑھ کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔رات ہوتے ہی حکومت کی عملداری ختم ہو جاتی ہے۔حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ٹی ٹی پی نے کئی اضلاع کے لیے اپنے نام نہاد نمائندے اور گورنرز مقرر کر رکھے ہیں۔

پچھلے پچیس ،تیس سال سے دہشت گردی و علیحدگی پسندی پنپ رہی ہے اور ریاست الجھن کا شکار ہے کہ اس کی جڑ کاٹنے کے لیے آپریشن کیا جائے کہ نہیں۔ ریاست کے پاس واضح ٹارگٹ اور لائحہ عمل ہونا چاہیے کہ کیا کرنا ہے اور کتنے عرصے میں مکمل کرنا ہے۔صاف نظر آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف بیانات جاری ہو جاتے ہیں اور اگلے ہی دن شرپسند ایک اور مہلک کارروائی کر دیتے ہیں۔

شرپسندوں کو پتہ ہے کہ ان کارروائیوں سے ان کا کام نہیں ہوگا۔ان حملوں سے آزادی نہیں ملنے والی لیکن وہ بیان دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔وہ اپنے چند بندے مرواکر،پروپیگنڈے کے زور پر ایک بڑا Impact پیدا کر لیتے ہیں۔ریاست کی استطاعت بے حد و حساب ہے۔اگر ریاست کچلنے کا تہیہ کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی سر اٹھا سکے،لیکن اس کے لیے اٹل عزم کی ضرورت ہے۔حکومت کی رٹ قوت،طاقت اور violenceسے قائم ہوتی ہے۔خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے دیا جا رہا ہے،وہ غماز ہے کہ ریاست کا عزم نہیں ہے۔گو مگو کی حالت میں رٹ قائم نہیں ہوتی۔

لگتا ہے کہ ہمارے ڈی این اے میں کوئی خرابی ہے۔جب کوئی برائی جنم لے رہی ہوتی ہے تو ہم آنکھیں موندے بے فکر لیٹے رہتے ہیں لیکن جب وہی برائی عفریت بن کر ہم پر حملہ آور ہونے لگتی ہے تو تب ہم اس سے نبٹنے کا سوچتے ہیں۔ہم پرو ایکٹو ہونے کے بجائے صرف ری ایکٹ کرنے والے ہیں۔شرپسندوں کے ساتھ مذاکرات Position of strengthسے کرنے چاہیئیں۔شرپسندوں کی کمر توڑنی ہوگی تاکہ سول انتظامیہ پوزیشن آف سٹرنتھ سے بات کر سکے۔بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ بھی فی الفور کرنا چاہیے۔

بلوچستان میں opinion makersجن کی تعداد کسی صورت ایک سو سے زیادہ نہیں ان پر کام کر کے انھیں پاکستان دوست بنانا ہو گا۔انٹیلی جنس کو جن مقاصد کے لیے کام میں لایا جائے وہی حاصل ہوتے ہیں۔

اگر counter intelligence,counter terrorism ,counter insurgency کے لیے استعمال میں لایا جائے تو اس فیلڈ میں کامیابی ملے گی اور اگر پولیٹیکل معاملات میں لگایا جائے گا تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ہم نے فی الحال پولیٹیکل شعبے کو ترجیح دی ہوئی ہے،اس لیے دوسرے انتہائی اہم شعبے توجہ نہیں پا رہے۔ ہمارے ملک کی ناؤ پیچیدہ بھنور میں پھنس چکی ہے۔خدا کے واسطے صرف اورصرف پاکستانی بن کر اور سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسے بھنور سے نکالیں ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست اپنی رٹ کیسے قائم کرے
  • حافظ حسین احمد کی وفات سے حسین یادوں کا ایک باب ختم ہوگیا، مولانا فضل الرحمان
  • حافظ حسین احمد کی وفات سے حسین یادوں  کا ایک باب ختم ہوگیا ؛مولانا فضل الرحمان 
  • کسٹرڈ یا بم، کیا یہ پھٹ کر زخمی بھی کرسکتا ہے؟
  • بھکاریوں کی یلغار
  • استاد کو شہید کہوں گا لیکن مارنے والے کو مجاہد نہیں کہہ سکتا، مولانا فضل الرحمان
  • قانون و انصاف کا اتنا تماشا نہیں بننا چاہیے، مجبوری میں جج صاحب بھی انصاف نہیں دے سکتے،علیمہ خان
  • قانون و انصاف کا اتنا تماشا نہیں بننا چاہیے، مجبوری میں جج صاحب بھی انصاف نہیں دے سکتے،علیمہ خان
  • جج صاحب انصاف دیں، قانون کا تماشہ نہیں بننا چاہیے: علیمہ خان