رمضان اصلاح و تربیت سے زیادہ کمائی کا مہینہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
علمائے کرام ماہ صیام یعنی رمضان المبارک کو اصلاح اور تربیت کا مہینہ قرار دیتے ہیں جب کہ حکومت اور ناجائز منافع خوروں نے رمضان کو زیادہ سے زیادہ کمائی کا مہینہ بنا رکھا ہے اور چاروں صوبائی حکومتیں ماضی کی طرح اس بار بھی رمضان میں قیمتوں پر کنٹرول رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور رمضان میں قیمتیں بڑھانے کا آغاز وفاقی حکومت نے خود کیا تھا جس نے رمضان المبارک میں چینی کی کھپت زیادہ ہونے کے اندازے کے باوجود بیرون ملک چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔
رمضان المبارک سے کئی ماہ قبل تک ایک سو 35 روپے سے ایک سو چالیس روپے کلو چینی عام مل رہی تھی مگر حکومت نے جان بوجھ کر زرمبادلہ کے چکر میں بڑے منافع خوروں کو چینی ملک سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دی تھی جس پر عوامی حلقوں نے اعتراض بھی کیا تھا مگر مہنگائی بڑھانے کی اصل ذمے دار وفاقی حکومت نے بڑے منافع خوروں کو نوازنے کے لیے عوام کے مفاد کے خلاف فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں چینی کی قلت تو نہیں ہوئی مگر رمضان میں چینی ملک بھر میں ایک سو نوے سے دو سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔
ملک بھر میں سرکاری افسروں نے ناجائز منافع خوروں کے خلاف چھاپے مارنے بھی شروع کر رکھے ہیں اور ملک بھر میں ناجائز منافع خوروں سے لا کھوں روپے جرمانے کی مد میں وصول کر کے حکومت کو مالی فائدہ ضرور پہنچا دیا ہے جب کہ جرمانوں کے علاوہ سیکڑوں ناجائز منافع خورگرفتار بھی ہوئے اور ان کی دکانیں بھی سیل کی گئیں مگر عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جو ماضی سے رمضان المبارک میں لٹتے آئے ہیں اور اس سال بھی موجودہ حکومتوں میں بھی لٹے ہیں۔
جن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ ایک سالہ اقتدار مکمل کرنے والی حکومتیں رمضان المبارک میں قیمتوں پرکنٹرول کریں گی مگر حکومتی دعوے ماضی کی طرح غلط ہی ثابت ہوئے اور ناجائز منافع خوروں نے رمضان المبارک میں اپنی اصلاح اور مذہبی تربیت حاصل کرنے کے بجائے رمضان کو سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ ہی بنائے رکھا اور رمضان میں سب سے زیادہ کمائی کا اصول برقرار رکھا اور حکومت پھلوں اور سبزیوں کو مقررہ سرکاری نرخوں پر فروخت نہیں کرا سکی۔ سرکاری نرخوں پر اشیا صرف اس وقت فروخت ہوئیں جب وہاں سرکاری چھاپے لگے یا میڈیا ٹیموں نے بازاروں، مارکیٹوں کا سروے کیا تو ہر جگہ ہی عوام نے گراں فروشی کی شکایات کے انبار لگا دیے اور جب گراں فروشوں سے ان کی گراں فروشی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے اس کا ذمے دار پیچھے والوں کو قرار دیا، پیچھے والوں سے ان کی مراد ہول سیلرز تھے جنھیں کوئی نہیں پوچھتا۔
ریٹیلرز کے پاس اشیا خوردنی مہنگی کرنے کا صرف ایک ہی جواز ہوتا ہے کہ انھیں ہول سیل مارکیٹوں سے مال مہنگا ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی مال مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہول سیل میں انھیں اتنا مہنگا نہیں ملتا جتنا وہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہول سیل سے خرید کر مال لینے پر ٹرانسپورٹیشن کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اندرون شہر جو چھوٹی مارکیٹیں یا وہاں لگے پتھارے اور ریڑھیاں لگتی ہیں یا جو ریڑھیاں سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔
ان سے بلدیاتی اداروں والے اور پولیس اہلکار بھتہ لیتے ہیں اور نہ دینے پر انھیں سڑکوں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ پھل فروش رمضان میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے افطاری کے نام پر مفت پھل لینے کا بھی الزام لگاتے ہیں جو درست بھی ہے کیونکہ رمضان المبارک میں ناجائز منافع خور اگر عوام کو لوٹتے ہیں تو قبضہ مافیا، پولیس، بلدیاتی اہلکار اور علاقائی بدمعاش بھی ان سے بھتہ اور عیدی وصول کرتے ہیں کیونکہ رمضان المبارک ان کے لیے بھی کمائی کا مہینہ ہے۔
رمضان اور عید کے موقع پر فٹ پاتھوں پر بھی پیسے لے کر پتھارے اور ریڑھیاں لگوائی جاتی ہیں اور کوئی بھی کمائی کے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ہر کوئی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔پنجاب میں تو چار ماہ پہلے ہی رمضان المبارک میں مہنگائی کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بنا لی گئی تھی اور پہلی بار اشیا کی ڈیمانڈ پر توجہ دی گئی جو پہلے صرف سپلائی پر ہوتی تھی۔ پنجاب میں تو لگتا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے اور وہاں پہلی بار پرائس کنٹرول کا الگ محکمہ بنایا گیا ہے اور قیمتوں کی مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے اور ڈھائی سو فیئر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں مگر سندھ و دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہاں کی حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور وہاں حکمت عملی کا فقدان دیکھا گیا ہے۔
حکومتوں کو پتا ہے کہ رمضان میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے جو پہلے عید کے بعد ختم ہو جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے ۔ رمضان میں علمائے کرام پر بیانات دے کر ناجائز منافع خوروں کی شرعی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی اثر نہیں لیتا‘ چھاپوں کا خوف تو وہ کیوں اپنی اصلاح کریں گے۔
حکومتی سخت پالیسی اور ان پر حقیقت میں عمل ہی اس کا علاج ہے۔ وقتی جرمانوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ناجائز منافع خوروں کو رمضان میں جیلوں میں رکھا جائے اور انھیں کام ہی نہ کرنے دیا جائے تو ممکن ہے ایک بار سرکاری گرفت میں آ کر وہ توبہ کر لیں تو ہی ان کی اصلاح ہو سکتی ہے، ورنہ حکومتی جرمانے اور علمائے دین کے بیانات مہنگائی روکنے میں کبھی معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ناجائز منافع خوروں رمضان المبارک میں سے زیادہ کمائی کا کا مہینہ کرنے کی ہیں اور ہول سیل ہے اور
پڑھیں:
وفاقی سرکاری اداروں کے طویل مدتی منافع کا انحصار انتظامی اصلاحات پر ہے .ویلتھ پاک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 مارچ ۔2025 )ماہرین نے پاکستان کے وفاقی سرکاری اداروں کی بہتر مالی کارکردگی پر امید کا اظہار کیا ہے جیسا کہ تازہ ترین اعداد و شمار سال بہ سال آمدنی میں 5.2 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وفاقی سرکاری اداروں کی مجموعی آمدنی جون 2024 کو ختم ہونے والے 12 ماہ کے لیے 13,524 بلین روپے تک پہنچ گئی جو مجموعی آپریشنل کارکردگی اور معاشی لچک میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے تجزیہ کار اس نمو کو بحالی کی ایک مثبت علامت کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن طویل مدتی منافع کو برقرار رکھنے کے لیے گہری ساختی اصلاحات کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتے ہیں .(جاری ہے)
ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق وفاقی سرکاری اداروںکا کل مجموعی منافع بڑھ کر 820 بلین روپے ہو گیاجو پچھلے سال کے مقابلے میں 14.61 فیصد زیادہ ہے دریں اثنا، خسارے میں چلنے والے اداروں نے مجموعی نقصانات میں کمی کی اطلاع دی جو سال بہ سال 14.03 فیصد کم ہو کر 851 ارب روپے رہ گئی ان اعداد و شمار میں 782 ارب روپے کی سبسڈیز اور 367 ارب روپے کی گرانٹس شامل ہیں جس نے محصولات کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا پبلک سیکٹر ویلفیئر فنڈز اداروں کی فیکٹرنگ کرتے وقت منافع کمانے والے اداروں کے ساتھ آفسیٹ کرنے کے بعد خالص مجموعی نقصان 521.5 بلین روپے رہا. مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ جہاں آمدنی میں اضافہ اور نقصانات میں کمی حوصلہ افزا ہے، وہیں پائیدار بہتری کے لیے جامع گورننس اصلاحات کی ضرورت ہوگی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ماہر معاشیات اور پالیسی تجزیہ کار ڈاکٹر عرفان قریشی کا کہنا ہے کہ حالیہ آمدنی میں اضافہ بہتر مالیاتی نظم و ضبط اور توانائی، بینکنگ اور انفراسٹرکچر سمیت اہم شعبوں میں بہتر آپریشنل استعداد کی عکاسی کرتا ہے انہوں نے خبردار کیا کہ سبسڈیز اور گرانٹس کے ذریعے حکومتی مداخلت خسارے میں جانے والے وفاقی سرکاری اداروںکو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے انہوں نے کہا جبکہ اعداد و شمار پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں ان اداروں کی طویل مدتی پائیداری کا انحصار حکومتی بیل آﺅٹ پر انحصار کو کم کرنے اور ساختی اصلاحات کے نفاذ پر ہے ماہرین وفاقی سرکاری اداروںمیں بہتر احتساب اور ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس نے بہتر مالیاتی رپورٹنگ اور ریونیو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے. اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹرجمیل نے آپریشنز کو ہموار کرنے اور ناکارہیوں کو روکنے میں ٹیکنالوجی کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی سرکاری اداروںمیں ڈیجیٹل تبدیلی نے وسائل کی بہتر تقسیم، رساﺅ میں کمی اور مالی شفافیت کو بہتر بنایا ہے اگر یہ رفتار جاری رہی تو ہم آنے والے سالوں میں مضبوط مالی کارکردگی کی توقع کر سکتے ہیں مثبت اشاریوں کے باوجودبعض وفاقی سرکاری اداروںنااہلیوں، مالی بدانتظامی، اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کے ساتھ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں . ڈاکٹرجمیل نے زور دیا کہ سلیکٹیو پرائیویٹائزیشن اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ انتہائی ضروری کارکردگی اور مسابقت لا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایس او ای جو کہ عوامی وسائل کو ضائع کر رہے ہیں یا تو ان کی تنظیم نو کی جانی چاہیے یا نجی شعبے کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری سے سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے. ماہرین کا خیال ہے کہ پالیسی میں تسلسل، مضبوط کارپوریٹ گورننس، اور مالیاتی شفافیت وفاقی سرکاری اداروںکی مثبت رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے تزویراتی اصلاحات کے ذریعے، حکومت کارکردگی کو مزید بڑھا سکتی ہے، مالیاتی بوجھ کو کم کر سکتی ہے اور قومی اقتصادی ترقی میں ریاستی اداروں کے تعاون کو مضبوط بنا سکتی ہے.