Express News:
2025-03-20@04:12:45 GMT

غربت کی بڑھتی ہوئی شرح بحوالہ عالمی معاشی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

امریکا نے چین اور اپنے پڑوسی ممالک کے لیے بھی سخت تجارتی فیصلے کر کے ایک بھونچال برپا کردیا ہے۔ ایسے میں چین نے بڑے ہی تحمل اور اچھی خاصی خوش گواری کی فضا پیدا کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی پیشن گوئی کردی ہے کہ اسے رواں برس اقتصادی ترقی کی شرح 5 فی صد رہنے کی توقع ہے۔

چین نے گھبراہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس اطمینان کا اظہارکر دیا ہے کہ اس کی شرح نمو حسب سابق 2024 کی طرح رہے گی۔ حالانکہ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ چین کی شرح ترقی 4.

6 فی صد رہنے کی توقع ہے لیکن چین شرح ترقی میں کمی نہیں بلکہ اس میں اضافے کا ہنر خوب جانتا ہے۔ البتہ ہندوستان کے لیے امریکا کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات وہاں کی غربت کی شرح میں کمی کے سفر کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے؟ یہ دیکھنا ہوگا،کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کے بارے میں رپورٹوں سے اشارہ مل رہا ہے کہ وہاں خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

میرا خیال ہے کہ وہاں کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب رقم مل رہی ہے اور پاکستانی کسان نقصان میں جا رہے ہیں لہٰذا پاکستان میں غربت کی شرح میں کئی سالوں سے اضافہ ہوا ہے۔  ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2023 کے مقابلے میں ایک سال میں مزید ایک کروڑ30 لاکھ افراد غربت کا شکار ہو گئے ہیں، لہٰذا حکومت ان تمام عوامل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ معیشت کی بہتری کی جانب سفرکو کس حد تک درست کرنے کی ضرورت ہوگی۔ رپورٹ ظاہر کررہی ہے کہ 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فی صد تک پہنچ گئی ہے جوکہ 2023 کے مقابلے میں 7 فی صد زیادہ ہے۔

غربت میں اضافے کی ایک اہم وجہ میرے خیال میں گزشتہ 2 سال میں بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں 25 روپے 76 پیسے کا اضافہ بن رہا ہے اور ان 2 سالوں میں بجلی صارفین پر 2 ہزار ارب روپے سے بھی زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا اور اس سے سب سے زیادہ متاثر اب درمیانی طبقہ ہو رہا ہے اور ان کی بڑی تعداد اب بجلی نرخوں میں اضافے سے غربت کی جانب عازم سفر ہو چکی ہے۔ اب آپ دیکھیں 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی 34 روپے اور 400 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے 39 روپے اس کے علاوہ اور کئی اقسام کے چارجز وغیرہ ملا کر اب وہ صارفین جوکہ پہلے 3 یا 4 ہزار بجلی کی مد میں ادا کرتے تھے اب وہ کہیں 20 ہزار،کہیں 25 یا 26 ہزار یا اس سے بھی زائد بلوں کے باعث مالی بوجھ تلے دب رہے ہیں۔

اس کے ساتھ مکان کرایوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو وہ لوگ جن کے ذرایع آمدن میں مکانوں کے کرایوں کی وصولی شامل ہے لہٰذا کرائے بڑھانے کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کس طرح سے گزشتہ کئی سالوں سے ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ابھی عید الفطر کا موقع آنے والا ہے اب آپ دیکھیے گا کہ کس طرح سے کراچی سے بیرون کراچی جانے والی بسوں کے کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح لاہور سے بیرون لاہور اور راولپنڈی کی بسوں کے اڈوں اور اسی طرح دیگر شہروں میں بسوں کے کرایوں میں کس طرح سے بھاری اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں کو اس طرح کی حکمت عملی عوام کے مفاد میں اور ٹرانسپورٹرز کی تنبیہ کے لیے بطور آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک روپیہ بھی نہ کوئی زائد کرایہ دے اور نہ ہی زائد کرایہ لینے کی کوئی ہمت کرے۔ بس حکومتی رٹ مضبوط ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ شہروں میں چلنے والے ٹرانسپورٹرز جس طرح سے اچانک کرایوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور رکشہ مالکان، ٹیکسی مالکان، ٹرک ڈرائیورز، ڈمپر والے، ٹرالر والے کرایہ بڑھا دیتے ہیں پاکستان میں پوچھ گچھ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ حکومت غربت کی شرح میں جب کمی لا سکتی ہے جب ان مافیاز کو کنٹرول کرلے جوکہ عوام کی جیب خالی کر کے ان کو غربت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس کے باعث اب عوام کی وہ اکثریت جو نہ کبھی کسی سے راشن لینے کا سوچ سکتی تھی اب دھوپ میں روزے سے کھڑے رہ کر دھکم دھکا کے ماحول میں آٹا، چاول، چینی لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔

ابھی چند روز قبل کا واقعہ ہے جب اتحاد ٹاؤن کراچی میں روزے کی حالت میں راشن لینے آئی ہوئی خواتین کی بڑی تعداد جمع تھی کہ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں مخیر حضرات کے بنگلوں، کوٹھیوں، حویلیوں کے باہر خصوصاً ماہ رمضان میں ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں کہ کہیں بیسیوں،کہیں سیکڑوں افراد راشن لینے کے لیے طویل دورانیے تک کھڑے رہتے ہیں اورکہیں پر تو چند ایک کو راشن دے کر باقی کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

مخیر حضرات کو اپنے طور پر یہ اقدام اٹھانا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں کا خیال کریں اور دن میں دھوپ سے بچنے کے لیے یا تو سایہ دار جگہ کا انتظام کریں یا پھر بعد از افطار یہ سلسلہ شروع کیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے سے افراد کے نام لکھ لیے جائیں اور ان کو خاموشی سے ان کے گھروں میں راشن پہنچا دیا جائے یا پھر ان کو بلا کر راشن دے دیں تاکہ قطار میں کھڑے ہوئے کسی بھی شخص کو خالی ہاتھ واپس نہ جانا پڑے۔ اس سلسلے میں حقیقی ضرورت مند اور شوقیہ یا پھر مفت کا مال جمع کرنے والوں کی بھی تخصیص کرنا ضروری ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غربت کی شرح کرایوں میں ہے اور

پڑھیں:

شادی کا معاشی خودمختاری سے تعلق نہیں، بیٹا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں ہو سکتی، جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں،شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دے دیا، عدالت نے درخواست گزار خاتون زاہدہ پروین کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں،شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازم کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جاسکتیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے جب کہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا، خاتون کو نوکری دے کر آپ نے فارغ کیسے کر دیا؟.

ایڈووکیٹ جنرل پختونخوا نے کہا خاتون کی شادی ہو چکی ہے لہذا والد کی جگہ نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ بیٹی کی شادی ہو جائے تو وہ والد کے انتقال کے بعد نوکری کی اہلیت نہیں رکھتیں، خواتین کی معاشی خودمختاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تفصیلی فیصلہ دیں گے.

متعلقہ مضامین

  • یہ حقائق تلخ ہیں مگر حقائق ہیں
  • موسمیاتی بحران: پیرس معاہدے کے اہداف اب بھی قابل حصول، گوتیرش
  • کفن کے بدلے کافی”: ٹرمپ کی “مساوی ٹیرف” کی مضحکہ خیز منطق
  • مودی کے بھارت میں مسلمانوں کا معاشی قتل
  • مودی کے بھارت میں مسلمانوں کا معاشی قتل، کاروبار تباہ ہونے لگے
  • سندھ کی ترقی اور غربت
  • کراچی: معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر نوجوان کی خودکشی
  • پاکستان: سیلاب سے متاثرہ لاڑکانہ کی اساتا بی بی کی معاشی جدوجہد کی کہانی
  • شادی کا معاشی خودمختاری سے تعلق نہیں، بیٹا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں ہو سکتی، جسٹس منصور