بشریٰ انصاری نے پُرسکون اور خوش باش زندگی کا نسخہ بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
معروف اداکارہ بشریٰ انصاری ایک منجھی ہوئی فنکارہ ہیں جنھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کے کئی موڑ دیکھے اور سر خرو ہوکر نکلی ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں اداکارہ بشریٰ انصاری نے ایسے ہی مشکل اور ناپسندیدہ حالات سے نمٹنے کے لیے اپنے مداحوں کو چند ٹپس دیں۔
بشریٰ انصاری جو اداکاری کے ساتھ ساتھ لکھنے اور پڑھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں، نے بتایا کہ اگر زندگی کو پُرسکون اور خوش باش بنانا چاہتے ہیں تو چند باتیں ذہن میں بٹھالیں۔
اداکارہ بشریٰ انصاری نے کہا کہ جو چیزیں آپ کے پاس ہیں ان پر خوش ہوں اور جو دسترس میں نہیں اُن پر افسوس اور رنجیدہ نہ ہوں۔
بشریٰ انصاری نے مزید کہا کہ کوئی بدتمیزی کرے تو جواب دینے کے بجائے صبر سے کام لیں اور وقت کا انتظار کریں۔ آپ سے بدتمیزی کرنے والے خود نادم ہوں گے۔
اداکارہ نے صلہ رحمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ناراض ہو جائے تو خود جا کر معافی مانگیں اور رشتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
بشریٰ انصاری نے دوسروں کے جذبات اور احساسات کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ میں اس وقت تک سکون سے نہیں سوتی جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ کسی دوست یا قریبی شخص کو میری کسی بات یا عمل سے تکلیف نہیں پہنچی۔
اداکارہ بشریٰ انصاری نے کہا کہ اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرلیا جائے تو آپ کی زندگی سکون میں آجائے گی اور کبھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوں گے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
یمن، امریکا اور اسرائیل کا قبرستان
اسلام ٹائمز: یمنی انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا، وہ حد درجہ قناعت پسند ہے۔ یمنی صبر کا پیکر، ایسا صبر جو انسانی طاقت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یمنی انتہائی ضدی، روزانہ فطرت کی سختیوں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ یمنی جنگجو مزاج، اس کے نزدیک زندگی ایک معرکہ ہے، ایک جنگ کا میدان، اسی لیے وہ اپنی روایتی جنبّیہ (خنجر) ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اسے آخری سانس تک نہیں چھوڑتا۔ وہ ہتھیار کو مردانگی کی علامت سمجھتا ہے اور زندگی کو ایک جنگل، جہاں زندہ رہنے کے لیے خود کا دفاع ضروری ہے۔ ترجمہ و ترتیب: سیدہ نقوی
اگر اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا، حزب اللہ کو کمزور کردیا اور شام میں مغربی و ترک حمایت سے حکومت کی تبدیلی کو ممکن بنایا تو یہ تمام کامیابیاں یمن کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی۔ جو بھی یمن میں رہا ہو اور اس کے عوام کے ساتھ گھلا ملا ہو، وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ یمنی انسان تمام عربوں سے مختلف صفات کا حامل ہے۔
یمنی انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا، وہ حد درجہ قناعت پسند ہے۔ یمنی صبر کا پیکر، ایسا صبر جو انسانی طاقت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یمنی انتہائی ضدی، روزانہ فطرت کی سختیوں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ یمنی جنگجو مزاج، اس کے نزدیک زندگی ایک معرکہ ہے، ایک جنگ کا میدان، اسی لیے وہ اپنی روایتی جنبّیہ (خنجر) ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اسے آخری سانس تک نہیں چھوڑتا۔ وہ ہتھیار کو مردانگی کی علامت سمجھتا ہے اور زندگی کو ایک جنگل، جہاں زندہ رہنے کے لیے خود کا دفاع ضروری ہے۔
یمنی زندگی کی آسائشوں سے بے نیاز، یہاں تک کہ بجلی کی عدم دستیابی بھی اس کے لیے مسئلہ نہیں۔ ہم جب یمن کے دیہات میں بجلی کے بغیر رہتے تھے تو طلبہ تیل کے چراغوں کے ساتھ خوشی خوشی ہمارے پاس آتے اور کہتے، "یہ ہماری ثقافت ہے، ہمیں اندھیرے اور فانوس سے محبت ہے، ہمیں کوئی شکایت نہیں" جبکہ ہم خود بجلی کی عدم دستیابی پر پریشان ہوتے۔
یمنیوں کی محفلیں، قہوہ اور "قات" (روایتی پودا) ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے، جس سے وہ ایسی مسرت محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی مغربی شخص لاس ویگاس یا مالدیپ میں لطف اندوز ہوتا ہو، ان کی سادہ محفلوں کا مقابلہ مغرب یا خلیجی طرزِ زندگی سے کیا جائے تو وہ صرف مسکرا کر کہتے ہیں: "عادی يا أستاذ، لهم الدنيا، و لنا الآخرة" (استاد جی! دنیا ان کے لیے ہے، اور آخرت ہمارے لیے)۔
یمنی عوام کا اعتقاد، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سادہ اور مشکل زندگی خدا کی طرف سے مقدر ہے۔ ان کے مطابق دنیاوی آسائشیں مغرب اور خلیجی ممالک کے لیے ہیں جبکہ یمن، فلسطین، نیجر اور دیگر محروم اقوام کو آخرت نصیب ہوگی اور آخرت ہی اصل کامیابی ہے۔ ہم اکثر اس سوچ پر حیران ہوتے اور اسے قدامت پسندی سمجھتے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہی نظریہ انہیں بے مثال صبر اور ہمت عطا کرتا ہے، جو جنگجو اور بہادر افراد تیار کرتا ہے۔ یمنی خودکفیل ہے، اسے بیرونی دنیا سے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی زمین میں کاشت کرتا ہے اور اسی پر قانع رہتا ہے۔ یمن کے پاس وسیع و عریض سمندری حدود ہیں، جہاں مچھلی کی دولت بے پناہ ہے۔
صعدہ، حجہ، عمران، اور المحویت کی پہاڑیاں اتنی مضبوط اور پیچیدہ ہیں کہ ایٹمی حملے بھی ان پر اثر نہیں ڈال سکتے۔ ایک چینی کمپنی نے صعدہ میں سڑکیں تعمیر کیں، اور اس کے سربراہ نے یمنی صدر کو مشورہ دیا کہ ان پہاڑوں کے اندر سرنگیں اور خفیہ راستے بنائے جائیں کیونکہ یہ علاقے کسی بھی قسم کے حملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یمنی عوام چٹانوں کی طرح سخت، پرندوں کی مانند نرم دل، اور غیرت و عزت کے معاملے میں ناقابل شکست ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو میدانِ جنگ سمجھتے ہیں اور ہار تسلیم نہیں کرتے۔ سلام ہو یمن پر، یمن کے پہاڑوں پر، اور یمن کے بہادر مردوں پر۔