اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی شرعی عدالت نے خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کے خلاف بڑا فیصلہ کرتے ہوئے روایات اور رسم و رواج کی بنیاد پر خواتین کو وراثت سے محروم کرنا غیراسلامی قرار دے دیا۔
نجی ٹی وی آج نیوز نے رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ شریعت کورٹ نے خواتین کو وراثت سے محروم کرنے والوں کے خلاف فوجداری کارروائی کی ہدایت کردی۔چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ اقبال حمید الرحمان کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کیا، وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ فوزیہ جلال شاہ کی درخواست پر سنایا۔فیصلے میں کہا کہ چادر و پرچی کی رسم کے تحت خواتین کو وراثتی حق سے محروم کیا جاتا تھا، ایسی روایات اسلامی احکامات کے خلاف ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چادر اور پرچی جیسی روایات قران و سنت میں خواتین کو دیے حقوق کے خلاف ہیں، خواتین کو سماجی دباو¿ کے تحت وراثتی جائیداد سے محروم کرنا اسلامی احکامات اور قوانین کے خلاف ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سیکشن 498 کے تحت کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کی فراہمی سے متعلق قوانین کے بارے میں آگاہی اور مو¿ثر نفاذ پر زور دیا گیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ بنوں میں چادر اور پرچی نامی روایات پر عمل ہوتا ہے، خیبرپختونخوا حکومت کے مطابق ایسے رسم و رواج نہ رائج ہیں نہ ان کی کوئی اہمیت ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ چادر اور پرچی کے نام پر خواتین وراثت سے محروم کیا جاتا ہے، اسلام سے قبل زمانہ جہالت میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا

لندن سے بیٹی کی سالگرہ منانے آئے  شخص کو  بیوی اور اس کے آشنا نے 15 ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: خواتین کو وراثت سے محروم وفاقی شرعی عدالت کے خلاف

پڑھیں:

سعودی عرب میں غیراخلاقی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، 50 سے زائد افراد گرفتار

سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں جاری سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے دوران حکومت نے "غیراخلاقی سرگرمیوں" کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔

رپورٹس کے مطابق، سعودی وزارت داخلہ کے نئے یونٹ نے 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے، جن میں 11 خواتین شامل ہیں، جن پر جسم فروشی کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ، درجنوں غیرملکیوں کو مساج پارلرز میں غیر قانونی سرگرمیوں اور خواتین و بچوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی حکام نے ایک دہائی بعد ملک میں جسم فروشی کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ گزشتہ ماہ ریاض میں چار غیرملکیوں کو مساج سینٹر میں "غیراخلاقی سرگرمیوں" میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ تین غیرملکی خواتین کو ایک ہوٹل پر چھاپے کے دوران جسم فروشی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

یہ کارروائی سعودی عرب کے ماضی کے مذہبی پولیس فورس "متوا" (کمیٹی برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی یاد دلاتی ہے، جسے 2016 میں ولی عہد کی اصلاحات کے تحت غیر مؤثر بنا دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، اس اچانک کریک ڈاؤن کی ممکنہ وجوہات میں سوشل میڈیا پر جسم فروشی کی تشہیر اور عوامی مقامات پر اخلاقی خلاف ورزیوں میں اضافہ شامل ہے۔ 

مقامی اخبار اوکاز کے کالم نگار خالد السلیمان کا کہنا ہے کہ، "سعودی عرب اسلام کا مرکز ہے، یہاں کسی کو کھلے عام غیراخلاقی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"

سعودی عرب 2034 کے ورلڈ کپ کی میزبانی اور بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس کے دوران حکام کو سماجی اعتدال اور روایتی اقدار میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔

 

متعلقہ مضامین

  • روایات اور رسم و رواج کی بنیاد پر خواتین کو وراثت سے محروم کرنا غیر اسلامی قرار
  • وفاقی شرعی عدالت نے چادر اور پرچی کی رسم کو غیر اسلامی، غیر قانونی قرار دیدیا
  • وفاقی شرعی عدالت نے چادر اور پرچی کی رسم کو غیر اسلامی، غیر قانونی قرار دے دیا 
  • خواتین کو وراثتی حق سے محروم کرنے والی رسم غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار
  • ڈی سی صوابی کو بغیر اجازت خواتین کی ٹک ٹاک ویڈیوز شیئر کرنا مہنگا پڑگیا
  • وفاقی شرعی عدالت نے خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کیخلاف فیصلہ جاری کردیا
  • آغا سلمان، بابراعظم کا کون سا ریکارڈ توڑنے سے محروم رہے؟
  • سعودی عرب میں غیراخلاقی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، 50 سے زائد افراد گرفتار