Daily Pakistan:
2025-03-19@21:29:02 GMT

عثمان خواجہ نے ایک بار پھر فلسطین کے لئے آواز اٹھادی

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

عثمان خواجہ نے ایک بار پھر فلسطین کے لئے آواز اٹھادی

میلبرن (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ نے ایک بار پھر فلسطین کے لئے آواز اٹھادی۔
ڈان نیوز کے مطابق آسٹریلیا کے ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’تھریڈ‘ پر فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم سے متعلق ایک پوسٹ کی جسے انہوں نے اپنے ’ایکس‘ اکاو¿نٹ پر بھی شیئر کیا۔
پوسٹ میں آسٹریلیا کے اوپننگ بلے باز عثمان خواجہ نے لکھاکہ ’غزہ میں بغیر کسی وجہ کے جنگ بندی کو ختم کیا گیا اور صرف ایک دن میں 123 بچے مارے گئے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ تصور کریں اگر یہی معاملہ مخالف سمت میں ہوتا (یعنی اسرائیل میں اس طرح بچے مارے جاتے) تو دنیا کس طرح اس کا رد عمل دیتی اور غصے کا کیا عالم ہوتا۔
تاہم بدقسمتی سے تمام زندگیاں برابر نہیں ہیں، یہ بچے صرف تاریخ میں نمبرز کی حد تک رہ جائیں گے لیکن آپ لوگوں کی طرح ان بچوں کے بھی اپنے نام، بہن بھائی، والدین اور خاندان ہیں‘۔
عثمان خواجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم ان مظالم کو معمول پر نہیں لاسکتے حالانکہ مجھے ڈر ہے کہ ہم شاید پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں، مجھے یقین نہیں ہورہا ہے کہ یہ اب بھی ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ عثمان خواجہ ماضی میں بھی فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
اس سے قبل، انہوں نے سری لنکا ٹیسٹ سیریز کی کوریج کرنے والے آسٹریلوی صحافی پیٹر لالور کو اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر نوکری سے نکالے جانے کی سخت مذمت کی تھی۔

لندن سے بیٹی کی سالگرہ منانے آئے  شخص کو  بیوی اور اس کے آشنا نے 15 ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: عثمان خواجہ نے

پڑھیں:

فلسطین دور حاضر کی کربلا

اسلام ٹائمز: منظور شدہ جنگی قوانین میں ہسپتالوں اور طبی مراکز، تعلیمی مراکز، سکولوں اور یونیورسٹیوں پر حملہ کرنے اور طبی عملے اور صحافیوں کی جانوں کے تحفظ پر پابندی ہے۔ تحریر: مجید مشکی
ثقافتی قونصلر سفارت اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام آباد 

فلسطین کی سرزمین پر قبضے اور بیت المقدس پر غاصب حکومت کے قیام کو 75 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان تمام سالوں میں ایک ماہ یا ایک سال سے بھی کم ایسا نہیں گزرا ہوگا، جب دنیا نے اس سرزمین پر صیہونی حکومت کے جرائم کی خبر نہ سنی ہو۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ سال میں صیہونی حکومت کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور ہر روز بلکہ ہر گھنٹے میں اسرائیلی حکومت کے فوجیوں کے ہاتھوں خواتین اور بچوں سے لے کر بوڑھوں اور معذوروں تک سینکڑوں بے گناہوں کا خون زمین پر بہایا گیا ہے۔

شاید یہ محفوظ طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ تشدد اور جرائم کا یہ حجم بنی نوع انسان کی پوری تاریخ میں بے مثال رہا ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق اور قبول شدہ بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر جنگوں کے بھی اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور ان اصولوں کو یا تو جنگ کے منظر میں، جنگ کے پردے کے پیچھے، یا جنگ کے آس پاس کے واقعات میں قبول اور نافذ کیا جاتا ہے۔ ان منظور شدہ قوانین میں ہسپتالوں اور طبی مراکز، تعلیمی مراکز، سکولوں اور یونیورسٹیوں پر حملہ کرنے اور طبی عملے اور صحافیوں کی جانوں کے تحفظ پر پابندی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے گذشتہ 18 مہینوں کے دوران دنیا نے تاریخ انسانیت میں جرائم کے ایک ایسے سیاہ صفحے کا مشاہدہ کیا، جس کی حالیہ صدیوں میں مثال نہیں ملتی اور تاریخ انسانیت میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہسپتالوں اور طبی مراکز پر حملے، ڈاکٹروں کو مارنا، بیماروں، زخمیوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لینا اسرائیل کی حکومت کا معمول بن گیا ہے اور اس کے بعد طبی سہولیات پر اس حکومت کے حملے کی کہانی کیا ہے، جسے جائے وقوعہ پر موجود ڈاکٹروں اور طبی عملے نے بیان کیا۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین دور حاضر کی کربلا
  • ’تمام زندگیاں برابر نہیں ہیں‘، عثمان خواجہ فلسطین میں شہادتوں پر بول اٹھے
  • بھارت کشمیریوں کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی پالیسی پر مسلسل عمل پیرا ہے، حریت کانفرنس
  • عثمان خواجہ فلسطینیوں پر حملوں اور سیکڑوں شہادتوں پر پھر بول پڑے
  • آسٹریلوی کرکٹر بھی فلسطین میں شہادتوں پر بول اُٹھے
  • یمن کا فلسطین 2 سپرسونک بیلسٹک میزائل سے اسرائیل کے ناواتیم ایئر بیس پر کامیاب حملہ
  • ممانی کو بھگا کر لے جانے والا بھانجا ماموں کے ہاتھوں قتل
  • بانی پی ٹی آئی پاکستان کیساتھ نہیں کھڑے، خواجہ آصف کادو ٹوک بیان
  • کیا کرم ایجنسی ملک کا حصہ نہیں، پاراچنار کو فلسطین غزہ بنادیا گیا ہے، علامہ شبیر میثمی