WE News:
2025-03-19@21:38:32 GMT

افطاری میں چنے طاقت بحال رکھنے کا بہترین ذریعہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

افطاری میں چنے طاقت بحال رکھنے کا بہترین ذریعہ

رمضان المبارک میں طاقت اور انرجی بحال رکھنے کے لیےافطاری میں درست غذا شامل کرنا بیحد اہم ہوتا ہے۔

ایک چیز ایسی ہے جس کو اگر افطار میں شامل کرلیا جائے تو وہ صحت کے لیے بیحد مفید ثابت ہوتی ہے۔

اکثر گھروں میں افطار کے وقت دستر خوان پر چنا چاٹ ضرور موجود ہوتی ہے۔ چنے ذائقے دار تو ہوتے ہی ہیں لیکن یہ صحت کے لیے بھی بہت مفید ہوتے ہیں۔

چنے غذائیت سے بھرپور خوراک ہے جن میں وٹامن، فائبر اور پروٹین وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

امریکا کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک مضمون کے مطابق ایک کپ پکے ہوئے چنوں میں 14.

5 گرام پلانٹ بیسڈ پروٹین پایا جاتا ہے۔

پلانٹ بیسڈ پروٹین ایسا پروٹین ہوتا ہے جو دالوں، سبزیوں، بیج اور خشک میوے جات سے حاصل کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: گرم چنا چاٹ بنانے کا منفرد طریقہ

ایک کپ پکے ہوئے چنوں میں 12.5 گرام فائبر بھی پایا جاتا ہے جو نظامِ ہاضمہ کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

مضمون کے مطابق چنے آپ کا پیٹ دیر تک بھرا رکھتے ہیں جس سے آپ کو جلد بھوک محسوس نہیں ہوتی۔

پروٹین اور فائبر ک کے علاوہ چنوں میں بہت سے وٹامن اور منرلز بھی پائے جاتے ہیں۔

مینگنیز دماغ کے لیے فائدہ مند

چنوں میں وافر مقدار میں مینگنیز پایا جاتا ہے جو دماغ کے لیے فائدے مند ہوتا ہے۔

 

ان میں وٹامن بی، کاپر، آئرن، زنک اور فاسفورس بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چنوں میں وٹامن اے، ای اور سی بھی موجود ہوتا ہے۔

چنوں کو چاٹ، سلاد یا پھر ابال کر پیسنے کے بعد حمس بنا کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افطاری چنا چاٹ چنے چنے کے فوائد

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افطاری چنا چاٹ چنے کے فوائد ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

اپیکس کمیٹیوں کا اجلاس پہلے تواتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا

لاہور:

تجزیہ کار نوید حسین کا کہنا ہے کہ اگر طاقت کے استعمال سے دہشت گردی ختم ہو چکی ہوتی تو ہم پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں درجنوں آپریشن کر چکے ہوئے ہیں، وہاں آپریشن راہ نجات، راہ راست، ضرب عضب سمیت نہ جانے کتنے آپریشن ہو چکے ہیں۔

اور اسی طرح اگر صرف طاقت کے استعمال سے، کائنیٹک رسپانس سے اگرانسرجینسی کو ختم کیا جا سکتا بلو چستان میں تو وہ نواب اکبر بگٹی کی وفات کے بعد سے تقریباً بیس سال ہونے کو ہیں وہاں پرہمارا کائنیٹک رسپانس ہی چل رہا ہے، وہاں دہشتگردی میں بڑھوتی ہی ہوئی ہے کم نہیں ہوئی۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک بات تو یہ طے ہے کہ صرف طاقت کے استعمال سے کائنیٹک رسپانس سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔ 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کل باقاعدہ اعلامیہ بھی ایشو ہو گیا، ساری بات ہو گئی اب اس میں سب سے دلچسپ، سیریس اور مزے کی گفتگو حوالے سے جتنی بھی کی گئی وہ بلاول بھٹو زرداری کی تھی جنھوں نے کائنیٹک آپریشن یعنی فوجی آپریشن کو لے کر چلنے کے ساتھ ساتھ ایک سوفٹ پرانگ کو بھی لیکر چلنے کی بات کی کہ جو بلوچ یکجہتی کمیٹی یا انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں جو ریاست مخالف نہیں ہیں کہ ان کو انگیج کیا جائے اور پیپلزپارٹی کی انھوں نے خدمات پیش کیں کہ عالمی سطح پر بھی کام کرنے کو ہم تیار ہیں اور یہاں پر بھی۔ 

تجزیہ کار شکیل انجم نے کہا کہ ماضی میں بھی طاقت کا استعمال کیا گیا تھا جب اے پی ایس کا سانحہ ہوا ، 2014 میں آپریشن ضرب عضب لانچ کیا گیا تو اس وقت طاقت کا ہی استعمال تھا اور بلاتفریق آپریشن کیے گئے شمالی وزیرستان میں سوات میں کیونکہ اس وقت دہشتگرد سوات کے اندر آ چکے تھے اور وہاں پرانھوں نے سمجھیں اپنی حکومت ہی قائم کر لی تھی، سوات کے مختلف علاقوں میں تو طاقت کا استعمال بھی بڑا ضروری ہے لیکن وہ عناصر وہ ایلیمنٹ جو اینٹی اسٹیٹ نہیں ہیں جن کے اپنے کوئی ریزرویشن ہیں، احساس محرومی ہے ان سے بات چیت بھی ہونی چاہیے۔ 

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ کہ سسٹم پہلے بھی بنا تھا اپیکس کمیٹیاں بھی بنائی گئیں، جو پولیٹیکل گورنمنٹ ہیں اس میں ان کو اپنا کردار بالکل جاری رکھنا چاہیے تھا مگر پھر اس کو چھوڑ دیا گیا، اپیکس کمیٹیوں کا اجلاس پہلے تواتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا اور اس بارے میں لائحہ عمل طے کیا جاتا تھا، وقت کیساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے جو بھی اقدامات کیے جاتے تھے وہ کیے جاتے تھے لیکن بعد میں یہ چھوڑ دیے گئے۔ 

تجزیہ کار سلمان عابد نے کہا بنیادی طور پر آرمی چیف نے جو انڈیکیٹ کیا ہے کسی ایک صوبے کی گورننس کا ایشو ڈسکس نہیں کیا، انھوں نے مجموعی طور پر کہا ہے کہ پاکستان میں گورننس کے جو ایشوز ہیں اس کی وجہ سے بھی لوگوں کے اندر افراتفری اور انتشار پایا جاتا ہے، اب آپ دیکھیں کہ18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی بنیادی ذمے داری تھی کہ وہ گورننس کے نظام کو امپروو کریں، فیڈرل گورنمنٹ کا بھی اس میں رول تھا لیکن ہمارے چاروں صوبوں کی جو گورننس ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اس کے اندر جو مسائل ہیں وہ بھی ہم بھگت رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اپیکس کمیٹیوں کا اجلاس پہلے تواتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا
  • ورات کوہلی نے دنیا کا سب سے بہترین بؤلر کسے قرار دیا؟
  • ورات کوہلی نے دنیا کا سب سے بہترین باؤلر کسے قرار دیا؟
  • مکران ڈویژن میں تھیلیسیمیا کے مرض کا روایتی ’’علاج‘‘
  • ’رمضان میں شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے تاکہ وہ روزے داروں کو بہکانے سے باز رہیں ‘
  • چلاس میں زہریلی افطاری کھانے سے دو بچے جاں بحق
  • عصر حاضر کے گداگر اداکار کے ساتھ ماہر نفسیات بھی
  • روزانہ ہزاروں افراد کے لیے سحر و افطار تیار کرنے والے گرینڈ کچن
  • افطاری میں کتنی کھجوریں آپ کو بے پناہ انرجی دیتی ہیں؟