کفن کے بدلے کافی”: ٹرمپ کی “مساوی ٹیرف” کی مضحکہ خیز منطق
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
بیجنگ : “ایک چھوٹے قصبے میں کفن کی دکان کا مالک روزانہ کافی کی دکان سے ایک کاپی کافی خریدتا تھا۔ ایک دن کفن کی دکان کے مالک نے کافی کی دکان کے مالک سے غصے میں کہا “میں روزانہ تمہاری کافی خریدتا ہوں، تم میرے کفن کیوں نہیں خریدتے؟ تمہیں اس کی قیمت چکانا ہو گی! “یہ بظاہر مضحکہ خیز منظر ٹرمپ انتظامیہ کی تجارتی جنگ اور “مساوی ٹیرف” کی پالیسی کی مضحکہ خیز منطق کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہ منطق بین الاقوامی تجارت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، اور حقیقت میں یہ طریقہ کار تمام ممالک کو قدیم زمانے کے بارٹر سسٹم میں واپس لے جانے کے مترادف ہے، اور آج کے انتہائی مربوط عالمی معیشت میں اس سوچ کا خطرہ واضح ہے۔
مساوی ٹیرف پالیسی مکمل طور پر غلط مفروضوں پر قائم ہے: یہ مانتی ہے کہ بین الاقوامی تجارت مکمل طور پر متوازن ہونی چاہیے، اور ہر ملک کو ہر قسم کی مصنوعات میں تجارتی توازن حاصل کرنا چاہیے۔ درحقیقت، بین الاقوامی تجارت کا اصل مقصد یہ ہے کہ ممالک اپنے اپنے فوائد کو استعمال میں لاتے ہوئے تقسیم کار اور تعاون کے ذریعے مجموعی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ ہر صنعت میں تجارتی توازن حاصل کرنے کا مطالبہ معاشی حقیقت میں ناممکن ہے، اور یہ بین الاقوامی تقسیم کار کی ضرورت کو مسترد کرتا ہے۔ اگر ایسی سوچ اور پالیسی نافذ کی جائے تو اس کے نتیجے میں عالمی وسائل مختص کرنے کی کارکردگی میں شدید کمی آئے گی، اور ہر ملک کو تمام مصنوعات میں خود کفیل ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ عالمی معیشت ایک بند کسان معیشت کے دور میں واپس چلی جائے گی، جس سے نہ صرف وسائل کا بہت زیادہ ضیاع ہوگا بلکہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور صنعت کی ترقی میں بھی شدید رکاوٹ پیدا ہوگی۔یقیناً میں یہ مانتا ہوں کہ ٹرمپ اور اس کی ٹیم اگرچہ ضدی اور مغرور ہیں، لیکن وہ بنیادی معاشی اصولوں سے ناواقف نہیں ہیں۔ وہ دوسرے ممالک کو مساوی ٹیرف پالیسی نافذ کرنے کی دھمکی اس لیے دے رہے ہیں تاکہ وہ ملکی سطح پر عوامی جذبات کو مطمئن کرسکیں اور “امریکہ فرسٹ” کے تصور کو ابھار کر پیچیدہ بین الاقوامی تجارتی مسائل کو “امریکہ کا نقصان” کے آسان بیانیہ میں تبدیل کرسکیں۔ اگرچہ یہ بیانیہ ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں معاون ہے، لیکن یہ بین الاقوامی تجارت کے حقیقی منظر کو شدید طور پر مسخ کرتا ہے۔
مساوی ٹیرف پالیسی درحقیقت ایک معاشی دھونس ہے۔ یہ یکطرفہ اقدامات کے ذریعے دوسرے ممالک کو امریکہ کی تجارتی شرائط قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ طریقہ کار ڈبلیو ٹی او فریم ورک کے تحت کثیرالجہتی تجارتی اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔ امریکہ، جو عالمی آزاد تجارت کا اہم حامی رہا تھا، اب بین الاقوامی تجارتی نظام کو تباہ کرنے کا اہم محرک بن گیا ہے۔ یہ پالیسی انتخاب امریکہ کی عالمی معاشی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے بارے میں بے چینی کو ظاہر کرتا ہے: ابھرتی ہوئی معیشتوں کے عروج کے سامنے، امریکہ اپنی مسابقت کو بہتر بنا کر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے بجائے تجارتی تحفظ پسندی کے ذریعے اپنے موجودہ فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ انتخاب نہ تو دانشمندانہ ہے اور نہ ہی پائیدار۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پالیسی عالمی سطح پر تجارتی جنگ کو جنم دے رہی ہے، اور دیگر ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انتقامی ٹیرف اقدامات اپنانے پر مجبور ہیں۔ یہ منفی چکر عالمی تجارت کے حجم میں کمی اور معاشی ترقی میں سست روی کا باعث بنے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ تجارتی جنگ عالمی معاشی نمو میں 0.
ٹرمپ کی مساوی ٹیرف پالیسی، جیسے کہ کافی کی دکان کے مالک کو کفن خریدنے پر مجبور کرنا، مضحکہ خیز ہے۔ آج کے انتہائی مربوط عالمی معیشت میں، کسی بھی یکطرفہ اقدام کے ذریعے تجارتی نظام کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش ناکام ہوگی۔تمام ممالک کو زیرو سم گیم کی ذہنیت ترک کرنی چاہیے اور ڈبلیو ٹی او فریم ورک کے تحت بات چیت کے ذریعے تجارتی تنازعات کو حل کرنا چاہیے، اور کثیرالجہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح عالمی معیشت کی پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، اور ہر ملک بین الاقوامی تقسیم کار میں اپنی جگہ پا سکتا ہے، جیسے کہ کافی کی دکان اور کفن کی دکان دونوں مارکیٹ میں اپنے گاہک تلاش کر سکتے ہیں۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بین الاقوامی تجارت عالمی معیشت عالمی معاشی مضحکہ خیز کے ذریعے ممالک کو مالک کو کرنے کی کرتا ہے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان پر سفری پابندیاں؟ امریکی حکومت کی وضاحت آگئی
واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ امریکہ کئی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے لیے "ٹریول بین لسٹ" تیار کر رہا ہے۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بریفنگ میں وضاحت کی کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ویزا پالیسی کا جائزہ ضرور لیا جا رہا ہے، لیکن افغانستان یا کسی اور ملک پر مکمل ویزا پابندی کی کوئی فہرست موجود نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کے 20 جنوری کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ویزا پالیسیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ امریکہ کی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے۔
محکمہ خارجہ نے ان افغان شہریوں کو امریکہ میں آباد کرنے کے عزم کو دہرایا جو 20 سالہ امریکی مشن کے دوران واشنگٹن کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
تاہم، امریکی میڈیا رپورٹس، بشمول نیویارک ٹائمز اور رائٹرز، کے مطابق ٹرمپ حکومت کئی ممالک، بشمول پاکستان اور افغانستان، پر نئی ویزا پابندیوں پر غور کر رہی ہے۔ ان رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکہ نے 43 ممالک کو سیکیورٹی خطرات کی فہرست میں شامل کیا ہے، جن میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
امریکی ویزا پالیسی کی غیر یقینی صورتحال نے پاکستان، قطر، اور دیگر ممالک میں پناہ گزین افغان شہریوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
ٹرمپ حکومت کے نئے آرڈر کے تحت تمام مہاجر پروگرام تین ماہ کے لیے معطل کر دیے گئے، جس سے بہت سے افغان مہاجرین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی پالیسی میں تبدیلی آتی ہے، تو مہاجرین کی آباد کاری مزید تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت نے 31 مارچ کی ڈیڈلائن مقرر کی ہے، جس کے بعد افغان مہاجرین کی ملک بدری کا امکان ہے، جبکہ البانیہ کا افغان مہاجرین کو عارضی پناہ دینے کا معاہدہ بھی اسی ماہ ختم ہو رہا ہے۔