امت مسلمہ کی غیرت جب سو رہی تھی، تب یمن نے وہ کیا جو کوئی نہ کر سکا،علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
لاہور میں تقریب سے خطاب میں تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یمن کے یہ فرزندانِ حیدرؑ، یہ حسینی علمبردار، یہ ابابیلیں، ایک بار پھر فیل کے لشکر کو خاک میں ملا دیں گی۔ یہی وہ جذبہ ہے جو امت کو جگائے گا، یہی وہ استقامت ہے جو فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار کرے گی، اور یہی وہ اعلان ہے جو ظالموں کے ایوانوں کو زمین بوس کر دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے یمن کی جرات و استقامت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب فلسطین پر صیہونی درندے ٹوٹ پڑے، جب غزہ کے معصوم بچوں کو بھوک اور بموں کے درمیان چناؤ پر مجبور کر دیا گیا، جب عالمی استعمار نے اسرائیل کی پشت پناہی کی، جب عرب بادشاہوں نے غداری کی مہر ثبت کردی، جب امت مسلمہ کی غیرت سو گئی تب یمن نے وہ کیا جو کوئی نہ کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے وہی مظلوم، جن کے اپنے گھر کھنڈر بن چکے، جن کے اپنے بچے فاقہ کشی میں بلک رہے، جن کی اپنی سرزمین راکٹوں سے گونج رہی تھی، وہی یمن، وہی حوثی مجاہدین، فلسطین کیلئے سب سے مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب امت مسلمہ کے بڑے بڑے ممالک رسمی مذمت سے آگے نہ بڑھے، جب مسلم حکمران اسرائیلی سفیروں کو عزت بخش رہے تھے، جب عالمی طاقتیں فلسطینیوں کی نسل کشی پرخاموش تھیں تب یمن نے وہ فیصلہ کیا جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حوثی مجاہدین نے اسرائیل کی ناکہ بندی کا اعلان کر دیا، بحیرہ احمر میں دشمن کے جہازوں پر حملے شروع کر دیئے اور اسرائیل کے اقتصادی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ خوف کے مارے بڑی بڑی عالمی کمپنیاں اپنے جہازوں کے راستے بدلنے پرمجبور ہوگئیں، اسرائیل کی بندرگاہیں سنسان ہو گئیں اور عالمی تجارت میں ارتعاش پیدا ہوگیا۔ یہ وہ یمن ہے جسے مٹانے کیلئے عرب وعجم کی ظالم قوتیں برسوں سے سازشیں کر رہی تھیں، مگر آج وہی یمن، اسرائیل کے سینے پر خنجر بن کر پیوست ہوچکا ہے۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ آج اگر کوئی یہ دیکھنا چاہے کہ غیرتِ ایمانی کیا ہوتی ہے، تو وہ یمن کے مظلوم مگر بہادر سپوتوں کو دیکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن کے یہ فرزندانِ حیدرؑ، یہ حسینی علمبردار، یہ ابابیلیں، ایک بار پھر فیل کے لشکر کو خاک میں ملا دیں گی۔ یہی وہ جذبہ ہے جو امت کو جگائے گا، یہی وہ استقامت ہے جو فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار کرے گی، اور یہی وہ اعلان ہے جو ظالموں کے ایوانوں کو زمین بوس کر دے گا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
غزہ پر دوبارہ جارحیت، امت مسلمہ کہاں ہے؟
اسلام ٹائمز: تازہ جارحیت میں شہید ہونیوالوں میں زیادہ تر ایسے ہیں، جو کئی دن سے بھوکے اور پیاسے تھے۔ جنہوں نے شاید سحری اور افطاری بھی نہیں کی تھی۔ غزہ میں ایک طرف بھوک اور پیاس کی شدت ہے، دوسری طرف جنگ کے شعلے ہیں۔ دنیا کے دو ارب مسلمان اور انکی حکومتیں خاموش ہیں۔ کسی کو غیرت نہیں آتی کہ وہ غزہ کے لوگوں کی مدد کریں۔ "دو ارب نفوس کی حامل مسلم امہ غزہ آپکی طرف سے تھمائی گئی امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے، مگر بھوک اور ننگ پھر لوٹ آئے ہیں، جو ہمارے بچوں کے معدوں کو کھا رہے ہیں۔" یہ الفاظ ایک مقامی صحافی راجی الھمص کے ہیں، جو انہوں نے اپنے "ایکس" اکاونٹ کے ذریعے عرب اور مسلمانان عالم سے غزہ کے مہینے کے دوران فوری مدد کرنے کی اپیل کے ذریعے کیے ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ پر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل نے 17 مارچ کی شب کو ایک مرتبہ پھر غزہ کے باسیوں پر شب خون مار دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر اعلان جنگ کر دیا ہے۔ وحشیانہ حملوں میں چار سو کے لگ بھگ معصوم شہری شہید ہوئے ہیں۔ حماس کے عہدیداروں سمیت جہاد اسلامی فلسطین کے اہم کمانڈر اور ترجمان ابو حمزہ بھی اسی حملہ میں اپنی اہلیہ اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ شہید ہوگئے ہیں۔ 26 جنوری سنہ 2025ء کو طے پانے والی جنگ بندی اور معاہدے کے مطابق یہ طے پا چکا تھا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کرے گی، لیکن راقم کی رائے اس وقت بھی یہی تھی کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا ماضی ایسی ہزاروں خلاف ورزیوں کی سیاہ تاریخ سے بھرا پڑا ہے۔ بہرحال غاصب صیہونی حکومت نے غزہ پر ایک اور جنگ مسلط کر دی ہے۔ غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہمیشہ کی طرح معصوم انسانوں کے قتل عام کے لئے اسرائیل نے عالمی دہشت گرد حکومت امریکہ سے باقاعدہ مشاورت بھی کی ہے اور امریکہ کی اجازت کے بعد ہی غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا ہے۔ سات اکتوبر سے پہلے کا فلسطین ہو یا سات اکتوبر کے بعد کا فلسطین ہو، ہمیشہ سے غاصب صیہونی حکومت نے امریکہ سے گرین سگنل لے کر ہی معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ غزہ ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں جل رہا ہے اور دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کی تعداد خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مغربی دنیا میں غزہ پر جارحیت کے خلاف لوگوں نے مظاہرے شروع کر دیئے ہیں، لیکن یہ مسلم دنیا اور ان کے عوام ہیں کہ ابھی تک سستی اور کاہلی میں غرق ہیں۔ کسی کونے سے کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔ غزہ پر جارحیت کے آغاز سے قبل ہی سترہ دن تک مسلسل غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی ناکہ بندی کی گئی تھی۔ غزہ میں بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے بلک رہے تھے۔
تازہ جارحیت میں شہید ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے ہیں، جو کئی دن سے بھوکے اور پیاسے تھے۔ جنہوں نے شاید سحری اور افطاری بھی نہیں کی تھی۔ غزہ میں ایک طرف بھوک اور پیاس کی شدت ہے، دوسری طرف جنگ کے شعلے ہیں۔ دنیا کے دو ارب مسلمان اور ان کی حکومتیں خاموش ہیں۔ کسی کو غیرت نہیں آتی کہ وہ غزہ کے لوگوں کی مدد کریں۔ "دو ارب نفوس کی حامل مسلم امہ غزہ آپ کی طرف سے تھمائی گئی امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے، مگر بھوک اور ننگ پھر لوٹ آئے ہیں، جو ہمارے بچوں کے معدوں کو کھا رہے ہیں۔" یہ الفاظ ایک مقامی صحافی راجی الھمص کے ہیں، جو انہوں نے اپنے "ایکس" اکاونٹ کے ذریعے عرب اور مسلمانان عالم سے غزہ کے مہینے کے دوران فوری مدد کرنے کی اپیل کے ذریعے کیے ہیں۔
الھمص نے نوجوانوں، سماجی کارکنوں، علماء، سیاسی رہنماؤں، شیوخ اور تمام بااثر شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں غزہ میں بڑھتے افلاس اور بھوک کے خلاف آواز بلند کریں اور غزہ پر مسلط کردہ محاصرہ توڑنے کے لیے، صہیونی ریاست کی جانب سے گذرگاہوں کی بندش اور انسانی امداد کے لیے ضروری انسانی امداد کے داخلے کی روک تھام کے لیے آواز بلند کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی اپیل غزہ کے لوگوں کی بھوک اور ان کے بہتے ہوئے خون سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے۔؟ اس سوال کا جواب تو اب دو ارب مسلمانوں کو ہی دینا ہے۔ بہرحال اب غزہ پر جنگ کے بادل ہیں اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ غزہ کے لئے ہر طرح سے مدد کریں، فلسطین کے مسئلہ کو ہر سطح پر اٹھائیں اور مظلوم فلسطینیوں کی مدد کریں۔ بصورت دیگر تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔