UrduPoint:
2025-03-19@16:19:25 GMT

ترکی: ایردوآن کے اہم سیاسی حریف امامولو حراست میں

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

ترکی: ایردوآن کے اہم سیاسی حریف امامولو حراست میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مارچ 2025ء) میڈیا رپورٹوں کے مطابق، ترک حکام نے صدر رجب طیب ایردوآن کے اہم سیاسی حریف استنبول کے میئر اکرم امامولو کو بدعنوانی اور دہشت گردی سے تعلق کی تحقیقات کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو نے کہا کہ استغاثہ نے تاجروں اور صحافیوں سمیت تقریباً 100 دیگر لوگوں کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیے ہیں۔

دو دہائیاں بعد ایردوآن کا اقتدار چھوڑنے کا عندیہ

امامولو کے معاون کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی اور ڈی پی اے نیوز ایجنسیوں نے بتایا کہ انہیں بدھ کی صبح حراست میں لیا گیا اور پولیس ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا۔

مقامی نشریاتی اداروں نے اطلاع دی ہے کہ پولیس نے تفتیش کے ایک حصے کے طور پر صبح کے وقت استنبول میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔

(جاری ہے)

گرفتاری کے بعد مظاہروں کو روکنے کے لیے حکام نے استنبول میں چار روز کے لیے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے۔ نیٹ بلاکس انٹرنیٹ آبزرویٹری نے بدھ کے اوائل میں کہا کہ ترکی نے متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی کو بھی محدود کر دیا ہے۔

امامولو کا ڈپلومہ ضبط

امامولو کی حراست استنبول یونیورسٹی کے اس اعلان کے ایک دن کے بعد ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ بے ضابطگیوں کی بنیاد پر ان کا یونیورسٹی ڈپلومہ منسوخ کر رہی ہے۔

یہ پیش رفت ملک کے اگلے انتخابات میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے ان کے عزائم کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔

ترکی کی آیئن کے مطابق صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے امیدوار کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری ہونی چاہیے۔

یونیورسٹی نے کہا کہ وہ امامولو سمیت 28 افراد کی گریجویشن کی ڈگریوں کو "واضح غلطی" کی وجہ سے "باطل" قرار دے رہی ہے۔

ترک صدر کی جارحانہ سفارت کاری، نیٹو اتحادی مخمصے کا شکار

امامولو کو ایردوان کے اہم دعویدار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ سینٹر لیفٹ ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے ایک مقبول سیاست دان ہیں۔ امامولو کو اس ہفتے کے آخر میں صدارتی امیدوار کے لیے ان کی پارٹی کے انتخاب کے طور پر نامزد کیا جانا تھا۔

امامولو 2019 اور 2023 میں دو مرتبہ استنبول کے میئر منتخب ہو چکے ہیں، انہوں نے اردوان کی حکمران قدامت پسند جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔

خیال رہے کہ ایردوآن نے بھی سن نوے کی دہائی میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز استنبول میں میئر کے عہدے سے کیا تھا۔

ایردوآن 2003 میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے ترکی کی سیاست پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں اور اگر وہ آئین کے تحت دوبارہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں 2028 میں مقررہ وقت سے پہلے انتخابات کرانا ہوں گے۔

امامولو کا بیان

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں، امامولو نے کہا کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔

انہوں نے لکھا، "عوام کی مرضی کو ڈرا دھمکا کر یا غیر قانونی کاموں کے ذریعے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔" "میں پرعزم ہوں.

.. میں بنیادی حقوق اور آزادیوں کے لیے اپنی لڑائی میں ثابت قدم ہوں۔"

ہیومن رائٹس واچ نے امامولو کی حراست کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

ایردوآن کی حکومت نے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ آزاد ہے۔

تدوین: صلاح الدین زین

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

کیا امریکی خلابازوں کی تاخیر سے واپسی کے پیچھے سیاسی وجوہات تھیں؟

امریکی خلاباز سنی ولیمز اور بچ ولمور کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر طویل قیام کے بعد واپسی کے حوالے سے ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کے اقدامات پر مختلف دعوے سامنے آئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مشیر ایلون مسک، جن کی کمپنی اسپیس ایکس نے خلابازوں کی واپسی میں مدد کی، کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال خلابازوں کو جلد واپس لانے کی پیشکش کی تھی، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ’’سیاسی وجوہات‘‘ کی بنا پر اسے مسترد کردیا۔ تاہم، ناسا اور خلائی ماہرین، بشمول دونوں خلابازوں کے، اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی تھا۔

4 مارچ کو ایک پریس کانفرنس میں، ناسا کے اہلکاروں نے کہا کہ خلابازوں کی واپسی میں تاخیر کی وجوہات میں حفاظت، ایک الگ مشن کے بجٹ کے خدشات، اور خلائی اسٹیشن پر عملے کو برقرار رکھنے کی خواہش شامل تھی۔ سنی ولیمز اور بچ ولمور کی واپسی کا منصوبہ اسپیس ایکس کے کریو کے ساتھ بنایا گیا تھا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایلون مسک سے ذاتی اپیل کرکے خلابازوں کی واپسی کو تیز کردیا۔ تاہم، خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ گزشتہ موسم گرما سے زیر غور تھا، اور ان کی واپسی کا شیڈول اسی منصوبے کے مطابق تھا۔


تاخیر سے واپسی کی وجوہات

سنی ولیمز اور بچ ولمور 5 جون 2024 کو فلوریڈا کے کیپ کیناورل اسپیس فورس اسٹیشن سے بوئنگ کے اسٹارلائنر خلائی جہاز پر زمین سے روانہ ہوئے تھے۔ اس مشن کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ کیا اس خلائی جہاز کو باقاعدہ خلابازوں کی تبدیلی کے مشنز کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، لانچ کے فوراً بعد، اسٹارلائنر میں ہیلیم کے کئی لیک ہوگئے، جس کی وجہ سے واپسی کا مشن روک دیا گیا۔

اگرچہ ہیلیم کے لیکس خلائی اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد مستحکم ہوگئے، لیکن تھرسٹرز کے مسائل کی وجہ سے ناسا نے اسٹارلائنر کو خالی واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ایلون مسک نے ناسا اور اسپیس ایکس کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ بنایا۔

اگست 2024 میں، ناسا نے اعلان کیا کہ وہ سنی ولیمز اور بچ ولمور کو فروری 2025 میں اسپیس ایکس کے ڈریگن کیپسول کے ذریعے واپس لائے گا۔ ستمبر میں، کریو-9 مشن لانچ کیا گیا، جس میں ناسا کے نک ہیگ اور روسی خلاباز الیگزینڈر گوربونوف شامل تھے، جو 29 ستمبر کو خلائی اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ کیپسول میں دو خالی سیٹیں سنی اور بچ کےلیے رکھی گئی تھیں، جو فروری میں واپس آنے والے تھے۔ ناسا کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ فروری کے آخر تک واپسی کا شیڈول دیگر مشنز کو متاثر کیے بغیر ممکن تھا۔


ٹرمپ اور مسک کے دعوے

ٹرمپ اور مسک نے حالیہ مہینوں میں دعویٰ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے خلابازوں کو نومبر کے انتخابات تک خلائی اسٹیشن پر رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ منفی تشہیر سے بچا جا سکے۔

18 فروری کو فاکس نیوز کے انٹرویو میں، ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے مسک کو خلابازوں کو واپس لانے کے مشن کو تیز کرنے کی اجازت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے جان بوجھ کر خلابازوں کو خلاء میں چھوڑ دیا تھا۔ مسک نے بھی اس بات کی تصدیق کی، لیکن ناسا اور خلابازوں نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا۔


خلابازوں کی رائے

سنی ولیمز اور بچ ولمور نے سی این این کے انٹرویو میں کہا کہ وہ خود کو ’’ترک شدہ’’ یا ’’پھنسے ہوئے‘‘ محسوس نہیں کرتے۔ ولمور نے کہا، ’’ہم تیار ہیں اور ہمارا عزم ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کےلیے تربیت دی گئی ہے۔‘‘


ناسا کی وضاحت

ناسا کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ خلابازوں کی واپسی کا فیصلہ بجٹ، حفاظت، اور خلائی اسٹیشن پر عملے کی ضروریات پر مبنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان نے بحث کو توانائی بخشی، لیکن اس نے فیصلوں کو متاثر نہیں کیا۔


نتیجہ

خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا، اور اس میں تاخیر کی وجوہات فنی اور مالی تھیں۔ ٹرمپ اور مسک کے دعوے سیاسی ہوسکتے ہیں، لیکن ناسا اور خلابازوں کے مطابق، یہ فیصلہ کسی سیاسی دباؤ کے بغیر کیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا امریکی خلابازوں کی تاخیر سے واپسی کے پیچھے سیاسی وجوہات تھیں؟
  • استنبول کے میئر مبینہ بدعنوانی اور شدت پسندی کے الزامات میں تحقیقات کے لیے گرفتار
  • شام میں اسرائیل اور ترکی کے درمیان نیابتی محاذ، تجزیہ کار نقی ہاشمی کا خصوصی انٹرویو
  • حضرت امام علیؑ کی شہادت کے سیاسی محرکات۔۔۔
  • ناگپور تشدد معاملے میں 50 سے زیادہ افراد حراست میں لئے گئے، دس تھانوں میں کرفیو نافذ
  • صدر ٹرمپ اور طیب ایردوآن کا فون پر رابطہ ، یوکرین اور شام پر تبادلہ خیال
  • پاکستان کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی چاہیے 
  • کیا حضرت نوح ؑ کی کشتی مل گئی؟ نئے انکشافات
  • راولپنڈی: آزاد کشمیر کی سیاسی رہنما کی گاڑی پر فائرنگ