ڈی سی صوابی کو بغیر اجازت خواتین کی ٹک ٹاک ویڈیوز شیئر کرنا مہنگا پڑگیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
ڈی سی صوابی کو ٹک ٹاک ویڈیوز شیئر کرنا مہنگا پڑگیا جب کہ پشاور ہائیکورٹ نے ڈی سی صوابی کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق بغیر اجازت کے ویڈیوز ڈی سی کے آفیشل پیج سے شیئر کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال نے کی۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ڈی سی نے صوابی ویمن یونیورسٹی میں اسپورٹ گالا میں شرکت کی، ڈی سی نے وہاں پر ٹک ٹاک ویڈیوز بنائی اور پھر آفیشل پیچ پر شیئر کی، ویڈیوز بغیر اجازت کے شیئر کی گئی جس سے خواتین کی پرائیویسی متاثر ہوئی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ڈی سی رمضان کے مہینے میں بھی ٹک ٹاک ویڈیوز بناکر انڈین اور پشتو گانوں کے ساتھ اپلوڈ کر رہے ہیں، ڈی سی اپنی ذاتی تشہیر کر رہے ہیں ، یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے۔
وکیل درخواست گزار نے استدلال کیا کہ عدالت ڈی سی کو اس عمل سے روکے اور آفیشل پیچ سے ویڈیوز ڈیلیٹ کیے جائے، عدالت نے ابتدائی دلائل کے بعد ڈی سی کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹک ٹاک ویڈیوز
پڑھیں:
بریت کے بعد ملزم پر جرم کا داغ ہمیشہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے منشیات کے مقدمے سے ڈسچارج ہونے والے شہری کو خیبر پختونخوا پولیس میں بھرتی کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بریت کے بعد ملزم پر جرم کا داغ ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔
عدالت نے آئس ڈرگ کے کیس میں بری ہونے والے ملزم کی بحیثیت پولیس کانسٹیبل بھرتی کی درخواست منظور کرلی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ
خیبرپختونخوا پولیس میں کانسٹیبل بھرتی کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی۔
یہ بھی پڑھیں: والد کی جگہ بیٹی نوکری کے لیے اہل قرار، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ملزم پر 2021 میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت آئس کا مقدمہ درج تھا، ملزم کا کردار ایسا نہیں کہ اس کو پولیس میں بھرتی کیا جا سکے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے نوکری کے لیے 2023 میں درخواست دی تو اس کا کردار کیسے خراب ہو گیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل بولے؛ درخواست گزار پر فوجداری مقدمہ تھا ایسے میں پولیس رولز کے تحت اچھا کردار نہیں رہتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ جب ایک شخص مقدمے سے ڈسچارج ہوگیا تو کیا اس کی سزا اس کو ساری زندگی ملے گی، جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ عجیب منطق ہے کہ کسی شخص پر الزام ثابت نا ہو تب بھی اس کی اہلیت پر شک کیا جائے، اگر درخواست گزار کا جرم اتنا ہی بڑا تھا تو آپ نے تفتیش کے مرحلے پر بری کیوں کیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ای فائلنگ کا نیا نظام متعارف، ترجیحی سماعت کی ترغیب
ایڈووکیٹ جنرل کا موقف تھا کہ بری ہم نے نہیں کیا بلکہ پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے کیا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اگر کسی شخص پر جھوٹا مقدمہ بنے اور وہ بری ہو جائے تو کیا ساری زندگی اس کو سزا ملے گی۔
عدالت نے درخواست گزار کی پولیس کانسٹیبل کی آسامی پر بھرتی کی درخواست منظور کرلی، درخواست گزار نے 2023 میں خیبرپختونخوا پولیس میں کانسٹیبل کے لیے درخواست دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسداد دہشتگردی ایکٹ ایڈووکیٹ جنرل بریت پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ پولیس پولیس کانسٹیبل جرم جسٹس اطہر من اللّٰہ جسٹس منصور علی شاہ خیبرپختونخوا داغ سپریم کورٹ