سپریم کورٹ نے خصوصی اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کردی
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے خصوصی اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کردی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کرنے کا مقصد عدلیہ کے احتساب اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے حائل رکاؤٹیں دور کرنے کے عزم کی توثیق ہے۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی بدعنوانی سے پاک ماحول کو فروغ دینے اور انصاف کے اصولوں کی پاسداری کیلئے پر عزم ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ گذشتہ تقریبا پانچ ماہ میں 7633نئے مقدمات دائر ہوئے،11779مقدمات پر فیصلے ہوئے، نئے ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی سے مقدمات کے فیصلوں میں مزید تیزی آئے گی۔
پی ٹی آئی کو مینار پاکستان جلسے کی اجازت پر پنجاب حکومت سے جواب طلب
اس میں کہا گیا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان یقین دلاتا ہوں سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا مقدمہ کا فیصلہ بہت جلد میرٹ پر ہوگا، کوئی سرکاری یا غیر سرکاری شخص کیس فکس کرنے،نقل کے حصول یا کسی بھی کام کیلئے رشوت طلب کرے تو فورا اطلاع دیں۔
اعلامیہ کے مطابق میں چیف جسٹس پاکستان رشوت اور سفارش کے متعلق عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں، چیف جسٹس پاکستان آپکو یقین دلاتا ہوں رشوت طلب کرنے والے کی اطلاع دینے والے کا نام خفیہ رکھا جائے گا، رشوت کی شکایت کی فورا شنوائی ہوگی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے باپ کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا
فوٹو: فائلسپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا میں ایک سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد اس کی جگہ بیٹی کو نوکری کےلیے اہل قرار دے دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد اس کی بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے درخواستگزار خاتون کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں، شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہوسکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟
اس دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازم کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جاسکتیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے جبکہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ خاتون کو نوکری دے کر آپ نے فارغ کیسے کردیا؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ خاتون کی شادی ہوچکی ہے اور والد کی جگہ نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پھر استفسار کیا کہ یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ بیٹی کی شادی ہوجائے تو وہ والد کے انتقال کے بعد نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا بولے خیبر پختونخوا سول سروس ایکٹ کے تحت نوٹیفکیشن کے ذریعے خاتون کو نکالا ہے۔
جسٹس منصور نے پھر استفسار کیا کہ اب کیا ایک سیکشن افسر قانون کی خود ساختہ تشریح کرے گا؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی معاشی خودمختاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تفصیلی فیصلہ دیں گے۔