لندن میں “چائنا ان اسپرنگ ٹائم ” گلوبل ڈائیلاگ کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
لندن میں “چائنا ان اسپرنگ ٹائم ” گلوبل ڈائیلاگ کا انعقاد WhatsAppFacebookTwitter 0 19 March, 2025 سب نیوز
لندن :چائنا میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ” چائنا ان اسپرنگ ٹائم: چین کے مواقع ، دنیا کا اشتراک ” گلوبل ڈائیلاگ برطانیہ کے شہر لندن میں منعقد ہوا۔ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے شعبہ تشہیر کے نائب سربراہ اور چائنا میڈیا گروپ کے صدر شن ہائی شیونگ نے تقریب سے ورچوئل خطاب کیا۔
تقریب میں 150 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی جن میں برطانیہ میں چین کے سفیر ژینگ زے گوانگ، چائنا برطانیہ بزنس کونسل کے چیئرمین سر شیراڈ لوئس کاوپر کولز ، ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نیل ڈیوڈسن،سٹی آف لندن کے 695 ویں میئر مائیکل مینیلی،برطانیہ چائنا چیمبر آف کامرس کی نائب صدر شوئے وین شیا اورسٹی آف لندن کے 693 ویں میئر ونسینٹ کیفنی شامل تھے۔ شن ہائی شیونگ نے کہا کہ اس سال کے دو اجلاسوں میں صدر شی جن پھنگ نے ادارہ جاتی کھلے پن کو مسلسل وسعت دینے اور بین الاقوامی تعاون کے لئے گنجائش کو مسلسل بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
چین کی ترقی کو دنیا سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور دنیا کی خوشحالی کو بھی چین کی ضرورت ہے۔ عالمی چیلنجوں سے کوئی ایک ملک اکیلے نہیں نمٹ سکتا ۔ “بندش ” کے بجائے ، ” کھلا پن اور اشتراک” بہتر ہے۔ ” ڈی کپلنگ ” کے بجائے ” تعاون اور جیت جیت ” بہتر ہے۔ چین کا دروازہ مزید وسیع ہو گا ۔ “چین کے اعتماد” نے دنیا کی ترقی میں مزید استحکام اور یقین پیدا کیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
پاکستان ہائی کمیشن لندن کی کارکردگی سوالیہ
سرفراز نواز
دنیا بھرمیں تقریباً سارے ممالک اپنے سفارتی عملے کو دیگر ممالک میں تعینات کرتے ہیں جو ان ممالک کے ساتھ مضبوط عسکری، سیاسی ، سماجی ، کاروباری و دیگرشعبہ ہاے زندگی سے تعلقات کو بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔بیرون ممالک میں تعینات ہونے والے ان جریدہ و غیر جریدہ ملازمین کی تعیناتی سے قبل مکمل چھان بین کی جاتی ہے تاکہ یہ اپنی بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے ملک وقوم کی عزت وتکریم اور بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ کا باعث بن سکیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان تعیناتیوں میں سفارشی عمل سے مکمل گریز کیا جاتا ہے جبکہ ترقی پزیر ممالک سفارشی کلچر کا اکثر وبیشتر شکار نظر آتے ہیں۔ پاکستان بھی سفارتی دنیا میں کافی متحرک نظر آتا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کے سفارت خانوں میں کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں جو بظاہر پاکستان کے مثبت چہرے کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے ہمہ وقت کوشاں نظر آتےہیں لیکن اگر حقیقت بیان کی جائے تو آج اقوام عالم میں پاکستان اس مقام پر کھڑا نظر نہیں آرہا جس کایہ حقدار ہے اس کا کریڈٹ حکمرانوں کےساتھ ساتھ ان بادشاہ صفت ڈپلومیٹس کو بھی جاتاہے جو بیرون ملک کم و بیش تین سال کی تعیناتیوں میں ان تھک محنت و لگن کی بجائے ذاتی تعلقات اورپسند و ناپسند کے چکر میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے جن کے حصول کے لیے قوم کے ٹیکس کے پیسے سے انہیں کہیں فیصدزیادہ تنخواہیں ودیگر مراعات دی جاتی ہیں جبکہ اعلیٰ افیسران اور ان کے ماتحت عملے کے چہروں پر آپ کو ایک خاص قسم کا اطمینان نظر آئے گا جیسے کہ قائداعظمؒ کے ہر اول دستے میں یہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر رہے ہوں۔
پاکستان کی بدقسمتی میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب طویل مدتی قومی مفادات کی بجائے قلیل وقتی ذاتی مفادات اور پسند نا پسند کی بنیاد پر اہم تعیناتیاں عمل میں لائی جاتی ہیں،ذمہ داران کو اس بات کا دور دور تک اندازہ نہیں کہ ان کہ ان اقدامات سے قوم کا حال اور مستقبل کس قدر بھاری نقصان اٹھا رہا ہےاور آنے والی نسلیں اس نقصان کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گی بالخصوص موثر چیک اینڈ بیلنس کی بجائے ڈھیل کی پالیسی سے بھی وزارت خارجہ اپنا اقبال مزید بلند کرواتی ہے،برطانیہ میں پاکستان ہائی کمیشن لندن بڑی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان اور برطانیہ میں ہونے والی تمام سرگرمیوں میں پل کا کردار ادا کرتا ہےجبکہ برمنگھم ،مانچسٹر ، بریڈ فورڈ اور گلا سکو کے قونصلیٹ بھی اسی طرز پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔
برطانیہ میں پاکستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی اوور سیز کی تعداد لاکھوں میں موجود ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر برطانیہ بھر سے سینکڑوں پاکستانی وکشمیری اپنے پاسپورٹ، شناختی کارڈ سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے سنٹرل لندن میں واقع پاکستانی ہای کمیشن کا رخ کرتے ہیں۔ ہائ کمیشن لندن اور دیگر قونصلیٹس کی کرگردگی کامفصل جائزہ آئندہ اقساط میں بیان کیا جائے گا۔ ماہانہ لاکھوں ڈالرز کے خرچے کے بعد مطلوبہ نتائج / کارکردگی کا اصل ڈیٹا تو وزارت خارجہ کے پاس ہوگا جو بتا سکتا ہے کہ یہ عملہ کتنا فرض شناص اور محب وطن ہے۔۔ ہم تو عام لوگوں میں گردش کرنے والی کہانیوں سے ہی رائے قائم کر سکتے ہیں۔پاکستان ہائ کمیشن لندن ہائ کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کی سربراہی میں کام کر رہا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت محنتی اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں اور وہ کمیونٹی میں کافی سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ان کی اہلیہ ڈاکٹر سارہ نعیم بھی بہت پڑھی لکھی اور متحرک خاتون ہیں جو پاکستانی خواتین کی تقریبات میں پاکستان کی بہت اچھے سے نمائندگی کرتی ہیں ۔اگر ہائ کمیشن میں تعیناتیوں پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ان گنت عہدے ملیں گے جن کا فاہدہ صرف وزارت ہی جانتی ہے ۔
مختلف ڈیپارٹمنٹس کے سربراہوں کو منسٹر کا اضافی لقب بھی دیاجاتاہے۔ جن میں ٹریڈ منسٹر، پریس منسٹر، تعلیم منسٹر وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ آپ کو علم ہی ہوگا پاکستانی ہواور نام کے ساتھ منسٹر لگ جائے پھر تو کارکردگی مثبت کی جگہ سوالیہ ہی رہتی ہے۔ ہائ کمیشن کی بلڈنگ میں وقتا فوقتا مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں وہی مخصوص چند درجن منظور نظر لوگوں کی اکثریت نظر آتی ہے جو ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں۔ متعدد موقعوں پر ہائ کمشنر صاحب اور ان کے ما تحت ذمہ داران کو مہمانوں کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست کی گئ جسکی وجہ سے نتائج مزید بہتر ہو سکیں مگر مجال ہے جو ان کے کان پر جوں تک رینگے اگر یہ فہرستیں تبدیل ہو گئیں تو مدعا سرائ کون کرے گا اور بادشاہ وقت کے کان محظوظ کیسے ہوں گے۔ ہائ کمیشن کو چاہیے کہ وہ ملک کے طول وعرض میں ان تقریات کو لیکر جائیں تاکہ ایک عام پاکستانی کو بھی ملک خداداد کی خدمت کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔سکی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل لندن میں پاکستانی نژاد تاجروں کی ایک تقریب میں کوریج کے لیے جانے کا اتفاق ہوا جس میں سوال وجواب کے وقفہ میں ان تاجروں نے ہای کمیشن میں موجود ٹریڈ منسٹری کے کردار کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوتے کہا کہ یہ لوگ کچھ اور ہی مقاصد سے یہاں ٹرانسفر لیتے ہیں۔ پاکستانی مصنوعات کی برطانیہ کی منڈیو ں میں بڑی ڈیمانڈ ہے۔ لیکن یوکے میں ان درآمدات کے لیے کوئ حوصلہ افزا کردار نہیں ادا کیا جاتا بلکہ ہائ کمیشن میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں میں ان لوگوں کی تعداد نظر آتی ہے جو نجی محفلوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی بجائے عرب ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔صرف فوٹو سیشن کے لیے مہنگے کپڑے پہن کر ان تقریات کی کرسیوں پر براجمان نظر آتے ہیں۔ اگر آپ مزید تحقیق کریں تو ہائ کمیشن کے لوگ بھی ان ہی کی ذاتی محفلوں میں حاضری لگوانے کو باعث سعادت و ثواب سمجھتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں پاکستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص انڈیا، بنگلہ دیش اس کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔کیا ہم انکے مثبت اقدامات کو اپنا نہیں سکتے۔ کیا ہم واقعی اس اہلیت سے عاری ہیں ، ہر گز نہیں صرف موثر چیک اینڈ بیلنس کی عدم دستیابی نے ملک کے اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ وزارت خارجہ کو فوری ایک موثر جائزہ پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے جس میں عام لوگوں کو برائے راست شامل کرنا ہوگا تاکہ ان کی ان پٹ سے سرمایہ کاری کے لیے مزید مثبت اقدامات اقدامات اٹھائیں جاسکیں اور فعال تاجروں کی ہائ کمیشن کے ساتھ رابطے کو بھی یقینی بنیایا جائے ۔ان تاجروں کے جائز چھوٹے چھوٹے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر کروانے کے لیے موثر کردار ادا ہوناچاہیے۔ یہاں پر پریس منسٹری کے کردار کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس کا بنیادی کام ہی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔
بیرون ممالک میں موجود افراد کی آواز بھی احکام بالا تک لیکر جا نا ہے تاکہ وقتا فوقتا موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی ہو سکے اور ہائ کمیشن کے کردار کو بطریق احسن اوورسیز میں نمایاں کیا جاسکے۔ لیکن حسب عادت ان کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ فعال صحافی حضرات کی بڑی تعداد یہ واویلا کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ ہمیں بھی ہائ کمیشن کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا موقع دیں۔ مجبوری یہ ہے کہ عملہ ان میٹھے میٹھے صحافی بھائیوں کو کیسے یہ نظر انداز کر سکتے ہے۔ جنھوں نے سب اچھا کی گردان یاد کی ہوئ ہے۔ لگتا ہے مہمانوں کی جو فہرستیں موجود ہیں اس میں ردو بدل کے لیے وزیر خارجہ اور وفاقی سیکرٹری خارجہ کے دستخط درکا ہیں جو ان افیسران کی پہنچ سے کافی دور دکھائ دیتے ہیں۔ تقریبا ایک سال پہلے پاکستانی ٹی وی چینل کی ایک تقریب میں شریک پریس منسٹر ی کے زمہ داران کی خدمت میں ایک صحافی نے دوران تقریب اس معاملے کو پیش کیا مگر انھوں نے اسکی احساسیت کو سمجھنے کی بجائے اپنے انتہائ قابل عملے کی روایات کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اندازہ تو انھیں مختلف تقریات میں اٹھائے جانے والے تلخ سوالوں سے ہی ہو جانا چاہیے۔ آج پاکستان ایک منظم میڈیا وار کا شکار ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری قوم کے ہر فرد کی مدد درکا ہے۔ اس جنگ کا مقابلہ آپ کے چند منظور نظر میڈیا افراد اکیلے نہیں کر سکتے۔اسکے لیے آپ کو اپنا دل بڑا کرنا ہوگا۔ وسیع تر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔بہت سے موثر اقدامات سے منفی پروپیگنڈے کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کویہ تصور کرنا ہوگا کہ وہ حالت جنگ میں ہے۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی نئی لہر نے آپ کے کردار کو بہت اہم ذمہ دار یوں سے نواز دیا ہے۔ ضرورت امر کی ہےکہ ہائ کمشنر بھی راقم کی تھوڑی گزارشات کو زیادہ سمجھ کر کوئ موثر ایکشن لیں ۔ کہیں ایسا نا ہوکہ آپ کی بجائے یہ ایکشن ہزاروں میل دور سے لینا پڑ جائے اور آپ پھر بقول شاعر یہی کہتے پھریں۔ ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔
بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں پاکستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص انڈیا، بنگلہ دیش اس کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔کیا ہم انکے مثبت اقدامات کو اپنا نہیں سکتے۔ کیا ہم واقعی اس اہلیت سے عاری ہیں ، ہر گز نہیں صرف موثر چیک اینڈ بیلنس کی عدم دستیابی نے ملک کے اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ وزارت خارجہ کو فوری ایک موثر جائزہ پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے جس میں عام لوگوں کو برائے راست شامل کرنا ہوگا تاکہ ان کی ان پٹ سے سرمایہ کاری کے لیے مزید مثبت اقدامات اقدامات اٹھائیں جاسکیں اور فعال تاجروں کی ہائ کمیشن کے ساتھ رابطے کو بھی یقینی بنیایا جائے ۔ان تاجروں کے جائز چھوٹے چھوٹے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر کروانے کے لیے موثر کردار ادا ہوناچاہیے۔ یہاں پر پریس منسٹری کے کردار کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس کا بنیادی کام ہی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ بیرون ممالک میں موجود افراد کی آواز بھی احکام بالا تک لیکر جا نا ہے تاکہ وقتا فوقتا موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی ہو سکے اور ہائ کمیشن کے کردار کو بطریق احسن اوورسیز میں نمایاں کیا جاسکے۔ لیکن حسب عادت ان کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ فعال صحافی حضرات کی بڑی تعداد یہ واویلا کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ ہمیں بھی ہائ کمیشن کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا موقع دیں۔ مجبوری یہ ہے کہ عملہ ان میٹھے میٹھے صحافی بھائیوں کو کیسے یہ نظر انداز کر سکتے ہے۔ جنھوں نے سب اچھا کی گردان یاد کی ہوئ ہے۔ لگتا ہے مہمانوں کی جو فہرستیں موجود ہیں اس میں ردو بدل کے لیے وزیر خارجہ اور وفاقی سیکرٹری خارجہ کے دستخط درکا ہیں جو ان افیسران کی پہنچ سے کافی دور دکھائ دیتے ہیں۔ تقریبا ایک سال پہلے پاکستانی ٹی وی چینل کی ایک تقریب میں شریک پریس منسٹر ی کے زمہ داران کی خدمت میں ایک صحافی نے دوران تقریب اس معاملے کو پیش کیا مگر انھوں نے اسکی احساسیت کو سمجھنے کی بجائے اپنے انتہائ قابل عملے کی روایات کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اندازہ تو انھیں مختلف تقریات میں اٹھائے جانے والے تلخ سوالوں سے ہی ہو جانا چاہیے۔ آج پاکستان ایک منظم میڈیا وار کا شکار ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری قوم کے ہر فرد کی مدد درکا ہے۔ اس جنگ کا مقابلہ آپ کے چند منظور نظر میڈیا افراد اکیلے نہیں کر سکتے۔اسکے لیے آپ کو اپنا دل بڑا کرنا ہوگا۔ وسیع تر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔بہت سے موثر اقدامات سے منفی پروپیگنڈے کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کویہ تصور کرنا ہوگا کہ وہ حالت جنگ میں ہے۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی نئی لہر نے آپ کے کردار کو بہت اہم ذمہ دار یوں سے نواز دیا ہے۔ ضرورت امر کی ہےکہ ہائ کمشنر بھی راقم کی تھوڑی گزارشات کو زیادہ سمجھ کر کوئ موثر ایکشن لیں ۔ کہیں ایسا نا ہوکہ آپ کی بجائے یہ ایکشن ہزاروں میل دور سے لینا پڑ جائے اور آپ پھر بقول شاعر یہی کہتے پھریں۔ ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔