انڈیا جاکر شادی کرنے والی سیما حیدر کے ہاں بیٹی کی پیدائش
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
محبت کی خاطر گزشہ سال انڈیا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والی پاکستانی شہری سیما حیدر کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سیما حیدر نے اتر پردیش کے شہر گریٹر نوئیڈا کے کرشنا اسپتال میں بیٹی کو جنم دیا ہے۔
سیما حیدر کے وکیل اے پی سنگھ نے بتایا کہ ماں اور بیٹی دونوں صحتمند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ سیما اور سچن سے پیار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ جشن کا لمحہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں سے سچن کی بیٹی کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت جانے والی سیما حیدر یوٹیوب چینلز سے اب کتنے پیسے کما رہی ہیں؟
یاد رہے کہ سیما حیدر ایک پاکستانی خاتون ہے، جسے پب جی کھیلتے ہوئے گریٹر نوئیڈا کے رہائشی سچن سے محبت ہو گئی تھی، جس کے بعد وہ اپنے 4 بچوں کے ساتھ نیپال کے راستے 2023 میں بھارت میں داخل ہوئی تھیں تاکہ وہ سچن مینا سے شادی کر سکیں۔ یہ جوڑا سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوا جس کے بعد انہوں نے اپنا یوٹیوب چینل بھی بنایا جو اب ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔
واضح رہے کہ سیما حیدر کے اپنے پہلے شوہر غلام حیدر سے 4 بچے ہیں۔ ان کے 8 سالہ بیٹے کا نام پہلے فرحان علی تھا اور اب اس کا نام راج ہے، جب کہ ان کی بیٹیوں 6 سالہ فروا، 4 سالہ فریحہ بتول اور فرح کا نام بدل کر پریانکا، منی اور پری رکھا گیا ہے۔ جبکہ اپنے بھارتی شوہر سے یہ ان کی پہلی اولاد ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سیما حیدر سیما حیدر بچے سیما حیدر بیٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سیما حیدر بچے سیما حیدر بیٹی سیما حیدر کے کا نام
پڑھیں:
شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہوسکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں جسٹس منصور
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خود مختاری سے کوئی تعلق نہیں ہے، شادی کے بعد بھی بیٹا اپنے والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں ہو سکتی؟۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دے دیا، عدالت نے درخواست گزار خاتون زاہدہ پروین کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں، شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازم کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جا سکتیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024ء کا ہے جب کہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا، خاتون کو نوکری دے کر آپ نے فارغ کیسے کر دیا؟.ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے کہا خاتون کی شادی ہو چکی ہے لہذا والد کی جگہ نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ بیٹی کی شادی ہو جاے تو وہ والد کے انتقال کے بعد نوکری کی اہلیت نہیں رکھتیں، خواتین کی معاشی خودمختاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تفصیلی فیصلہ دیں گے۔