Daily Ausaf:
2025-03-19@14:33:14 GMT

مقروض یا امیر ترین ملک

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

گزشتہ دنوں ایک جاننے والے دفتر تشریف لائے۔ موصوف اوسلو یونیورسٹی ناروے میں معاشیات کے شعبے سے وابستہ ہیں، سیاحت کا جنون ہے اور اسی سلسلے میں بہت سے ممالک گھوم چکے ہیں۔ اب گزشتہ چار روز سے کراچی میں مقیم ہیں۔ بہرحال ہمیں سے ملاقات کے لیے فون کیا تو ہم نے انہیں دفتر بلا لیا۔ جب ان کی تشریف آوری ہوئی تو ہانپتے کانپتے انتہائی غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی، ٹھنڈا پانی پیش کیا، کرسی پر بیٹھ گئے پھر ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ ’’قریشی صاحب، میں آدھے گھنٹے سے صدر کا روڈ بغیر زبرا کراسنگ کے کراس کرنے کے لیے دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ ’’کیا واقعی آپ کا ملک غریب ہے جو بغیر قرضوں کے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، جس کو قرضوں کی ہمیشہ شدید ضرورت رہتی ہے؟‘‘ ہم ابھی کوئی مناسب جواب سوچ ہی رہے تھے کہ کہنے لگے۔ ’’قریشی صاحب، میں حیران ہوں کہ آپ کے ملک کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے اور آپ کا ملک دنیا کے تقریباً ساڑھے پچیس کھرب روپے کا مقروض ہے۔ ابھی جب میں آپ کا یہ صدر کا روڈ لیفٹ سے رائٹ کراس کرنا چاہ رہا تھا تو مجھے شدید انتظار کرنا پڑا پھر بھی مشکل سے سڑک پار کرسکا کیونکہ ہمیں تو زبر کراسنگ سے روڈ کراس کرنے کی عادت ہے اور وہ آپ کے مالک میں ناپید ہے سوری قریشی صاحب کہ بار کچھ اور ہورہی تھی اور چلی گئی دوسری طرف تو یہاں مختلف میک اور ماڈل کی کاریں، موٹریں اور انتہا سے زیادہ بائیک قطار در قطار اس طرح گزر رہی تھیں کہ درمیان سے گزرنے کی مجھ میں تو ہمت ہی نہیں ہوئی اور ساتھ ہی سڑک کے کنارے کھڑا یہ بھی سوچتا رہا کہ یہاں پبلک ٹرانسپوٹ نہ ہونے کے برابر ہے ہر شخص کے پاس اپنی سواری ہے اور اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے ٹریفک میں شامل ان گزرتی گاڑیوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ یا اللہ یہ ملک جو تقریباً پندرہ سو کھرب کا مقروض ہے، اس کے ہر ہر شہر یہاں تک کہ گائوں دیہاتوں تک میں مختلف قسم اور نئے ماڈل کی گاڑیوں کی اس قدر بھر مار ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک ہوگا۔ ایسے ہی آپ کے ملک کے مختلف شہروں میں یہ بلند و بالا عمارتوں کی قطاریں جو خود کئی کھرب مالیت کی ہوں گی۔
سر بفلک کھڑی اپنی امارت اور شان و شوکت کا خود مظہر ہیں۔ میں آپ سے ملنے سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کرتا ہوا آرہا ہوں۔ پاکستان پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ اوسلو یونیورسٹی میں میرا مضمون معاشیات اور معاشرت ہے، اس لیے میں اپنے اس مضمون پر مشاہدہ کرتا ہوں اور آپ کے ملک پاکستان میں آکر محسوس کرتا ہوں کہ کسی تیل پیدا کرنے والے ملک میں آگیا ہوں جہاں لوگوں کو صرف پیسہ خرچ کرنے اور لٹانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ اس بار تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک میں آگیا ہوں۔ جناب کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آپ اس طرح نہ تو سڑکوں پر جگہ جگہ دور تک پھیلے شو روم دیکھیں گے۔ نہ کپڑوں کی اتنی بڑی بڑی مارکیٹیں دیکھیں گے۔ خام کپڑا تمام ممالک میں بنتا ہے، وہ یوں اسے ضائع نہیں کرتے بلکہ دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کماتے ہیں اور اپنے شہریوں کے لیے سلے سلائے کپڑے مہیا کرتے ہیں۔ یہاں آپ کے شہر کراچی میں مختلف علاقوں مثلاً ابھی میں کھارادر اور بولٹن مارکیٹ سے آرہا ہوں، وہاں مختلف مارکیٹیں جس طرح سامان سے بھری ہوئی ہیں، وہ کسی غریب ملک کا تاثر تو نہیں دیتیں۔ صدر کے بوہری بازار اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ساتھ ہی طارق روڈ اس کے اطراف اور لیاقت آباد، ناظم آباد، حیدری، شاہ فیصل کالونی، ملیر اور میں تو سب سے زیادہ حیرت کا شکار تو کلفٹن اور زمزمہ کے علاقوں میں جاکر تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ دبئی یا یورپ کے کسی بڑے شہر میں آگیا ہوں اور غرض آپ کے شہر کے ہر ہر علاقے میں چاہے وہ کسی حیثیت کے لوگوں کا رہائشی علاقہ ہو، کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کسی غریب ملک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے ساتھ ہی میں لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے کئی بڑے اور چھوٹے شہروں سے ہوکر آرہا ہوں وہاں بھی کچھ اس ہی طرح کا تاثر ملتا ہے خاص کر کراچی کا زمزمہ اور لاہور و اسلام آباد تو لگتے ہی نہیں کہ پاکستان کا حصہ ہوں۔ ایسے ہی آپ کو پورے امریکا یا یورپ میں کہیں ڈرائی کلینرز یعنی کپڑے دھونے والوں کی اس قدر دکانیں نہیں ملیں گی۔
یہاں تو ہر گلی کوچے میں کئی کئی دکانیں کپڑے دھونے والوں کی موجود ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لٹانے کے لیے کس قدر دولت ہے۔ بڑے گھرانوں کی بات تو الگ رہی، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے کے لیے کئی کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے اخبارات اور تمام سیاسی لیڈر ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کا بڑا شور شرابہ کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن میں نے سروے کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کسی بھی دکان پر کوئی شے اس لیے فروخت ہونے سے نہیں رہ جاتی کہ اس کی قیمت زیادہ ہے، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم یا اہم چیز کیوں نہ ہو، اس کے خریدار موجود نظر آرہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے لیے وہی چیز مہنگی ہوتی ہے جو ہماری قوت خرید میں نہ آسکے جسے ہم خرید نہ سکیں۔ آپ کے پاکستان میں لوگ جس طرح رہتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، اس سے قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی غریب ملک ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ساتھ ہی دنیا کے ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

بلوچستان… محرکات اور حل

ملک کو عدمِ استحکام کا شکار کیا جارہا ہے، دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں، ہر روز جیّد علمائے کرام اور سیکیوریٹی اہلکار شہید کیے جارہے ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ حکمران صرف حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں، چند روایتی بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا جارہا۔ بلوچستان کی عظیم محب وطن شخصیّت میر جعفر خان جمالی کے نام سے موسوم جعفر ایکسپریس پر حملے اور بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں سے دل دکھی اور مضطرب ہے۔

نہتّے مسافروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی درندگی جتنی قابلِ نفرت اور قابلِ مذمّت ہے، کچھ بدبختوں کی جانب سے اس درندگی کو glorify کرنے کی مذموم حرکت بھی اتنی ہی قابلِ مذمّت ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں وطن کی دھرتی کو مادرِوطن کہا جاتا ہے یعنی ملک کا تقدس ماں کے تقدس کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی غنڈہ یا بدمعاش کسی کی ماں کو گالی دے یا اس کو بے توقیر کرے اور اس کا کوئی بیٹا اس غنڈے کی تعریف کرنا شروع کردے تو ہر شخص اس بیٹے کو بے غیرت اور بدبخت قرار دے گا اور اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرے گا، یہ اس سانحے کا ایک پہلو ہے، دوسرا یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بہت اچھا ہوا۔

یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیکیوریٹی فورسز خاص طور پر آرمی کے کمانڈوز اور سنائپرز نے بڑی مہارت اور بہادری کے ساتھ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں یرغمالی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے دہشت گرد مارے گئے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ اس نوعیّت کے کسی بھی چیلنج سے نپٹنے کے لیے قوم نے جب بھی فوج کو پکارا ہے فوج کے ڈسپلنڈ، ٹرینڈ، بہادر اور بے خوف جوان اور افسر فوراً پہنچے ہیں، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آرمی نے پیشہ ورانہ مہارت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور توّقع سے کم وقت میں دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر حالات پر قابو پالیا، جو قابلِ تحسین ہے۔ مگر اس کے کچھ پہلو اور بھی ہیں۔

Intelligence Failure کا جتنا بھی دفاع کیا جائے مگر اس ناکامی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ دہشت گرد اتنے بڑے آپریشن کی منصوبہ بندی کرتے رہے مگر کسی کو خبر نہ ہوسکی۔ اس کی ضرور انکوائری ہونی چاہیے۔ د ہشت گردوں کو اندر سے جو معلومات فراہم کی گئیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟ اسے بھی کیفرِ کردار تک پہچایا جائے۔

مجھے پچھلے کچھ سالوں میں بارہا بلوچستان جانے کا موقع ملا ہے۔ 2013سے 2020تک وہاں حالات بہت بہتر تھے اور ہر سطح پر یہ تاثر نمایاں تھا کہ علیحدگی پسند عناصر عددی لحاظ سے بہت تھوڑے اور کمزور ہوگئے ہیں اور نئی ریکروٹمنٹ کے لیے بلوچ نوجوان ان کے ساتھ ملنے کے لیے تیّار نہیں۔ پھر یہ کیسے ہوا کہ ان کے لیے عوام کی ناپسندیدگی اب کسی حد تک ہمدردی میں تبدیل ہوگئی، اور اب نوجوان پھر ان کی جانب راغب ہونے لگے۔

ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس کا کون ذمّے دار ہے۔ بلوچ نوجوانوں کی ریاست سے دوری ایک بڑی وجہ تو missing persons کا معاملہ ہے، مگر کئی بلوچ لیڈر میڈیا پر کھل کر کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی سے زیادہ معاملہ کرپشن اور بری گورننس کا بھی ہے۔

بلوچستان میں تعینات مختلف اداروں کے افراد پیسہ بنانے میں مگن ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام میرٹ اور انصاف سے محروم ہیں، ہر سطح پر بدانتظامی ہے جس کے خطرات نتائج ظاہر ہونے لگے ہیں، بدانتظامی اور کرپشن کا فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاست عوام کا اعتماد کھو دیتی ہے۔ عوام، ریاست سے کٹ جاتے ہیں اور ان میں کچھ دہشت گردوں یا علیحدگی پسندوں کی جھولی میں جاگرتے ہیں۔

بلوچستان میں خارجی محرّکات کا کردار سب سے اہم ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بی ایل اے کو پیسہ اور اسلحہ بھارت کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے اندر آکر دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے اور اپنے اہداف کو قتل کرنے میں بھارت کا مجرمانہ کردار بالکل واضح ہے۔ چند روز پہلے بھی اس نے اپنے کارندوں کے ذریعے اپنے اہداف کو جہلم کے قریب قتل کرا یا تاہم اس کی تصدیق نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی حدود کے اندر آکر متعدد افراد کو قتل کرا چکا ہے۔

اگر پاکستان نے ایسا کیا ہوتا تو بھارت نے پوری دنیا میں شور مچا کر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا اور ہم ہر جگہ اپنی صفائیاں دینے کی کوشش کررہے ہوتے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فارن آفس بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوں کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب بھی بھارت کا کھل کر ذکر نہیں کیا جارہا، حکومت کی یہ پالیسی ناقابلِ فہم ہے۔ داخلی محرّکات میں لاپتہ افرا د اور سرکاری اہلکاروں کا توہین آمیز روّیہ بلوچ نوجوانوں کی alienation کی بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ 26 اگست 2006 کو، پاکستان کے آئین کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہنے والے نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے ناراض گروپوں کو ایک شہید فراہم کردیا جس سے علحدگی پسندوں کی نیم مردہ تحریک کو نئی زندگی مل گئی۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جنرل مشرّف کی پالیسیوں نے جوآگ لگائی تھی اس کے شعلوں نے بہت سے قیمتی اثاثوں کو بھسم کردیا ہے۔ تیسری اہم وجہ سیاسی حقوق سے محرومی ہے۔

بلوچ عوام کا یہ گلہ بجا ہے کہ وہاں ن کے حقیقی نمایندوں پر مشتمل حکومت نہیں بننے دی جاتی۔ بلوچستان سے تعلّق رکھنے والے وہ ممبرانِ اسمبلی اور سینیٹرز جو علیحدگی پسندوں کی کھل کر مذمّت کرتے ہیں، وہ بھی میڈیا پر بڑے واضح انداز میں الزام لگاتے ہیں کہ بلوچستان میں سرکاری افسران کرپشن میں ملوّث ہیں، چونکہ پیسہ بنانا ہی ان کی ترجیحِ اوّل ہے اس لیے ان کے اقدامات نیک نیّتی اور اخلاص سے خالی ہیں، جن کی وجہ سے حالات کے بگاڑ میں بہت اضافہ ہوا ہے، ان کے بقول اسمبلی کی نشستیں اور وزارتیں بیچی جاتی ہیں، گوادر کے مقبول اور درویش صفت راہنما مولانا ہدایت الرّحمن جو اقبالؒکے اس شعر کی مجسّم تصویر ہیں کہ

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

اور جو بلاخوف وعناد ہر جگہ سچ بولتے ہیں۔ عوام کے اس حقیقی نمایندے (جو ملک سے محبت کرتا اور دہشت گردوں کی مذمت کرتا ہے) کو ہتھکڑیاں لگا کر تذلیل کی گئی جو قابلِ مذمّت تھی۔ اب حالیہ سانحے کے بعد وزیراعظم نے کوئٹہ کا دورہ کیا تو دوسرے ایم پی ایز کے ساتھ میٹنگ کی، مگر مولانا ہدایت الرحمن کو باہر رکھا گیا۔ یہ پالیسی پاکستان اور بلوچستان کے لیے نقصان دہ ہے۔

اب مسئلے کے حل کی جانب آتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جعفر ایکپریس کے واقعے کے بعد ریاست کو زبردست آپریشن کرکے اپنی برتری قائم کرنا ہوگی۔ گوریلا کاروائیاں تو کسی بھی ملک میں کی جاسکتی ہیں، اس لیے اختر مینگل کی ٹویٹ کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ریاست کو بلوچستان میں بڑا منّظم اور موثر آپریشن کرکے اپنی کمزوری کا تاثر زائل کرنا ہوگا۔

میاں نواز شریف ایک بڑی پارٹی کے صدر اور سب سے سینئر سیاستدان ہیں، لاہور کی پرانی عمارتوں کی بحالی ان کا کام نہیں، ملک کے دو صوبوں میں آگ لگی ہے۔ اس آگ کو بجھانے اور ملک کو امن اور استحکام سے ہمکنار کرنے کے لیے انھیں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، میں پھر کہوں گا کہ 2014کی طرح میاں صاحب ملک کی تمام سیاسی قیادت کو بلا کر ایک میز پر بٹھائیں ان کے ساتھ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ اور ہدایت الرحمن بھی بیٹھے ہوں اور کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔

بلوچستان میں سرکاری اداروں کے سربراہ ایسے لوگ مقرر کیے جائیں جو باصلاحیّت، معاملہ فہم اور جراتمند ہوں۔ جن کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، گورننس بہتر کی جائے، سرکاری دفتروں میں میرٹ او ر انصاف نظر آئے اور عام آدمی کو عزّت اور احترام دیا جائے۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کوئٹہ جاکر مولانا ہدایت الرحمن اور جے یو آئی کے مشران سے اور سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر مالک اور نوابزادہ زہری سے علیحدہ علیحدہ میٹنگیں کریں جس میں اور کوئی شخص شامل نہ ہو اور مسئلے کی تشخیص کے لیے ان سے رائے اور مشورے لیں۔ بلوچستان کے حقیقی نمایندوں سے مشاورت کے بعد بلوچستان میں short term اور long term پالیسیاں بنائی جائیں۔ انٹیلی جنس کی ناکامیوں پر قابو پایا جائے۔ سب سے موثر ذریعہ Human intelligence ہے۔ اس سلسلے میں پولیس سے مدد لی جائے اور ہر شہر میں ریاست کے حامیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

گوادر، پنجگور اور تُربت وغیرہ میں امن وامان کے بارے میں پولیس افسران اور عسکری کمانڈرز باہمی مشاورت سے پالیسی تشکیل دیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پالیسی کی سمت ایک ہونی چاہیے۔ اور اتھارٹی اور کمانڈ بھی ایک ہونی چاہیے۔

مختلف اور متحارب پالیسیوں کا تاثر ختم ہونا چاہیے۔ ریاست کے حامی عناصر کے نوجوانوں کو عسکری اداروں میں بھرتی کیا جائے۔اس کے علاوہ آٹھ سے دس ہزار بلوچ نوجوانوں کو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں نوکریاں دی جائیں۔ بلوچستان کے حقیقی نمایندوں کو حکومت میں اور فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے۔ بلوچستان میں پنجاب لیول کا سی ٹی ڈی قائم کیا جائے اور انھیں جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومتی پارٹیوں کا قومی سلامتی پر گھریلو اجلاس قوم سے مذاق ہے: لیاقت بلوچ
  • بلوچستان… محرکات اور حل
  • امریکہ، اسرائیل کی غزہ میں دہشتگردی، جماعت اسلامی کا جمعہ کو ملک گیر احتجاج کا اعلان
  • کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر زخمی ہونیوالا سکیورٹی گارڈ دم توڑ گیا
  • کراچی: کورنگی میں ڈکیتی مزاحمت پر زخمی ہونے والا سکیورٹی گارڈ دم توڑ گیا
  • اف ! یہ بدنصیب بچے
  • ملک میں را اور سی آئی اے آزادانہ طریقے سے کام کر رہی ہیں، حافظ نعیم الرحمن
  • مولانا عبدالحق ثانی جمعیت علمائے اسلام ( س ) کے مرکزی امیر مقرر
  • 70 روپے فی لیٹر پٹرول لیوی کا نفاذ مسترد کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان