Daily Ausaf:
2025-03-19@14:07:41 GMT

اللہ، کچھ لوگ دل سے کیوں نہیں اترتے

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

بعض لوگوں کی طرف سے اتنا پیار، محبت اور شفقت ملتی ہے کہ جس کو انسان بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا۔پھر کچھ لوگ کسی ایسے مشکل وقت میں کام آتے ہیں کہ وہ دل میں محبت کا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔مولانا کوثر نیازی سابق وزیر اطلاعات و نشریات و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے میرے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات تھے۔میرے وہ انتہائی شفیق، مہربان اور بھائی نما دوست تھے ان کو کسی صورت دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔وہ مردم شناس ، موقع شناس اور انتہائی وفاداردوست تھے جہاں کہیں بھی موقع ملتا اپنے دوستوں کو جگہ بنا کر دیتے۔ایک اخبار کے سابق چیف ایڈیٹر سے مجھے انہوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔1985ء سے لے کر ان کی وفات 2015ء تک 30سال تک ان کے ساتھ میرے سگے بھائیوں جیسے تعلقات رہے وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتبار کرتے تھے۔میرے بہت سارے منافق دوستوں کی منافقت اورمخالفت کے باوجود اُن کا مرتے دم تک اسی طرح مجھ سے محبت کا رشتہ قائم رہاجس طرح مولانا کوثر نیازی تعارف کرا کے گئے تھے۔صوبہ سندھ کی دو بڑی شخصیات جام صادق علی اور مخدوم طالب المولیٰ کے ساتھ ساتھ سید فخر امام اور بی بی سیدہ عابد حسین سے بھی انتہائی قریبی رشتہ قائم کر گئے۔کالم میں زیادہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تفصیلاً لکھنے سے قاصر ہوں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا نام لکھوں ۔ نوابزادہ نصر اللہ ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ میر اٖفضل خان حتیٰ کہ مشہور اور نامور شخصیات سے ملوانا اور پھر ا ن کو یہ بتانا کہ ملک فداالرحمن میرے چھوٹے بھائی ہیں ۔یہ جب بھی آپ کے پاس آئیں تو آپ یہی سمجھنا کہ مولانا کوثر نیازی خود آئے ہیں اور پھر یقین جانیئے انہوں نے عزت بھی وہی دی کہ جیسے کوثر نیازی خود تشریف لائے ہیں۔ ایمبیسیوں میں سفیروں کو ملنے جاتے تو تب بھی مجھے ساتھ لے کر جاتے بلکہ ایک دفعہ اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں یوم ِ اقبال کی تقریب تھی جو میری ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آئینہ‘‘ کے زیر اہتمام ہو رہی تھی۔
تقریب کی صدارت وفاقی وزیر تعلیم سید فخر امام فرما رہے تھے اور مہمان خصوصی جام صادق علی ،وزیراعلیٰ سندھ تھے۔ان کے مرکزیہ مجلس اقبال کے ممبر فرزندِ اقبال جسٹس جاوید اقبال اور مجید نظامی بھی موجودتھے۔سب لوگ اپنی اپنی جگہ بہت اعلیٰ تقریر کر رہے تھے ۔اس تقریب میں نظامت کے فرائض میرے ذمے تھے ۔میں نے تقریب کے صدر اور مہمان خصوصی کے خطاب سے پہلے مولانا کوثر نیازی کو خطاب کی دعوت دی۔مولانا صاحب نے تقریب کے ہر مہمان کے متعلق کچھ نہ کچھ تعریفی الفاظ کہے لیکن جب جام صادق علی ،وزیر اعلیٰ سندھ کی باری آئی تو مولانا صاحب نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ جام صاحب ایسا لگتا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ والے علامہ اقبال کو وہ رتبہ نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں ۔خصوصاً سندھ کا تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے علامہ اقبالؒ سے بغض رکھتے ہوں ۔ کراچی شہر میں بہت بڑی ادبی و ثقافتی تقاریب ہوتی رہی ہیں لیکن علامہ اقبال پر کبھی کوئی تقریب نہیں کرائی گئی۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اقبالؒ قومی شاعر نہیں خصوصاً سندھ کے تو بالکل ہی نہیں بلکہ صرف لاہور کے شاعر ہیں اور ان کا یوم صرف لاہور میں منایا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ہر سال کراچی میں بھی یوم اقبال پر بہت شاندار اور پروقار تقریبات ہونی چاہئیں ۔مولانا کوثر نیازی کے بعد وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کو تقریر کی دعوت دی گئی تو انہوں نے خوبصورت تقریب کا اہتمام کرنے پر ’’آئینہ‘‘ تنظیم کی تعریف کے بعد علامہ اقبال کے متعلق خوبصورت الفاظ میں خراجِ عقیدت کا اظہارکیا اور پھر تنظیم کے سربراہ راقم اور مولانا کوثر نیازی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے اس عہدے پرآنے سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔پھر بھی میں معافی چاہتا ہوں۔ آج میں اس تقریب میں حاضر ہوا ہوں تو میں سندھ گورنمنٹ کی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا عطیہ مرکزیہ مجلس اقبال کوپیش کرتا ہوں ۔ یاد رہے کہ 1991ء میں پچاس لاکھ روپے بہت بڑی رقم تھی اور یہ پچاس لاکھ روپے مرکز یہ مجلس اقبال کے اکاؤنٹ میں ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچ جائیں گے۔جس پر مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ جام صاحب پچاس لاکھ روپے مرکزیہ مجلس اقبال کا سالانہ بجٹ بھی نہیں ہے۔لیکن انہوں نے کہا میں نے اعلان کر دیا ہے تو پچاس لاکھ ہی اقبال کے فنڈ میں دوں گا اور جب تک زندہ ہوںکراچی میں ہرسال یوم اقبال کے موقع پر کراچی میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔
بدقسمتی سے زندگی نے جام صادق علی سے وفا نہ کی اور وہ جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے۔مولانا کوثر نیازی کی وفات کے بعد کچھ سال میں نے اپنے طور پر علامہ اقبال ؒکے یوم پر تقاریب کا اہتمام کیا لیکن چونکہ حکومت کی طرف سے ایک آنے کا بجٹ نہیں ملتا تھا تو پھر اپنی مددآپ کے تحت ان تقریبات کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آج بھی یومِ اقبال کی عزت و احترام کا صرف ایک چھٹی کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ آج یوم اقبال کی وجہ سے چھٹی ہے۔حکومت ِ وقت کو چاہیئے کہ وہ یوم قائداعظم اور یوم اقبال کے لئے خصوصی فنڈ مقرر کرے۔یوم اقبال پر مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام اور تمام بڑے تعلیمی اداروں میں اقبالؒ کے فلسفے اور حالات زندگی پر بچوں سے تقاریرکروائی جائیں تاکہ نئی نسل بھی اقبال کی شاعری ، فلسفے اور ان کی دور اندیش سوچ سے آگاہ ہوتی رہے۔ پورے پاکستان میں چھٹی دینے کی بجائے اس طرف بھی توجہ دی جائے۔بات ہو رہی تھی مولانا کوثر نیازی کے متعلق جو بیک وقت بہت اچھے شاعر، ادیب،خطیب، دانشور، مصنف، صحافی ، مذہبی سکالراور دور اندیش اور زیرک انسان تھے ۔ وہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ آج بھی زندہ ہوتے تو نہ پاکستان میں ایسے حالات ہونے تھے نہ کم ظرف اور کم عقل اپوزیشن ہونی تھی ، نہ ایسے ناتجربہ کار سیاستدانوں کی کوئی وقعت ہوتی اور نہ ہی اپوزیشن نمائندے اسمبلیوں میں اوچھے، شوشے اور کم عقلی کی بھات بھات کی بولیاں بول رہے ہوتے ۔آج کل تو بعض سیاستدانوں کے شوشے اور چٹکلے سن سن کر دل کڑھتا اور جلتا ہے اور پھر انسان سوچتا ہے کہ خدا جانے ہم سے کیا غلطی ہو گئی ہے کہ ہمیں کیسے کیسے سیاستدان ملے ہیں ۔ مولانا کوثر نیازی 19مارچ 1994ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اس لحاظ سے آج ان کی اکتیسویںبرسی ہے۔میں آخر میں مولا نا کوثر نیازی کے لئے خصوصی دعا کے ساتھ اپنے تمام قارئین سے بھی درخواست کروں گا کہ آؤ، آج ہم سب مل کر مولانا کوثر نیازی جیسی ہر دل عزیز شخصیت کے لئے دعا کریں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما کر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین۔ آخر میں اس نایاب شخصیت کی محبت میں ایک شعر لکھنا چاہتا ہوں :
میں اک بلند حوصلے والا ضدی سا شخص
جب تیری یاد سے لڑتا ہوں تو رو پڑتا ہوں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی یہ مجلس اقبال جام صادق علی علامہ اقبال یوم اقبال اقبال کی انہوں نے اقبال کے اور پھر

پڑھیں:

اقامت دین کی جدوجہد میں رمضان کا کردار

 (امیر تنظیم اسلامی پاکستان)

رمضان المبارک کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘

رمضان کا مہینہ صبر، برداشت ، جھیلنے کا مہینہ ہے۔ افطار سے ایک گھنٹہ پہلے یہ عارضی مشقتیں کچھ زیادہ ہو جاتی ہیں، ٹریفک میں بھی ،گھر میں بھی ،کچن میں بھی، یہ مشقتیں صبر سے جھیلنا ہوتی ہیں تاکہ راہ خدا میں جب مشقتیں آئیں تو ہم اِنہیں بھی جھیلنے کے قابل ہو سکیں۔ سورۃ البقرہ آیت :193میں ارشاد ربانی ہے’’ اور لڑو اْن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘

یہ آج ہماری غلط فہمی ہے کہ رمضان کے بعد چاند رات کو فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ آج ہمارا تصور ہے کہ جمعہ کی دورکعت پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور اِس کے بعد خود کو فارغ سمجھتے ہیں۔ یہ آج ہمارا تصور ہے کہ نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ پر بھی چلے گئے لیکن سود اور جوا بھی نہ چھوڑا۔ بے پردگی، فلمیں ڈرامے اورناچ گانے نہ چھوٹیں۔ یہ بدقسمتی سے آج ہمارا تصور ہے کہ اسلام چند عبادات کا مجموعہ ہے۔ حالانکہ اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ غلبہ چاہتا ہے۔

اِس غلبہ کے لیے، اِس دین کے قیام کے لیے قتال کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے اور یاد رہے قتال بغیر تیاری اور تربیت کے نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ سن 2 ہجری میں روزے کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اور اْسی سال 17 رمضان کو جنگ بدر ہوئی۔ یہ ایک طرح سے حزب اللہ کے لیے تربیت اور تیاری کا معاملہ تھا کہ مشقت سے گزرنے کے بعد استقامت کا مظاہرہ کرنا سیکھ لیا جائے۔ اس پوری بحث کو سامنے رکھ کر ہمیں پوری دلجمعی کے ساتھ  روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہٰی تھا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے حضور نبی اکرمﷺ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی ’’اے اللہ ! یہ قریش ہیں، اپنے سامانِ غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں ۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آ جائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے ۔

اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ قتل (شہید) ہو گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا ۔‘‘ دعا کے دوران آپﷺ کی داڑھی مبارک آنسوؤ ں سے بھیگی اور ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ آپﷺ  کے کندھو ں پر پڑی چادر بار بار نیچے گر جاتی، حضرت ابوبکر صدیقؓ ڈھارس بندھاتے کہ اللہ آپﷺ  کو تنہا نہیں چھوڑے گا ، ضرور مدد فرمائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ  کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی۔

اسلام نے معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مختلف ضابطے مقرر کیے ہیں اور غریبو ں اور مفلسوں کی دستگیری کے لیے امیروں کے ہاتھو ں میں زکوٰۃ و صدقات کے قلمدان تھما دیئے مگر کسی کی جیب سے پیسہ اْس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اْس کے دل میں رحم کا جذبہ نہ پیدا ہو اور یہ احساس اْس شخص کو کس طرح ہو گا جو ہمیشہ مختلف انواع واقسام کی نعمتوں اور لذتوں میں زندگی گزارتا ہو جو ہمیشہ عیش میں رہتا ہو وہ غربت کی تلخیوں کا اندازہ نہیں کر سکتا ، جو عمر بھر پیٹ بھر کر کھا تا رہا ہو وہ کسی غریب کی بھوک اور پیاس کا احساس نہیں کر سکتا اور جب تک کسی کی تکلیف کا احساس نہیں ہو گا، اْس کی مدد کرنے کا جذبہ دل میں پیدا نہیں ہو گا۔

نفسیاتی طور پر آدمی کسی کی تکلیف کا اْس وقت احساس کرتا ہے جب وہ تکلیف خود اْس پرگزرے۔ اسلام نے تمام مسلمانوں پر روز ے فرض کر دیئے تاکہ اغنیاء جب روزے کی جسمانی سختی سے دوچا ر ہوں تو اْنہیں احسا س ہوکہ ہمیں ایک دن کھانا نہ ملنے سے اتنی تکلیف ہوئی تو جو پورے سال ایسے مصائب کا سامنا کرتے ہیں، اْن کا کیا عالم ہو گا ؟ یہ احساس اغنیاء کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرے گا اور وہ غریبو ں کی مدد پر آمادہ ہونگے ۔

قارئین ہر چیز کا ایک مقصد ہوتا ہے جب تک کوئی شئے اپنے مقصد کے ساتھ ہو اْسے مفید سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی چیز اپنے مقصد سے خالی ہو جائے تو وہ لغو اور بے کا ر ہو جاتی ہے۔

سورۃ البقرۃ کے 23 ویں رکوع کی آیت 183میں روزہ کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ’’ اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘ عرب زمانہ جاہلیت میں لوٹ مار اور جنگ کے لیے تیز رفتار گھوڑے استعمال کرتے تھے اور اْن گھوڑوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی، اْنہیں کئی کئی دن تک بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا اور تیررفتار آندھیوں کی طرف منہ کر کے کھڑا رکھا جاتا تھا تاکہ اْن کے اندر قوتِ برداشت پیدا ہو اور مشکل وقت میں وہ ساتھ دے سکیں ۔ اِس سارے عمل کو عرب ’’صوم الفرس‘‘ کہتے تھے یعنی گھوڑے کا روزہ ۔

وہیں سے صوم کا لفظ اہل ایمان کے روزہ کے لیے بھی استعمال ہوا کہ تمہیں بھی روزے رکھوائے جا رہے ہیں تاکہ تمہاری بھی قوت برداشت بڑھے، جب تمہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تم اْس کے لیے تیار ہو ، تم میدان میں کھڑے رہو اور ڈٹ جاؤ ۔ اِس اْمت کی یہ سب تیاری اور تربیت کس لیے کی گئی ۔  سورہ البقرۃ :آیت 143میں فرمایا، ترجمہ:’’ اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اْمت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولﷺ ‘ تم پر گواہ ہو ۔‘‘ سورہ البقرہ:آیت 153 میں فرمایا گیا؛ ترجمہ :’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘ اسی طرح رمضان کے روزے اہل ایمان پر فرض کیے گئے تاکہ ان کے ذریعے صبر ، حوصلہ ، برداشت کی قوت مسلمانوں میں پیدا ہو  اور وہ اقامت دین کی جدوجہد میں استقامت کا مظاہرہ کر سکیں ۔ اِس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے بدرکا معرکہ بھی رمضان میں سجا تھا ، فتح مکہ کا معاملہ بھی رمضان میں ہوا تھا اور قرآن بھی رمضان میں ہی نازل ہوا تھا ۔

اِس اعتبار سے قرآن ، رمضان، اقامت دین کی جدوجہد اور سیرت محمد مصطفیٰﷺ کا خاص تعلق ہے جس میں سبق یہ ہے کہ یہ اْمت اپنے مقصد قیام کی تکمیل کے لیے سیرت مصطفیٰﷺ سے رہنمائی حاصل کرے، قرآن کے ذریعے اپنی روحانی قوت بڑھائے اور روزہ کے ذریعے اپنے اندر صبر ، تقویٰ ، برداشت کی قوت پیدا کرے اور پھر انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی پیش کرے ۔ اس کام کے لیے اِس اْمّت کوکھڑا کیا گیا ۔ روزے کا ایک حاصل روح کی بیداری ہے ۔

روح میں اللہ کے ساتھ تعلق کی تڑپ ہے۔ روزے کی حالت میں یہ کیفیت بندے کو میسر آتی ہے تو بندے کواللہ کا قرب ملتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اِس کی جزا ہوں‘‘ روزے کا سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ بندے کو اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں تو اللہ تعالیٰ شرط بتا رہا ہے: ’’پس اْنہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں‘‘ سورۃ البقرۃ آیت 152 میں ہی فرمایا ؛ ترجمہ : ’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرے تو ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہو گا یعنی تقویٰ کی راہ پر گامزن ہونا ہو گا۔ روزے کا بڑا حاصل روح کی بیداری و ترقی ہے جس کا حاصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قرب ہے اوراْس قرب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بندے کے قریب ہو جائے اور بندہ اللہ کے قریب ہو جائے۔

اللہ تو ویسے ہی بندے کے قریب ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت 186 میں فرمایاگیا ؛ ترجمہ :’’ اور (اے نبی ? !) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں ۔ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کتناقریب ہے؟ سورۃ ق آیت 16میں آتا ہے ؛ ترجمہ: ’’ اور ہم تو اْس سے اْس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ یعنی ہم جتنا اپنے آپ سے قریب ہیں اِس سے زیادہ ہمارا رب ہم سے قریب ہے ۔ البتہ اللہ اپنی شان کے مطابق قریب ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے ۔

روزے کا حاصل تقویٰ ہے لیکن اگر ہم میں سے کوئی نمازیں بھی ضائع کر رہا ہے، جوا،سٹہ، بے پردگی،کرپشن ، چوری ، ڈاکہ ، سب برائیاں جاری ہیں اور آجکل تو لوگ بغیر کسی شرعی عذر کے روزے بھی چھوڑ رہے ہیں، ان سب برائیوں کے بعد بھی ہم چاہیں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول کرے تو یہ مشکل ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لیے ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہوگا۔ اللہ کے قرب کا حاصل یہ ہے کہ بندہ دعا کرے تو اللہ اْسے قبول فرمائے گا لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ پہلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فرمانبرداری کی روش کی طرف آئے اورنافرمانی سے خود کو بچائے۔

ایک حدیث مبارک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ راوی ہیں ، فرماتے ہیں :’’نبی کریمﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپﷺ کی سخاوت اْس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیلؑ آپﷺ سے رمضان میں ملاقات کرتے ، جبرائیلؑ نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملاقات کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ رمضان گزر  جاتا۔ نبی کریمﷺ جبرائیلؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیلؑ آپﷺ سے ملنے لگتے تو آپﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث مبارک سے دوباتیں معلوم ہوئیں : اول ماہ رمضان میں قرآن کا پڑھنا پڑھانا ‘ یہ حضورﷺ اور جبرائیلؑ کا بھی معمول تھا۔ اسی کی توجہ ہم دلاتے ہیں کہ رمضان کی راتیں قرآن کے ساتھ بسرکریں۔ دوم سخاوت کا معاملہ ! یہ اللہ کے رسولﷺ  کے معمولات میں شامل تھا لیکن ماہ رمضان میں آپﷺ کی سخاوت میں تیز رفتار آندھی کی سی تیزی آ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقامِ رضا روزہ کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے۔ رب کا اپنے بند ے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی با ت ہے کہ اس کے مقابلہ میں باقی سب نعمتیں کم دکھائی دیتی ہیں ، روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر وجزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑا گیا کہ اس کی رضا حد وحساب کے تعین سے ماوراء ہے ۔

یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات بندے کی تلاش وجستجو اور طلب کا محور تھی، اس بندے کی حیثیت محب اور طالب کی تھی ، لیکن جب وہ خود ذات خداوندی کا محبوب و مطلوب بن گیا تو اْسے خدا کے پسندیدہ ہونے کا مقام نصیب ہوگیا، اِس مقام پر اللہ تعالیٰ کی رضا قدم بہ قدم بندے کے شامل حال ہو گئی اور اْسے زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہیں، روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاکیزگی اورصفائی دینے کے لیے روزہ سے بہتر کوئی عمل نہیں ۔

روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں احساس ہو کہ بھوک اور پیاس انسان کو ستاتی ہے۔ عام طور پر ہمارے پیٹ بھرے ہوتے ہیں تو ہمیں مفلسوں کی تکلیف کا اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں، روزے میں اس کا احساس ہوتا ہے اور انسان کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ زکوٰۃ فرض ہے۔ اہل علم سے مسائل معلوم کر کے ٹھیک ٹھیک زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے لیکن زکوٰۃ کافی نہیں ہے یہ توکم ازکم تقاضا ہے۔

زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ ، اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے تھے کہ کبھی اتنا مال جمع ہوا ہی نہیں کہ زکوٰۃ دینے کی نوبت آئی ہو۔ آج ہمارے ملک میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔

کتنے ہی زکوٰۃ دینے والے ،اب زکوٰۃ لینے والے ہو گئے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اس اعتبار سے ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اللہ نے ہمیں جو عطا کیا ہے، اْس میں سے مخلوق خدا پرخرچ کرنے کی کوشش کرے ۔ لیکن یاد رہے کہ حلال کمائی سے خرچ کریں گے تو اْس کا اجر ملے گا۔ حرام مال اللہ کے ہاں قبول نہیں ۔ اپنے قریبی لوگوں میں دیکھیں، اْن کو پہلے دیں۔ خاص طور پر رشتہ داروں کو دینے کا دْہرا اجر ہے۔ ایک صلہ رحمی کا ثواب اور ایک اس کی مدد کرنے کا ثواب ۔ 

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ترجمان میں ایک بار پھر تبدیلی
  • ڈاکٹر جاوید اقبال۔۔۔ ایک شخصیت باکمال
  • ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا دہشت گرد ہے، مولانا فضل الرحمان
  • نیاز اللہ نیازی کو بشری بی بی کے ترجمان کی بھی ذمہ داری دے دی گئی، ذرائع
  • نیاز اللّٰہ نیازی کو بشریٰ بی بی کے ترجمان کی بھی ذمہ داری دے دی گئی، ذرائع
  • مولانا فضل الرحمان حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے کمربستہ، مجلس عمومی کا اجلاس طلب
  • پاکستان ہے تو نواز،زرداری،مولانا اورعمران ہیں ،پی ٹی آئی اپنی لائن اور لینتھ ٹھیک کرے، راناثناء اللہ
  • ٹرین حملہ سفاکانہ دہشتگردی ‘ فضل الرحمن دوست‘ کہیں نہیں جانے دیں گے: احسن اقبال
  • اقامت دین کی جدوجہد میں رمضان کا کردار