ٹرمپ حکومت کو جھٹکا: امریکی عدالت نے USAID کو بند کرنے سے روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
امریکہ میں ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے USAID (یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ) کو بند کرنے کے فیصلے کو روک دیا۔ عدالت نے ایلون مسک اور ڈپارٹمنٹ فار گورنمنٹ ایفیشنسی (Doge) کی کوششوں کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
جج تھیوڈور چوانگ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ USAID کو بند کرنے کی کارروائیاں غیر آئینی ہو سکتی ہیں اور فوری طور پر ادارے کے ملازمین کو دوبارہ کام پر بحال کرنے کا حکم دیا۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جبUSAID کے ملازمین نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایلون مسک کا حکومتی اداروں پر کنٹرول غیر قانونی ہے کیونکہ انہیں نہ تو سرکاری طور پر کوئی عہدہ دیا گیا اور نہ ہی امریکی سینیٹ نے ان کی تقرری کی منظوری دی۔
ٹرمپ حکومت نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد 90 دن کے لیے تمام غیر ملکی امداد پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت USAID بھی متاثر ہوا۔
عدالت کے فیصلے کے بعد USAID کے 80 فیصد سے زائد منصوبے بند ہونے کے باوجود مزید کٹوتیوں پر پابندی لگ گئی ہے۔ وہائٹ ہاؤس نے عدالتی فیصلے کو "انصاف کا قتل" قرار دیتے ہوئے اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا۔
یہ فیصلہ ٹرمپ حکومت کے لیے ایک اور قانونی دھچکا ہے، کیونکہ اسی ہفتے ایک اور وفاقی جج نے وینزویلا کے مبینہ گینگ ممبرز کی ملک بدری روک دی تھی، جس پر ٹرمپ نے جج کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیا امریکی عالمی بالادستی خطرے میں ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو مذاکرات کی دعوت پر مبنی خط لکھے جانے کے بعد چین، روس اور ایران نے چابہار کے قریب محافظِ امن2024ء نامی مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ مشقیں عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں مشرق وسطی میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان مشقوں میں آذربائیجان، جنوبی افریقہ، پاکستان، قطر، عراق اور یو اے ای بطور مبصر شریک ہوں گے۔
ان فوجی مشقوں کا وقت نہایت اہم ہے، کیونکہ حالیہ مہینوں میں امریکہ اور اسرائیل بارہا ایران کو دھمکا چکے ہیں کہ اگر اس کا جوہری پروگرام روکا نہ گیا تو اس پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں میں سختی اور سفارتی دبا ؤمیں اضافہ بھی اس تنا ؤکا عکاس ہے۔ تاہم، ان مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے چین اور روس کی حمایت حاصل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا ہے تاکہ مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔ تاہم، ایران کی قیادت نے اس پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے سخت ردعمل دیا۔
اگرچہ امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں سخت کر دی ہیں، لیکن ٹرمپ کا لہجہ نرم نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ ایران کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے، لیکن ایران مزاحمتی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ چین اور روس کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، جو اس خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کے لیے ایک چیلنج ہے۔خطے میں چابہار بندرگاہ کی ایک خاص اور اہم اہمیت یہ ہے کہ یہ چین کے بین الاقوامی پراجیکٹ ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘جو مشرقِ وسطیٰ اور بحریہ ہند میں جہاں امریکی اثر و رسوخ کو متوازن کرتا ہے وہاں چین کی معاشی ترقی کا ایک اہم ستون ہے۔ اس لئے چابہار کے قریب مشترکہ فوجی مشقوں کا پیغام جہاں ٹرمپ کے خط کا جواب دکھائی دیتا ہے وہاں فوجی مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط پوزیشن میں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ٹرمپ کی ایران کو جوہری مذاکرات کی طرف لانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں 15جون 2024 ء کو ایرانی وزارتِ دفاع نے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں وضاحتی بیان دے کر اپنے ملکی مفادات پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور چابہار کے قریب فوجی مشقوں پر چینی میڈیا گلوبل ٹائمز کا تجزیہ بھی سامنے آگیا ہے کہ یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں بلکہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے ۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ مہینے ایران کے جوہری سائٹس پر فوری حملے کی دھمکی دی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیل کو ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بھی کہا تھا۔ جبکہ امریکہ نے ایران کے تیل کی فروخت پر نئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان مشقوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ وہ روس اور چین کی حمایت سے محفوظ ہے اور خاص طور اپنے بحری راستوں ہرمز آبنائے اور چابہار جیسے اہم پوائنٹس کی حفاظت کے لئے پوری طرح تیار ہے۔
ان جاری صورتحال میں ٹرمپ نے اپنے مخفی ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے ایرانی روحانی سربراہ خامنہ ای کو جوہری معاہدہ (2015JCPOA) (جے سی پی اواے)کی طرف واپس لانے کے لئے خط لکھا ہے جس پر ایرانی روحانی سربراہ خامنہ ای نے اپنا ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس خط کو امریکا کی نئی چال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید برآں خامنہ ای نے یورپ کو بے شرم ، اندھا اور امریکی گماشتہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین نے امریکی پابندیوں کے خوف سے اپنے جوہری معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا اور ایران پر تجارتی پابندیاں لگاتے ہوئے ایران کو بے تحاشہ معاشی نقصانات پہنچایا ہے۔یاد رہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ایران پر تیل اور بینکنگ شعبہ سمیت 50 سے زائد نئی پابندیاں عائد ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کو جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے معاشی مراعات دینے کی پیشکش کی وضاحت کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ خطے میں ایران کو جوہری طاقت بننے سے روک کر خطے کو مزید جنگی صورتحال سے بچایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ایسا ہی مطالبہ اسرائیل سے کیوں نہیں کرتا اور ایک ہی وقت میں دونوں ملکوں کے ساتھ یہ دہرا اور منافقانہ مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے۔
دراصل امریکا یہ سمجھتا ہے کہ برسوں ایرنی مزاحمت کے طوپر کام کرنے والی قوتیں سابقہ صدر بشارالاسد شام سے فرار ہو کر روس میں پناہ لے چکا ہے ،ایران کی شامی صدر بشار الاسد کو دی گئی فوجی مدد کے باوجود، شام معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اب نئی حکومت مکمل طور پر ایرانی اثر و رسوخ سے نکل کر دیگر عرب ممالک کے علاوہ ترکی کے ساتھ اچھے مراسم قائم کر چکی ہے اور اس طرح لبنان میں حزب اللہ کی پسپائی کے بعد اسرائیل کسی حد تک محفوظ ہو چکا ہے لیکن امریکا اور اسرائیل کو اب بھی یہ خوف ہے کہ ایران یمن کے حوثیوں، لبنان کے حزب اللہ، اور عراقی شیعہ ملیشیا کے ذریعے اب بھی اپنا اثر بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایران شام میں عسکری ناکامی کے بعد ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے، جس میں مزاحمت کا محور دوبارہ مستحکم کرنا شامل ہے۔ ان مشقوں کا انعقاد اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، تاکہ ایران کو خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اس سے ایران کو عالمی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
15 جون 2024ء کو ایران کے دفاعی وزارت نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں ان فوجی مشقوں کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بحرِ ہند اور خلیجِ عمان میں بحری قذاقی اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ ردعمل کی صلاحیت کو جانچنا مقصود ہے۔ اب ان مشقوں میں ایران، روس اور چین کے بحری جہازوں اور ہوائی فوجی دستوں نے حصہ لیا اور ایران نے اپنے ذوالفقار اور قادر میزائل سسٹم کا بھی مظاہرہ کیا۔(جاری ہے)