طالبان کے زیر اقتدار صحافیوں پر سختیاں، سنسرشپ اور گرفتاریاں بڑھ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان سے آزادی اظہار اور صحافیوں پر جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، مگر افغان میڈیا مسلسل دباؤ میں ہے۔ صحافیوں پر حملے، دفاتر پر چھاپے اور سنسرشپ کی سختیاں افغان صحافت کے لیے ایک سیاہ باب بن چکی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد صحافیوں اور میڈیا اداروں پر پابندیاں مزید سخت ہو گئی ہیں۔ صحافیوں کو سخت سنسرشپ، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا ہے، جس کے باعث آزادی صحافت شدید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ افغانستان جرنلسٹس سینٹر (AFJC) کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2024ء میں میڈیا کے خلاف خلاف ورزیوں میں 24 فیصد اضافہ ہوا، جس میں 181 صحافیوں کے حقوق پامال کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 131 صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ 50 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 10 اب بھی جیل میں ہیں، جبکہ 4 کو 2 سے 3 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ 22 سے زائد میڈیا اداروں کو بند یا معطل کر دیا گیا ہے۔ 2023ء میں بھی 139 خلاف ورزیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے، جن میں 80 دھمکیاں اور 59 گرفتاریاں شامل تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان سے آزادی اظہار اور صحافیوں پر جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، مگر افغان میڈیا مسلسل دباؤ میں ہے۔ صحافیوں پر حملے، دفاتر پر چھاپے اور سنسرشپ کی سختیاں افغان صحافت کے لیے ایک سیاہ باب بن چکی ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صحافیوں پر
پڑھیں:
دہشتگردی کی بڑی وجہ نا انصافیوں کے ساتھ عوامی رائے اورقانون کو بلڈوزکرنا بھی ہے، شاہد خاقان
اسلام آباد:عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں ہماری دشمنی مشرق میں تھی مگرہم نعشیں مغرب سے اٹھا رہے ہیں، دہشتگردی کی بڑی وجہ نا انصافیوں کے ساتھ عوامی رائے اورقانون کو بلڈوزکرنا بھی ہے،عوام نے انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کو شکست فاش دی مگرانہیں اقتدار دے دیا گیا۔
کلرسیداں کے دورہ کے موقع پر صحافیوں اور عوامی وفود سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دہشتگردی کی بڑی وجہ ناانصافیوں کے ساتھ عوامی رائے اورقانون کو بلڈوز کرنا بھی ہے، ہمارے ہاں جمہور کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے، عام انتخابات میں عوام نے جن کوکامیاب کروایا وہ اقتدار سے باہر ہیں،جنہیں عوام نے مسترد کیا وہ آج اقتدار میں ہیں یہ طرزعمل جمہوری ہے نہ اخلاقی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ عوام نے گزشتہ انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کو شکست فاش دی، نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز یہ سب عام انتخابات کے شکست خوردہ ہیں مگر اقتدار میں ہیں، جولوگ ماضی میں عمران کواقتدار میں لائے تھے انہیں عمران خان کے بعد 25 کروڑ لوگوں میں سب سے بہترآصف زرداری اور شہبازشریف نظر آئے، ملک کے حالات میں بہتری کا دارومدار صرف آئین اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جب تک مسلم لیگ ن کا بیانیہ ووٹ کوعزت دورہا میں ان کے ساتھ رہا،ن لیگ نے اقتدارکوعزت دو کا نعرہ لگایا تو میں ان سے الگ ہو گیا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہماری دشمنی مشرق میں تھی مگرہم نعشیں مغرب سے اٹھا رہے ہیں، آپ لوگوں کے بچے، جوان اٹھالیں اوریہ بھی نہ بتائیں کہ وہ کہاں ہیں تومتاثرہ لوگ کہاں سے انصاف حاصل کریں؟ کس درپر دستک دیں، ہرطرف اندھیرا نظر آتا ہے۔
سربراہ عوام پاکستان پارٹی کے میں وزیراعظم تھا تو نہ کسی کے معاملات میں مداخلت کرتا تھا نہ کسی کواپنے اختیارات میں مداخلت کی اجازت دیتا تھا، مگرآج تو سیاست دانوں میں خود کوزیادہ فرمان بردار ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔