قانون کا مفہوم کیسے متعین ہوتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
ایک عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ مقننہ نے قانون میں سب کچھ واضح طور پر پیش کردیا ہے تو اس کے بعد ’تعبیرِ قانون‘ یا قانون کا مفہوم متعین کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ جج صرف یہ کیوں نہیں کرتا کہ قانون کو، جیسا کہ وہ ہے مقدمے کے حقائق پر منطبق کردے، تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہوتا، اس لیے کچھ اہم امور پر بات ضروری ہے جن کی بنا پر قانون کا مفہوم متعین کرنا ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے اور جن کی وجہ سے قانون کی تعبیر پر اختلاف پیدا ہوتا ہے۔
جہاں قانون بظاہر خاموش ہواگرچہ مقننہ اپنے طور پر پوری کوشش کرتی ہے کہ موجودہ حالات اور آئندہ پیش آنے والے ممکنہ واقعات سے متعلق ایک جامع قانون بنا کر پیش کردے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے، اکثر ایسے نئے مسائل سامنے آجاتے ہیں جن کے متعلق قانون سازی کے وقت سوچا بھی نہیں گیا ہوتا۔ ایسے حالات میں جب جج، جس نے مقدمے کے کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنا ہے، کیا کرسکتا ہے؟
• کیا وہ مقدمے کی سماعت سے یہ کہہ کر انکار کردے کہ ’قانون اس معاملے پر خاموش ہے‘؟
• یا معاملہ مقننہ کی طرف واپس بھیج کر اسے کہے کہ اس موضوع پر قانون سازی کرے؟
• یا سامنے موجود قانون کی رو سے مقدمے کا فیصلہ کسی ایک فریق کے حق میں کرے؟
پہلی دو صورتوں میں بھی جب وہ مقدمہ خارج کرتا ہے تو وہ مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ کررہا ہوتا ہے، اس لیے ’قانون خاموش ہے‘ کا آپشن جج کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے، تاہم جب سامنے موجود قانون کی رو سے جج مقدمے کا فیصلہ کرتا ہے تو جن صورتوں کا قانون میں ذکر ہوتا ہے، مقدمے میں ان کے بجائے کوئی اور صورت ہوتی ہے۔ اس نئی صورت پر قانون کا اطلاق کیسے کیا جائے؟ ایسے مقدمات کو اصولِ قانون کی اصطلاح میں Hard Cases، یعنی مشکل مقدمات کہا جاتا ہے۔
اصولِ قانون کے ایک مکتبِ فکر Legal Positivism کا مؤقف یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جج اپنی قانونی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے نیا قانون وضع کرتا ہے اور یوں گویا وہ مقننہ کے نائب کا کردار ادا کرتے ہوئے ان خلاؤں کو پُر کرتا ہے جو مقننہ سے رہ گئے تھے۔ اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر جج آج قانون وضع کرتا ہے تو اس قانون کا اطلاق وہ اس مقدمے پر کیسے کرتا ہے جو اس قانون کے وضع کیے جانے سے قبل دائر کیا گیا تھا؟ قانون کا مؤثر بہ ماضی ہونا اخلاقی لحاظ سے معیوب امر سمجھا جاتا ہے، تاہم اس مکتبِ فکر کے نزدیک اخلاقی ضوابط کا قانون پر اطلاق نہیں ہوتا۔
ایک دوسرے مکتبِ فکر Naturalism کا مؤقف یہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں تو خلا پایا جاتا ہے لیکن قانونِ فطرت ایک جامع قانون ہے اور وہی اصل قانون ہے، اس لیے جج کو چاہیے کہ قانونِ فطرت کے اصول معلوم کرکے موجود مقدمے کا فیصلہ کرلے۔ گویا عملاً یہ مکتبِ فکر بھی جج کو discretion دیتا ہے لیکن نظری طور پر فرق یہ ہے کہ Positivists کے نزدیک جج نیا قانون وضع کرتا ہے جبکہ Naturalists کے نزدیک جج پہلے سے موجود قانون دریافت کرتا ہے۔ یوں Naturalists پر وہ اخلاقی سوال نہیں اٹھتا جو Positivists پر قائم ہوتا ہے، البتہ یہ سوال اپنی جگہ موجود رہتا ہے کہ ’قانونِ فطرت‘ ہے کیا اور یہ کیسے دریافت کیا جاتا ہے؟
مایہ ناز امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن کا مؤقف یہ ہے کہ جج کے پاس discretion نہیں ہوتی، یہاں تک کہ جنہیں Hard Cases کہا جاتا ہے ان میں بھی جج قانون کے اصولوں کا پابند ہوتا ہے، اس لیے جج نہ ہی نیا قانون بناتا ہے، نہ ہی کسی موہوم قانونِ فطرت کے اصول دریافت کرتا ہے، بلکہ جج پر لازم یہ ہوتا ہے کہ اپنے سامنے موجود قانون کے قواعدِ عامہ معلوم کرکے ان کی روشنی میں مقننہ کا عمومی ارادہ (general intention of the legislature) متعین کرے اور پھر اس کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرے۔
جہاں قانون خاموش نہ ہو’تعبیرِ قانون‘ کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے جہاں قانون خاموش نہیں ہوتا۔
یہاں پہلی بحث الفاظ کی دلالت کی ہے، مقننہ کی کوشش ہوتی ہے کہ قانون سازی میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں تو اپنی دلالت میں واضح ہوں، تاہم مختلف امور کی بنا پر لفظ کی دلالت میں کئی امکانات موجود ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جیسا کہ مایہ ناز فلسفیِ قانون ایچ ایل اے ہارٹ نے واضح کیا ہے۔ وہ الفاظ بھی جنہیں ’قطعی الدلالہ‘ سمجھا جاتا ہے ظنیت کے کئی پہلو رکھتے ہیں اور ان مختلف پہلوؤں میں جج کو کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی قانون میں یہ قرار دیا جائے کہ فلاں جگہ سے ’گاڑیوں‘ (vehicles) کا گزرنا ممنوع ہے، تو اس کا اطلاق کار اور جیپ پر تو ہوگا لیکن کیا اس کا اطلاق بائیسکل، بچوں کی ٹرائیسکل، گدھا گاڑی یا تانگے پر بھی ہوگا؟ ان صورتوں میں جج کو قانون کے اندر اور باہر بہت سے عوامل کا جائزہ لینے کے بعد یہ متعین کرنا پڑے گا کہ مقننہ ان چیزوں پر بھی قانون کا اطلاق کرنا چاہتی تھی یا نہیں؟
الفاظ کی دلالت کے علاوہ اور بھی کئی امور ہوتے ہیں، مثال کے طور پر یہ الفاظ قانون کی جس دفعہ میں ہیں، اس دفعہ کا دیگر دفعات کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا جج لفظ کی مخصوص ’قطعی‘ دلالت کو دیکھے گا یا اس قانون کو ایک نامیاتی وجود (organic whole) قرار دے کر پورے قانون کے کلی تصور کی روشنی میں اس لفظ پر قیود و حدود عائد کرے گا؟ لفظ بظاہر عام ہوتا ہے لیکن قانون میں اس کا مخصوص مقام اسے خاص کردیتا ہے، لفظ بظاہر مطلق ہوتا ہے لیکن قانون میں اس کا مخصوص سیاق اسے مقید کردیتا ہے۔ پھر بات صرف اس ایک قانون کی نہیں ہوتی، بلکہ یہ قانون بھی پورے قانونی نظام کا ایک جزو ہوتا ہے اور اسی لیے جج کو اس ایک قانون کے اس ایک لفظ کے مفہوم کے تعین کے لیے دوسرے قوانین کا بھی جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ اس مخصوص قانون میں وارد شدہ کسی مخصوص لفظ کا صحیح قانونی مفہوم متعین کرسکتا ہے۔
دوسرا سوال: تعبیرِ قانون کون کرے؟مونٹیسکو نے یہ نظریہ دیا تھا کہ اختیارات کا ارتکاز کرپشن اور ظلم کا باعث بنتا ہے اور اس لیے سیاسی اختیارات کی تقسیم ضروری ہے، اس نے حکومت کی تین شاخیں ذکر کرکے ان کو الگ الگ تین طرح کے اختیارات دینے کی بات کی:
• مقننہ قانون وضع کرے۔
• عدلیہ اس قانون کی تعبیر و تشریح کرے۔
• انتظامیہ اس قانون کی تنفیذ کرے۔
نظری طور پر اس نے قرار دیا کہ یہ تینوں شاخیں ایک دوسرے سے الگ ہوں لیکن عملاً جب اس نظریے کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے آئین میں برتنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس آئین میں قرار دیا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی صدر کا اختیار ہے، حالانکہ وہ انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے، نیز ان ججز کی تعیناتی کی منظوری سینیٹ دیتی ہے حالانکہ سینیٹ کانگریس کا، یعنی مقننہ کا، جزو ہے۔ پھر صدر انتظامی سربراہ ہونے کے باوجود جو انتظامی احکامات (executive orders) جاری کرتا ہے وہ قانون ہی کی حیثیت سے نافذ ہوتے ہیں، جب تک عدلیہ انہیں آئین سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار نہ دے۔ اسی طرح قانون سازی کا اختیار کانگریس کے لیے مان لیا گیا لیکن سپریم کورٹ کا یہ اختیار مان لیا گیا کہ کانگریس کے وضع کردہ قانون کو آئین سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے۔ یوں اختیارات کی علیحدگی (separation of powers) کے ساتھ اس کا بھی بندوبست کیا گیا کہ حکومت کی یہ تینوں شاخیں ایک دوسرے پر نظر رکھ کر توازن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اسے system of checks and balances کہا گیا۔ بعض اوقات یہ نظام توازن قائم کرنے کے بجائے تینوں شاخوں کے درمیان تصادم کی طرف بھی لے جاتا ہے۔
عدلیہ کے پاس مقننہ کے وضع کردہ قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار کہاں سے آیا؟
وفاقی ریاست میں آئین اور سپریم کورٹ کی حیثیتبرطانوی نظام کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ بالادستی پارلیمنٹ کو حاصل ہے، اس مفروضے کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے جس پر بحث کا موقع نہیں ہے لیکن مختصراً اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ابتدا میں بادشاہ کو مطلق اختیارات حاصل تھے جو صدیوں کے قانونی ارتقا کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو منتقل ہوگئے جس کے بعد پارلیمنٹ کو مطلق اختیارات کا حامل مانا گیا۔
امریکا نے جب برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو ابتدا میں چند ریاستوں نے ایک ’نیم وفاقی‘ (confederation) طرز کی ترتیب اپنائی جس میں ہر ریاست کو خودمختاری حاصل تھی لیکن چند اہم امور، بالخصوص دفاع میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں۔ اس نظام کے پیچھے اصل مقصد برطانیہ عظمیٰ کی طاقت کا مقابلہ کرنا تھا۔ جلد معلوم ہوا کہ یہ نظام قابلِ عمل اور مقصد کے حصول کے لیے مفید نہیں ہے۔ چنانچہ اسے ’وفاقی‘ ریاست میں تبدیل کیا گیا، اس نئے نظام کی تشکیل میں ایک جانب الگ الگ ریاستوں کی اندرونی خودمختاری کو بھی مناسب اور ممکن حد تک محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف ان ریاستوں کے اجتماع سے وجود میں آنے والی ’وفاقی ریاست‘ کو دفاع اور دیگر متعلقہ امور کے لیے مناسب اختیارات بھی دیے گئے۔ ان دوطرفہ مصالح کے تحفظ کے لیے ان ریاستوں نے آپس میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کرکے اپنی آزادی پر کچھ قدغن قبول کیے اور ’وفاق‘ کے لیے کچھ اختیارات مان لیے۔ اس تحریری معاہدے کو ’آئین‘ (Constitution) کہا گیا۔
اس آئین/تحریری معاہدے کے ذریعے وفاق اور اس کی ’اکائیوں‘ (federating units) کے درمیان قانون سازی کے اختیارات تقسیم کیے گئے اور پھر حکومت کی تین شاخوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات الگ کیے گئے۔ اس نظام میں بالادستی مقننہ کے بجائے اس تحریری معاہدے یعنی آئین کے لیے تسلیم کی گئی جس کے نتیجے میں یہ وفاقی ریاست وجود میں آئی۔
اس آئین کی تعبیر و تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے لیے مان لیا گیا، اسی تعبیر و تشریح کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اگر مقننہ یا انتظامیہ آئین میں مقررہ حدود سے تجاوز کرکے کوئی قانون بنائے یا کوئی انتظامی حکم جاری کرے تو اس قانون یا حکم کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ وہ حدود سے متجاوز (ultra vires) ہونے کی وجہ سے غیر آئینی ہوگا۔ یوں سپریم کورٹ کو ’آئین کے محافظ‘ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس حیثیت سے سپریم کورٹ کو مقننہ اور انتظامیہ کے افعال پر ’عدالتی نظرِ ثانی‘ (Judicial Review) کا حق مل گیا، اس حق کو استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ یا ریاستی اکائی کی سطح پر فیڈرل کورٹ، کسی قانون یا انتظامی حکم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
پاکستان کے قانونی نظام میں صورت حال کیا ہے؟ اس پر الگ بحث کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
wenews آئین امریکا انتظامیہ برطانیہ پاکستان سپریم کورٹ عدلیہ قانون مفہم مقننہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا انتظامیہ برطانیہ پاکستان سپریم کورٹ عدلیہ مفہم وی نیوز مقدمے کا فیصلہ کالعدم قرار سپریم کورٹ کا اختیار کے اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے قرار دیا قانون کے قانون کی قانون کا کا اطلاق قانون کو یہ ہے کہ کے ساتھ کی کوشش ہے لیکن ہوتا ہے جاتا ہے نہیں ہے کرتا ہے اس لیے کے بعد ہے اور کے لیے
پڑھیں:
چین اورتھائی لینڈ کے درمیان تعاون پر امریکہ کو مداخلت کا کوئی حق نہیں، چینی وزارت خارجہ
چین اورتھائی لینڈ کے درمیان تعاون پر امریکہ کو مداخلت کا کوئی حق نہیں، چینی وزارت خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 17 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نینگ نے پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے حالیہ اعلان پر تبصرہ کیا ، جس میں روبیو نے کہا تھا کہ وہ چینی باشندوں کی وطن واپسی کے تعاون میں شامل تھائی لینڈ کے متعلقہ افسران پر ویزا پابندیاں اور دیگر پابندیاں عائد کریں گے۔ ترجمان نے کہا کہ چین اور تھائی لینڈ کے درمیان اسمگلنگ سمیت دیگر سرحد پار غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں تعاون نہ صرف چین اور تھائی لینڈ کے قوانین کے مطابق ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی روایات کے بھی مطابق ہے، اور امریکہ کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
پیر کے روز ماؤ نینگ نے کہا کہ امریکہ اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے، جو دوہرے معیار اور مخالفین کو دبانے کی کوشش ہے۔ چین امریکہ کے انسانی حقوق کے بہانے سے سنکیانگ کے معاملات میں ہیرا پھیری کرنے، چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے اور چین اور دیگر ممالک کے درمیان معمول کے قانون نافذ کرنے کے تعاون میں رکاوٹ ڈالنے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ چین متعلقہ ممالک کے ساتھ مواصلات اور ہم آہنگی کو مضبوط کرے گا، چینی شہریوں کے قانونی حقوق و مفادات کا تحفظ کرے گا، اور بین الاقوامی قانون نافذ کرنے کے تعاون کو مضبوط بنائے گا۔