ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
مولانا محمد الیاس گھمن
اہل اسلام ایک خاندان کی مانند ہیں جن کے روحانی باپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آپ علیہ السلام کی ازواج مطہرات روحانی مائیں ہیں۔
اولاد کی اخلاقی ، علمی اور فکری تربیت میں والد کا کردار بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ماں کے کردار کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اہل اسلام کی ان عظیم ماؤں نے اپنے اقوال و افعال ، عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار سے امت کی تربیت کی ہے۔
انہی میں سے ایک عظیم المرتبت ، عظیم النسبت اورجلیل القدر ماں جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ۔
ولادت :
نبوت کے پانچویں سال شوال المکرم کے تقریباً آخری ایام میں آپ کی ولادت ہوئی۔
نام و نسب:
آپ کا نام عائشہ بنت ابو بکر صدیق۔لقب:صدیقہ ،حمیرا ہے جبکہ آپ کا قرآنی اعزاز‘‘ام المومنین’’ہے۔ والدہ کا نام ام رومان ہے۔
بچپن:
انسانی زندگی میں بچپن کا زمانہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے عموماً اس زمانے میں بچے یا تو سدھر جاتے ہیں یا پھر بگڑ جاتے ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن بہت خوشگوار گزرا ہے ، چاق وچوبند ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ صلاحیتوں نے آپ کی شخصیت کو خوب نکھارا۔
علم و ادب سے گہری وابستگی ، فطری حاضر جوابی ، ذکاوت و ذہانت ، مذہبی واقفیت اور غیر معمولی قوت حافظہ کی وجہ سے آپ دیگر اپنی ہم جولیوں سے ممتاز حیثیت رکھتی تھیں۔
حرمِ نبوت میں :
آپ رضی اللہ عنہا کی فضیلت و منقبت ہر لمحہ روبہ ترقی رہی۔ جہاں آنکھ کھولی وہ گھر صداقت کا گہوارہ تھا جہاں جا کر ازدواجی زندگی بسر کی وہاں نبوت کا بسیرا تھا۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پر ملال کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ آپ نکاح فرما لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کس سے؟ حضرت خولہ نے جواب دیا کہ اگر بیوہ سے شادی کے خواہش مند ہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہ موجود ہیں اور اگر کسی کنواری سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی عائشہ موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہ سے فرمایا کہ چلو تم بات کر دیکھو۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے لیے پیغام نکاح دیا ہے ام رومان بہت خوش ہوئیں اورکہنے لگیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتظار کر لینا چایئے،سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہیں سارا معاملہ بتایا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے منہ بولے بھائی ہیں اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہ ان کی بھتیجی ہوئی۔ بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے ؟
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرے دینی بھائی ہیں لہذا نکاح جائز ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سعادت پر لبیک کہا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نکاح کر دیا۔ نکاح کے کچھ عرصہ بعد تک آپ میکے میں رہیں۔ بالآخر ہجرت کے بعد آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئیں اور وہاں آپ کی رخصتی ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المومنین سے جو ازدواجی سلوک کا سبق امت کو دیا ہے ۔بالخصوص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نرمی شفقت اور تربیت کا برتاؤ وہ ہم سب کے قابل عمل نمونہ ہے۔
امام مسلم نے فضائل عائشہ رضی اللہ عنہا کے تحت اپنی صحیح میں حدیث ذکر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف لاتے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی سہیلوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیل رہی ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر سیدہ عائشہ کی چھوٹی چھوٹی سہیلیاں چھپ جاتیں اور گڑیوں کو بھی چھپا لیتیں۔ آپ لڑکیوں کو بلاتے اور حضرت عائشہ کے ساتھ کھیلنے کو کہتے۔
مشہور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‘‘ ازراہ محبت’’ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ دوڑ لگانے کو کہا چنانچہ جب دوڑ لگائی تو اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لیے از خود پیچھے رہ گئے اور سیدہ عائشہ پہلے پہنچ گئیں۔ ایک مرتبہ کسی سفر سے واپسی پر نبی کریم نے پھر دوڑ لگانے کا کہا اس بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقررہ جگہ تک جلدی پہنچ گئے اور فرمایا یہ ادلے کا بدلہ ہے۔ باہم خوش مزاجی کے ایسے واقعات ہیں کہ اگر ہمارے گھریلو نظام زندگی میں ان کو اپنا لیا جائے تو گھروں میں پروان پاتی رنجشیں ، کدورتیں اور نفرتیں اپنی موت آپ مر جائیں اور خوشیوں سے گھر جنت کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
درسگاہ نبوت میں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نور علم سے جن ہستیوں کوفیض یاب کیا ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی اور محبوبہ بیوی کو دنیا کی سلیقہ مندی ، آداب معاشرت ، تہذیب و شائستگی سے شناسا بھی کرایا اور کتاب و حکمت اورفقہ و اجتہاد سے بھی آشنا کرایا۔ معاشرتی زندگی میں باہمی برتاؤ کا طریقہ اور نجی زندگی میں فکر آخرت کی دولت بھی عطا فرمائی۔گھریلو زندگی میں سوکنوں سے حسن سلوک کا درس بھی دیا اور سوتیلی اولادوں سے محبت کا سبق بھی۔
عمدہ اوصاف:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمدہ اوصاف کی جھلک سیرت کی کتابوں سے چھلک رہی ہے۔ انتہاء درجے کی عبادت گزار تھیں چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے اٹھتے تو آپ رضی اللہ عنہا بھی اٹھتیں اور نماز تہجد ادا فرماتیں۔ چاشت کی نماز میں کبھی ناغہ نہ کرتیں۔اکثر روزہ سے ہوتیں۔ ایک دفعہ گرمیوں عرفہ کادن تھا آپ روزے سے تھیں گرمی اس قدر سخت تھی کہ بار بار سر پر پانی ڈالتیں آپ کے بھائی حضرت عبدالرحمان نے کہا جب اتنی گرمی تھی تو روزہ کیوں رکھا؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں بھلا یوم عرفہ کا روزہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں جبکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ عرفہ کا روزے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔حج کی پابند تھیں بہت کم ایسا ہوا کہ آپ نے حج نہ کیا ہو۔ آپ نے کثرت کے ساتھ غلاموں کو آزاد کیا۔ شرح بلوغ المرام میں ہے کہ آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ حاجت مندوں کا بہت خیال فرماتیں۔ مالی صدقہ کثرت سے دیتیں۔ فقراء اور مساکین کو بہت نوازتیں۔ ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھتیں۔
فضائل و مناقب:
مستدرک حاکم اور طبقات ابن سعد میں ہے، خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نو باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔
‘‘خواب میں فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش فرمائی، سات سال میں میرے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا، نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی ، امہات المومنین میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی، امہات المومنین میں سے صرف میرے بستر پر قرآن کریم نازل ہوتا، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے ، میرے حق میں قرآن کریم کی آیات اتریں ، میں نے جبرئیل امین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گودمیں سر رکھے وفات پائی۔ ’’
علمی کمالات:
جامع الترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی مشکل بات پیش آ جاتی تو ہم حضرت عائشہ سے رجوع کرتے وہ ہماری رہنمائی فرماتیں۔
مستدرک حاکم میں حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا فرمان موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والی ، لوگوں میں زیادہ علم رکھنے والی اور دینی معاملات میں سب سے بہتر رائے دینے والی تھیں۔
امام ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ سے بڑے بڑے صحابہ کرام دین کے بارے میں سوالات کرتے آپ ان کو جواب عنایت فرماتیں۔
امام زرقانی نے حاکم و طبرانی سے بسند صحیح نقل کیا ہے کہ عروہ بن زیبر رضی اللہ عنہ فرماتے قرآن ، علم میراث ، حلال و حرام ، فقہ و اجتہاد ، شعر و ادب ، حکمت و طب، تاریخ عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔
امام سخاوی رحمہ اللہ نے فتخ المغیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرویات کی تعداد 2210 بتا کر کے آپ کو کثیرالروایۃ صحابہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
پاکدامنی کی قرآنی شہادت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے زندگی کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جو حوادثات کہلاتے ہیں۔ دشمنان اسلام منافقین نے آپ کی عفت پاکدامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عرف عام میں واقعہ افک کہا جاتا ہے یہ بہت دلخراش سانحہ تھا کئی دنوں کے صبر واستقلال کے بعد بالآخر اللہ رب العزت نے آپ کی پاکدامنی پر قرآنی مہر ثبت کردی۔ جو کہ قرآن کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
وفات:
58 ہجری رمضان المبارک کی17 تاریخ کو آپ سخت بیمار ہوئیں امام ابن سعد نے لکھا ہے کہ کوئی خیریت دریافت کرنے آتا تو فرماتیں کہ اچھی ہوں۔ عیادت کرنے والے بشارتیں سناتے تو جواب میں کہتیں: اے کاش! میں پتھر ہوتی۔ کبھی فرماتیں کہ اے کاش! میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی۔
نماز وتر کی ادائیگی کے بعد آپ اس جہاں سے اس جہاں کو کوچ فرما گئیں جس کی خواہش سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللھم الرفیق الاعلی کے الفاظ سے فرمائی۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام حاکم تھے انہوں نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بھانجوں اور بھتیجوں قاسم بن محمد بن ابو بکر ، عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابو بکر ، عبداللہ بن عتیق ، عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زوجہ اور امت محمدیہ کے مومنین کی ماں کو قبر کی پاتال میں اتارا۔ رضی اللہ عنہا
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہا آپ رضی اللہ عنہ ام المومنین زندگی میں فرمایا کہ حضرت خولہ کے ساتھ کے بعد میں ہے
پڑھیں:
اقامت دین کی جدوجہد میں رمضان کا کردار
(امیر تنظیم اسلامی پاکستان)
رمضان المبارک کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘
رمضان کا مہینہ صبر، برداشت ، جھیلنے کا مہینہ ہے۔ افطار سے ایک گھنٹہ پہلے یہ عارضی مشقتیں کچھ زیادہ ہو جاتی ہیں، ٹریفک میں بھی ،گھر میں بھی ،کچن میں بھی، یہ مشقتیں صبر سے جھیلنا ہوتی ہیں تاکہ راہ خدا میں جب مشقتیں آئیں تو ہم اِنہیں بھی جھیلنے کے قابل ہو سکیں۔ سورۃ البقرہ آیت :193میں ارشاد ربانی ہے’’ اور لڑو اْن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘
یہ آج ہماری غلط فہمی ہے کہ رمضان کے بعد چاند رات کو فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ آج ہمارا تصور ہے کہ جمعہ کی دورکعت پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور اِس کے بعد خود کو فارغ سمجھتے ہیں۔ یہ آج ہمارا تصور ہے کہ نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ پر بھی چلے گئے لیکن سود اور جوا بھی نہ چھوڑا۔ بے پردگی، فلمیں ڈرامے اورناچ گانے نہ چھوٹیں۔ یہ بدقسمتی سے آج ہمارا تصور ہے کہ اسلام چند عبادات کا مجموعہ ہے۔ حالانکہ اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ غلبہ چاہتا ہے۔
اِس غلبہ کے لیے، اِس دین کے قیام کے لیے قتال کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے اور یاد رہے قتال بغیر تیاری اور تربیت کے نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ سن 2 ہجری میں روزے کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اور اْسی سال 17 رمضان کو جنگ بدر ہوئی۔ یہ ایک طرح سے حزب اللہ کے لیے تربیت اور تیاری کا معاملہ تھا کہ مشقت سے گزرنے کے بعد استقامت کا مظاہرہ کرنا سیکھ لیا جائے۔ اس پوری بحث کو سامنے رکھ کر ہمیں پوری دلجمعی کے ساتھ روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہٰی تھا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے حضور نبی اکرمﷺ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی ’’اے اللہ ! یہ قریش ہیں، اپنے سامانِ غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں ۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آ جائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے ۔
اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ قتل (شہید) ہو گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا ۔‘‘ دعا کے دوران آپﷺ کی داڑھی مبارک آنسوؤ ں سے بھیگی اور ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ آپﷺ کے کندھو ں پر پڑی چادر بار بار نیچے گر جاتی، حضرت ابوبکر صدیقؓ ڈھارس بندھاتے کہ اللہ آپﷺ کو تنہا نہیں چھوڑے گا ، ضرور مدد فرمائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی۔
اسلام نے معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مختلف ضابطے مقرر کیے ہیں اور غریبو ں اور مفلسوں کی دستگیری کے لیے امیروں کے ہاتھو ں میں زکوٰۃ و صدقات کے قلمدان تھما دیئے مگر کسی کی جیب سے پیسہ اْس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اْس کے دل میں رحم کا جذبہ نہ پیدا ہو اور یہ احساس اْس شخص کو کس طرح ہو گا جو ہمیشہ مختلف انواع واقسام کی نعمتوں اور لذتوں میں زندگی گزارتا ہو جو ہمیشہ عیش میں رہتا ہو وہ غربت کی تلخیوں کا اندازہ نہیں کر سکتا ، جو عمر بھر پیٹ بھر کر کھا تا رہا ہو وہ کسی غریب کی بھوک اور پیاس کا احساس نہیں کر سکتا اور جب تک کسی کی تکلیف کا احساس نہیں ہو گا، اْس کی مدد کرنے کا جذبہ دل میں پیدا نہیں ہو گا۔
نفسیاتی طور پر آدمی کسی کی تکلیف کا اْس وقت احساس کرتا ہے جب وہ تکلیف خود اْس پرگزرے۔ اسلام نے تمام مسلمانوں پر روز ے فرض کر دیئے تاکہ اغنیاء جب روزے کی جسمانی سختی سے دوچا ر ہوں تو اْنہیں احسا س ہوکہ ہمیں ایک دن کھانا نہ ملنے سے اتنی تکلیف ہوئی تو جو پورے سال ایسے مصائب کا سامنا کرتے ہیں، اْن کا کیا عالم ہو گا ؟ یہ احساس اغنیاء کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرے گا اور وہ غریبو ں کی مدد پر آمادہ ہونگے ۔
قارئین ہر چیز کا ایک مقصد ہوتا ہے جب تک کوئی شئے اپنے مقصد کے ساتھ ہو اْسے مفید سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی چیز اپنے مقصد سے خالی ہو جائے تو وہ لغو اور بے کا ر ہو جاتی ہے۔
سورۃ البقرۃ کے 23 ویں رکوع کی آیت 183میں روزہ کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ’’ اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘ عرب زمانہ جاہلیت میں لوٹ مار اور جنگ کے لیے تیز رفتار گھوڑے استعمال کرتے تھے اور اْن گھوڑوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی، اْنہیں کئی کئی دن تک بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا اور تیررفتار آندھیوں کی طرف منہ کر کے کھڑا رکھا جاتا تھا تاکہ اْن کے اندر قوتِ برداشت پیدا ہو اور مشکل وقت میں وہ ساتھ دے سکیں ۔ اِس سارے عمل کو عرب ’’صوم الفرس‘‘ کہتے تھے یعنی گھوڑے کا روزہ ۔
وہیں سے صوم کا لفظ اہل ایمان کے روزہ کے لیے بھی استعمال ہوا کہ تمہیں بھی روزے رکھوائے جا رہے ہیں تاکہ تمہاری بھی قوت برداشت بڑھے، جب تمہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تم اْس کے لیے تیار ہو ، تم میدان میں کھڑے رہو اور ڈٹ جاؤ ۔ اِس اْمت کی یہ سب تیاری اور تربیت کس لیے کی گئی ۔ سورہ البقرۃ :آیت 143میں فرمایا، ترجمہ:’’ اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اْمت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولﷺ ‘ تم پر گواہ ہو ۔‘‘ سورہ البقرہ:آیت 153 میں فرمایا گیا؛ ترجمہ :’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘ اسی طرح رمضان کے روزے اہل ایمان پر فرض کیے گئے تاکہ ان کے ذریعے صبر ، حوصلہ ، برداشت کی قوت مسلمانوں میں پیدا ہو اور وہ اقامت دین کی جدوجہد میں استقامت کا مظاہرہ کر سکیں ۔ اِس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے بدرکا معرکہ بھی رمضان میں سجا تھا ، فتح مکہ کا معاملہ بھی رمضان میں ہوا تھا اور قرآن بھی رمضان میں ہی نازل ہوا تھا ۔
اِس اعتبار سے قرآن ، رمضان، اقامت دین کی جدوجہد اور سیرت محمد مصطفیٰﷺ کا خاص تعلق ہے جس میں سبق یہ ہے کہ یہ اْمت اپنے مقصد قیام کی تکمیل کے لیے سیرت مصطفیٰﷺ سے رہنمائی حاصل کرے، قرآن کے ذریعے اپنی روحانی قوت بڑھائے اور روزہ کے ذریعے اپنے اندر صبر ، تقویٰ ، برداشت کی قوت پیدا کرے اور پھر انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی پیش کرے ۔ اس کام کے لیے اِس اْمّت کوکھڑا کیا گیا ۔ روزے کا ایک حاصل روح کی بیداری ہے ۔
روح میں اللہ کے ساتھ تعلق کی تڑپ ہے۔ روزے کی حالت میں یہ کیفیت بندے کو میسر آتی ہے تو بندے کواللہ کا قرب ملتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اِس کی جزا ہوں‘‘ روزے کا سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ بندے کو اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں تو اللہ تعالیٰ شرط بتا رہا ہے: ’’پس اْنہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں‘‘ سورۃ البقرۃ آیت 152 میں ہی فرمایا ؛ ترجمہ : ’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرے تو ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہو گا یعنی تقویٰ کی راہ پر گامزن ہونا ہو گا۔ روزے کا بڑا حاصل روح کی بیداری و ترقی ہے جس کا حاصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قرب ہے اوراْس قرب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بندے کے قریب ہو جائے اور بندہ اللہ کے قریب ہو جائے۔
اللہ تو ویسے ہی بندے کے قریب ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت 186 میں فرمایاگیا ؛ ترجمہ :’’ اور (اے نبی ? !) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں ۔ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کتناقریب ہے؟ سورۃ ق آیت 16میں آتا ہے ؛ ترجمہ: ’’ اور ہم تو اْس سے اْس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ یعنی ہم جتنا اپنے آپ سے قریب ہیں اِس سے زیادہ ہمارا رب ہم سے قریب ہے ۔ البتہ اللہ اپنی شان کے مطابق قریب ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے ۔
روزے کا حاصل تقویٰ ہے لیکن اگر ہم میں سے کوئی نمازیں بھی ضائع کر رہا ہے، جوا،سٹہ، بے پردگی،کرپشن ، چوری ، ڈاکہ ، سب برائیاں جاری ہیں اور آجکل تو لوگ بغیر کسی شرعی عذر کے روزے بھی چھوڑ رہے ہیں، ان سب برائیوں کے بعد بھی ہم چاہیں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول کرے تو یہ مشکل ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لیے ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہوگا۔ اللہ کے قرب کا حاصل یہ ہے کہ بندہ دعا کرے تو اللہ اْسے قبول فرمائے گا لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ پہلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فرمانبرداری کی روش کی طرف آئے اورنافرمانی سے خود کو بچائے۔
ایک حدیث مبارک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ راوی ہیں ، فرماتے ہیں :’’نبی کریمﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپﷺ کی سخاوت اْس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیلؑ آپﷺ سے رمضان میں ملاقات کرتے ، جبرائیلؑ نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملاقات کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریمﷺ جبرائیلؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیلؑ آپﷺ سے ملنے لگتے تو آپﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث مبارک سے دوباتیں معلوم ہوئیں : اول ماہ رمضان میں قرآن کا پڑھنا پڑھانا ‘ یہ حضورﷺ اور جبرائیلؑ کا بھی معمول تھا۔ اسی کی توجہ ہم دلاتے ہیں کہ رمضان کی راتیں قرآن کے ساتھ بسرکریں۔ دوم سخاوت کا معاملہ ! یہ اللہ کے رسولﷺ کے معمولات میں شامل تھا لیکن ماہ رمضان میں آپﷺ کی سخاوت میں تیز رفتار آندھی کی سی تیزی آ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقامِ رضا روزہ کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے۔ رب کا اپنے بند ے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی با ت ہے کہ اس کے مقابلہ میں باقی سب نعمتیں کم دکھائی دیتی ہیں ، روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر وجزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑا گیا کہ اس کی رضا حد وحساب کے تعین سے ماوراء ہے ۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات بندے کی تلاش وجستجو اور طلب کا محور تھی، اس بندے کی حیثیت محب اور طالب کی تھی ، لیکن جب وہ خود ذات خداوندی کا محبوب و مطلوب بن گیا تو اْسے خدا کے پسندیدہ ہونے کا مقام نصیب ہوگیا، اِس مقام پر اللہ تعالیٰ کی رضا قدم بہ قدم بندے کے شامل حال ہو گئی اور اْسے زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہیں، روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاکیزگی اورصفائی دینے کے لیے روزہ سے بہتر کوئی عمل نہیں ۔
روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں احساس ہو کہ بھوک اور پیاس انسان کو ستاتی ہے۔ عام طور پر ہمارے پیٹ بھرے ہوتے ہیں تو ہمیں مفلسوں کی تکلیف کا اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں، روزے میں اس کا احساس ہوتا ہے اور انسان کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ زکوٰۃ فرض ہے۔ اہل علم سے مسائل معلوم کر کے ٹھیک ٹھیک زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے لیکن زکوٰۃ کافی نہیں ہے یہ توکم ازکم تقاضا ہے۔
زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ ، اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے تھے کہ کبھی اتنا مال جمع ہوا ہی نہیں کہ زکوٰۃ دینے کی نوبت آئی ہو۔ آج ہمارے ملک میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔
کتنے ہی زکوٰۃ دینے والے ،اب زکوٰۃ لینے والے ہو گئے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اس اعتبار سے ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اللہ نے ہمیں جو عطا کیا ہے، اْس میں سے مخلوق خدا پرخرچ کرنے کی کوشش کرے ۔ لیکن یاد رہے کہ حلال کمائی سے خرچ کریں گے تو اْس کا اجر ملے گا۔ حرام مال اللہ کے ہاں قبول نہیں ۔ اپنے قریبی لوگوں میں دیکھیں، اْن کو پہلے دیں۔ خاص طور پر رشتہ داروں کو دینے کا دْہرا اجر ہے۔ ایک صلہ رحمی کا ثواب اور ایک اس کی مدد کرنے کا ثواب ۔