Express News:
2025-03-19@06:21:28 GMT

زرعی انقلاب، ملکی خوشحالی کی منزل

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے صوبائی حکومتوں، نجی شعبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مل کر پورے ملک میں فارم میکانائزیشن کو فروغ دینے کی ہدایات دی ہیں۔ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے امور پر جائزہ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، حکومت زرعی شعبے کی ترقی اور زرعی پیداوار بڑھانے کے حوالے تمام سہولیات مہیا کرے گی، زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ملک بھر سے نوجوان زرعی محققین کی خدمات حاصل کی جائیں۔

موجودہ معاشی صورتِ حال میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زرعی درآمدات، پٹرولیم درآمدات کے لگ بھگ ہونے کو ہیں تو ان حالات میں زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کا جائزہ لینا بنیادی ضرورت بن جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کا زرعی شعبہ بانجھ اور زرعی رقبہ قابلِ کاشت نہیں رہا یا پھر جدید وسائل کے نامناسب استعمال کی وجہ سے ہم زرعی پسماندگی کا شکار ہیں؟ ہم بے پناہ زرعی وسائل کو بروئے کار لا کر نہ صرف زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ زرعی اجناس برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔

 اس وقت معاشی اور زرعی ترقی کے لیے سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے تعاون سے متعدد زرعی منصوبے زیرغور ہیں جو ملک کی برآمدات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

ان شعبوں میں زراعت، پھل، سبزیاں، مال مویشی، پولٹری، ماہی گیری اور شمسی توانائی کا استعمال شامل ہیں۔ زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ ٹیوب ویلز سسٹم بھی زیرزمین میٹھے پانی کے ضایع کا سبب بن رہاہے۔ عمدہ بیج میسر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 پاکستان میں زیتون کی کاشت بھی ہورہی ہے ، کاشتکاروں کی شمولیت سے ہم پیوند کاری میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ جنگلی زیتون کے علاوہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں زیتون کے باغات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً پوٹھو ہارکا علاقہ زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں قرار دیا جا چکا ہے۔ چولستان کا علاقہ انگورکی کاشت کے لیے موزوں قرار دیا جا چکا ہے، جہاں انگورکی کاشت کی حوصلہ افزائی کر کے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ جنوبی پنجاب کے مقامی لوگوں کی سالانہ آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔

زرعی ادویات اورکیمیائی مادوں کی زیادہ قیمتوں کے باعث فصلوں کی پیداوار مہنگی ہے،کیونکہ پاکستان میں کوئی کیمیکل یا دوائی نہیں بنتی، جب کہ بھارت میں کئی ادویات تیار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت اگر ٹیکس ہی ختم کردے تو ان ادویات کی قیمت 30 فیصد تک کم ہو جائے گی جس کے بعد پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

اسی طرح پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے گندم کی کھپت اور پیداوار میں فرق بڑھ رہا ہے۔ زراعت کے شعبے پر عدم توجہی اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس قلت کے اسباب ہیں لیکن گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی سطح پر ناقص اسٹوریج میں 15.

20 فیصد گندم ضایع ہوتی ہے ۔ دوسری طرف چھوٹے کاشتکاروں کے لیے گندم کی کاشت منافع بخش نہیں رہتی۔ گندم کی کاشت کے اہم ترین عناصر کھاد اور بیج ہوتے ہیں لیکن کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

 پاکستان میں زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور ترقی کے لیے درست میکانائزیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اہم ہوگا، چین میں فی کس ملکیتی رقبہ دنیا میں سب سے کم، محض اڑھائی ایکڑ ہے لیکن وہاں ویلیو ایڈیشن کی مدد سے کاشت کاروں کی سالانہ آمدن بڑھائی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے وسیع تر امکانات موجود ہیں کیونکہ یہاں دیہی افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ زراعت میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کرکاشت کاروں کو نہ صرف خسارے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ بے روزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

کچھ اسی طرح کی صورت حال لائیو اسٹاک کے شعبے کی ہے۔ پاکستان میں دودھ کی کل پیداوار میں بھینس کے دودھ کا حصہ آدھے سے زیادہ ہے۔ خالص اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی مناسب دیکھ بھال سے دودھ کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ساہیوال گائے کی اوسط پیداوار اور اس کی پیداواری صلاحیت کا فرق بھی بہت زیادہ ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ نیلی راوی اور ساہیوال گائے سمیت تمام دیسی نسلوں کا دودھ صحت بخش مانا جا رہا ہے۔

پاکستان میں نیلی راوی اور ساہیوال گائے کی پیداوار بڑھا کر یورپی ملکوں میں دودھ کی برآمد کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی درآمدات میں زرعی مصنوعات کا حصہ 10ارب ڈالر ہے، اگر زراعت لائیو اسٹاک فشریزکو ترقی دی جائے تو اس میں سے 8 سے 9ارب ڈالر باآسانی بچائے جاسکتے ہیں جب کہ قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھتے ہوئے افراط زر کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ سے دیہی لوگوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ خرگوش بھی انتہائی کم لاگت پر پلنے والا جانور ہے۔ یہ انتہائی تیزی سے افزائش کرتا ہے لٰہذا خرگوش فارمنگ سے صنعتی خام مال بھی پیدا ہوگا جس کی ویلیو ایڈیشن کر کے صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فش فارمنگ میں بھی غیر روایتی طریقوں کی مدد سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

خاص طور پر ایسے زرعی علاقے جہاں نہری پانی دستیاب نہیں ہے اور زیر زمین پانی کڑوا ہے، وہاں پر شرمپ فارمنگ کی جا سکتی ہے۔ شرمپ کی بین الاقوامی منڈی میں بہت مانگ ہے جسے درآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر رہو مچھلی کی فارمنگ ہو رہی ہے جس کی پیداواری لاگت کافی زیادہ ہے، لیکن مچھلیوں کیکئی اقسام ایسی ہیں، جن کی پیداواری لاگت بہت کم ہے ،ان کی افزائش بھی تیزی سے ہوتی ہے اور یہ مچھلیوں کا گوشت بھی خوش ذائقہ ہے ، ان کا گوشت بھی آرگینک ہوتا ہے لیکن ابتدائی طور پر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوگی۔

 زرعی شعبے میں تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) سب سے زیادہ نظر انداز دکھائی دیتی ہے اور پاکستان میں زراعت کا زیادہ تر انحصار ’غیر ہنرمند مزدوروں‘ پر ہے، کیونکہ ہمارا کاشتکار جدید زرعی ٹیکنالوجی یا زراعت کے جدید سائنسی طریقوں کو سمجھنے اور اِن سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے کسانوں کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ مسابقتی قیمت پر اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار نہیں کر پاتے۔

 فوڈ سیکیورٹی، زرعی ترقی، دیہی علاقوں کی روزی روٹی اور شہری علاقوں کی طرف ہجرت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے حوالے سے لینڈ ڈویلپرز یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ذریعے زرعی اراضی کو تبدیل کرنے کے ممکنہ مضمرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ صوبوں کے درمیان زرعی اراضی کو ہاؤسنگ سوسائٹیز یا انڈسٹریل اسٹیٹس میں تبدیل کرنے کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین متعارف کرانے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔

وطن عزیز میں زرعی زمینوں کو ہموار کر کے تقریباً 50 فیصد تک پانی بچایا جا سکتا ہے، ہموار زمینوں سے پیداوار بھی 10 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ زمین کی ملچنگ، بیڈ کاشت اور ڈرپ آبپاشی جیسے جدید ذرایع سے بھی 60 فیصد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ زراعت ہی ایسا سیکٹر ہے جو پاکستان کوخوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ زراعت کے بل بوتے پر خوراک کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے، جنگلات بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں، پالتو مویشی بھی زراعت سے وابستہ ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو زراعت ترقی کرے گی، اسی رفتار سے گائے، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں، اونٹ اور دیگر پالتو جانوروں اور لکڑی کی بہتات ہوگی۔ ملک میں خوراک وافر ہوگی، دودھ،گھی، گوشت اور انڈوں کی فراوانی ہوجائے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زرعی پیداوار پیداوار میں کی پیداواری پاکستان میں ترقی کے لیے کیا جا سکتا کی پیداوار جا سکتا ہے جاسکتا ہے ا سکتا ہے اضافہ کی اور زرعی اضافہ ہو فیصد تک گندم کی تیزی سے میں بھی کی کاشت کی ترقی شعبے کی

پڑھیں:

ملک ہے تو ہم ہیں، ملکی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں: آرمی چیف سید عاصم منیر کا قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب

اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں۔

قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب میں  آرمی چیف سید عاصم منیر نے کہا کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، ملکی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں۔ علما ءسے درخواست ہے وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔ ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں، یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا ءکی جنگ ہے۔پائیدار استحکام کےلیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا، ہم کو بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔

رن وے سے اڑان بھرتے ہی طیارہ سمندر میں جا گرا، ہلاکتیں

 آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے یہ بھی کہا کہ ہم کب تک ایک سافٹ اسٹیٹ کے طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے، ہم گورننس کے گیپس کو کب تک افواج پاکستان اور شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں، پاکستان کے تحفظ کےلیے یک زبان ہوکر اپنی سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک بیانیہ اپنانا ہوگا۔

آرمی چیف نے کہا کہ جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشت گردوں کے ذریعے کمزور کرسکتے ہیں آج کا دن ان کو پیغام دیتاہے کہ ہم متحد ہوکر ناصرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولت کاروں کو بھی ناکام کریں گے۔ہمیں اللّٰہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے جو کچھ بھی ہو جائے انشاءاللّٰہ ہم کامیاب ہوں گے۔

 ٹرمپ اور پیوٹن کی ایک گھنٹہ گفتگو، اہم تفصیلات سامنے آگئیں

مزید :

متعلقہ مضامین

  • زرعی ٹیکس اور جاگیردار
  • ملک ہے تو ہم ہیں، ملکی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں: آرمی چیف سید عاصم منیر کا قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب
  • ملکی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا، تحریک یا شخصیت نہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر
  • سندھ کےزرعی سائنس دانوں نے کم پانی پر زیادہ کاشت والی مزید 22 اجناس تیار کرلیں
  • سندھ کے سائنسدانوں کا کارنامہ، کم پانی پر زیادہ پیداوار والی 22 نئی اجناس تیار
  • سندھ میں کم پانی پر زیادہ پیداوار والی نئی اجناس کاشت کرنے کی منظوری
  • پاکستانی محقق کا پاکستانی فصلوں کی پیداوار میں بہتری کے لئے چینی ٹیکنالوجی کے استعمال کا عزم
  • خوارج پاکستان میں ترقی نہیں ہونے دینا چاہتے، گورنر سندھ
  • ایک جماعت نے سیاست کو ملکی مفادات سے اوپر رکھا ہوا ہے، احسن اقبال