حضرت امام علیؑ کی شہادت کے سیاسی محرکات۔۔۔
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔" تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
کیا خوارج کا ظہور خواہ مخواہ ہوگیا تھا؟ کیا وہ قوتیں جو خوارج کی تشکیل میں ملوث تھیں اور جنہوں نے ان سے مسلسل سیاسی اور نظریاتی فائدہ اٹھایا، وہ امام علیؑ کے قتل سے لا عِلم تھیں۔؟ کیا قتلِ امام علیؑ کا الزام خوارج پر عائد کرنا اور اس کے سیاسی محرک کو بھول جانا دانشمندی ہے۔؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ خوارج کا نظریہ اور ان کا ظہور کس سیاسی و تاریخی پس منظر میں ہوا؟ یہ سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں صرف سطحی تجزیے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ گہرائی سے اس تمام معاملے کی تحلیل کرنی چاہیئے۔ یہ کہنا کہ خوارج کو صرف طالبان یا داعش کی طرح بدنام کیا گیا، یہ ایک معقول تجزیے کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا کہ ماضی میں ان گروپوں کے ظہور کے اسباب کیا تھے اور ان کے سیاسی و مذہبی بیانیے کو کس طرح مختلف حالات میں "بیانیہ سازی" (narrative building) کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔
خوارج کے سیاسی تناظر میں جب ہم نبی اکرمﷺ کے غزوات کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہدِ نبویؐ میں کفر کے نمائندہ قائدین میں سب سے نمایاں شخصیت ابو سفیان کی تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ فتح مکہ کے روز ابو سفیان کے لیے سوائے بیعتِ رسولﷺ کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ اس بات کو "سیاسی ضروریات" (political necessities) کے دائرے میں سمجھا جا سکتا ہے، جہاں قریش کے ایک طاقتور مگر مغلوب سردار نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کی بقا کے لیے بانی اسلامؐ کے ساتھ ایک "تاریخی مفاہمت" (historical compromise) کی۔ آگے چل کر تاریخ اسلام میں یہ مفاہمت مسلمانوں کے درمیان ایک سیاسی تبدیلی کا تسلسل ثابت ہوئی۔ معتبر منابع کے مطابق خلیفہ اوّل کے دور میں ابو سفیان نے امام علیؑ کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قریش کے مغلوب شُدہ سردار کی طرف سے اقتدارکے حصول کے لیے سازش اسی دور میں شروع ہوچکی تھی، جسے "سیاسی سازش" (political conspiracy) کہا جاتا ہے۔
اسی طرح، خلیفہ دوم کے قتل کی واردات میں ابو لولو فیروز کا کردار بھی اہم ہے۔ ابو لولو نامی شخص تو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ خود آلِ ابوسفیان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا۔ یہ شخص دراصل ایک "پراکسی" (proxy) تھا، جس کا استعمال خلیفہ دوّم کے خلاف سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا گیا۔ اس کی کہانی میں ہمیں واضح طور پر "پولٹیکل گیمز" (political games) کی جھلک ملتی ہے۔ بظاہر وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحت خلیفہ دوم پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس کے پیچھے دراصل مغیرہ بن شعبہ اور بنو امیہ کے مفادات کارفرما تھے۔ صاحبانِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت تو خلیفہ دوّم نے عجمی حضرات کے مدینے میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ پابندی کے اس دور میں ابو لولو کو مدینے میں رہنے کی خصوصی اجازت مغیرہ بن شعبہ کی سفارش پر ہی ملی تھی۔ اس قتل کو "پریکٹیکل اسٹرٹیجی" (practical strategy) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے اس وقت کی رائج خلافت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔
اسی طرح، خلیفہ سوم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کو ہم "سوشل ڈسکانٹینٹ" (social discontent) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جو کہ ایک وسیع تر سیاسی عمل کا حصہ تھی۔ اس بغاوت میں مروان بن حکم اور بنو امیہ کے سیاسی مفادات نظر آتے ہیں، جو اسلامی خلافت کو اپنے قابو میں لانے کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں امام علیؑ کے اقتدار کے آغاز کو اُس وقت کے "سیاسی جغرافیہ" (political geography) کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں کے مفادات آپس میں متصادم تھے۔ یہ تصادم واضح کرتا ہے کہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا ایک "باہدف حکمت عملی" (strategic agenda) تھا اور اس تبدیلی کے پیچھے کئی سالوں کی "منظم سیاسی تدابیر" (organized political maneuvering) کارفرما تھیں۔
جب امام علیؑ کو شہید کیا گیا تو ان کے قتل میں جو لوگ شامل تھے، وہ صرف خوارج یا ابن ملجم جیسے افراد تک محدود نہیں تھے۔ یہ ایک "سیاسی سازش" (political conspiracy) تھی، جس میں ماضی کی متصادم سیاسی طاقتوں کے مشترکہ مفادات کا حصول شامل تھا۔ ان سب کا مشترکہ مقصد علی ابن ابیطالبؑ کو راستے سے ہٹانا تھا۔ منصوبہ ساز اپنے نقشے کے مطابق جانتے تھے کہ اس قتل کے بعد اسلامی حکومت درخت پر کسی پکے ہوئے پھل کی مانند کس کی گود میں گرے گی۔ اس کے بعد ہم اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں کہ خوارج یا ابن ملجم نے اسلامی حکومت کے درخت پر فقط کلہاڑا چلایا، لیکن اس کا پھل نہ انہوں نے چکھا اور نہ ہی نقشے کے مطابق اُنہیں اس پھل میں سے کچھ چکھایا جانا تھا۔ پس خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا کی ایک گہری حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امام علیؑ کے قتل کا نقشہ ابن ملجم اور خوارج کا تیار کردہ نہیں تھا بلکہ خوارج تو خود کسی اور کے نقشے کے مطابق وجود میں آئے تھے۔ خوارج نے تو اپنے وجود میں لائے جانے کے ہدف کو پورا کیا اور یوں شہادتِ امام علی ؑ کے بعد اصلی قاتل، اسلامی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) اور "تاریخی حقیقت" (historical truth) کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ان اصل قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہم نہ صرف امام علیؑ کے قتل کے محرکات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس سے جڑے وسیع تر سیاسی مفادات اور اثرات کا آج بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ امام علیؑ کے قتل کے بعد جو قوتیں اقتدار میں آئیں، ان کی سیاست اور حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ ان کی تدابیر نے عام افراد کیلئے اس قتل کو سمجھنا مزید سنگین اور مشکل بنا دیا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ ماضی کے خوارج ہوں یا آج کے خوارج جو کہ ہمیشہ ایسی کاروائیوں کا الزام اپنے سر لیتے ہیں اور یہ دراصل طاقتور گروہوں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔
کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے خطاب کو ہم "فلسفہ آزادی" (philosophy of freedom) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں امام حسینؑ نے ابو سفیان کے پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اگر تم دین سے بے بہرہ ہو اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو۔" اس جملے میں امام حسینؑ نے نہ صرف مذہبی آزادی کی بات کی، بلکہ انسانیت کے اس بنیادی اصول کو بھی اجاگر کیا، جو سیاسی اقتدار کے غلط استعمال کو چیلنج کرتا ہے۔ امام حسینؑ نے ایک "سیاسی تجزیہ" (political critique) پیش کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کچھ سیاسی حکام نے اسلامی تعلیمات کو اپنی طاقت کے لیے مسخ کر دیا ہے۔ حضرت زینبؑ کا خطاب بھی کربلا کے "سیاسی بیانیے" (political discourse) کا حصہ تھا، جس میں انہوں نے یزید کے دربار میں ابو سفیان اور اس کے خاندان کے منفی سیاسی کردار کو بے نقاب کیا۔
حضرت زینبؑ نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! تم نے اپنی مستورات کو پردے میں بٹھا رکھا ہے، جبکہ رسول اللہ کی بیٹیوں کو بے پردہ در بدر پھرا رہے ہو۔" یہ جملے ایک "سیاسی تفصیل" (political exposition) کے متقاضی ہیں، جو نہ صرف فتح مکّہ کے روز ابو سفیان کی بیعت کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ اس امر کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ اس دور میں مذہب اور سیاست کو کس طرح گمراہ کن مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ان تمام حقائق کو غیر جانبدار ہو کر جاننا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ان حقائق کو کسی اور نے نہیں بلکہ ماضی کی مقتدر نام نہاد اسلامی قوّتوں نے ہی نسل در نسل اقتدار کے مرکز پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ رعایا سے چھپایا ہے۔
یہ اسی صدیوں پر محیط منظّم حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج پورے جہانِ اسلام میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایک ایسی جامع الشرائط شخصیت نہیں ہے کہ جس پر ساری دنیا کے مسلمان بطورِ ملت جمع ہونے کیلئے سوچیں۔ گویا 14 سو سال پہلے ہی حضرت امام علی ؑ کو شہید کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ خلیفہ سوّم کے قتل کے وقت بھی ایسا ہی انتشار وجود میں آیا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں نے اس خلا کو حضرت امام علی ؑ کی بیعت کرکے پُر کیا تھا۔ عقلِ سلیم کا یہ فیصلہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی اس خلا کو صرف اِس موجودہ زمانے کا علیؑ ہی پُر کرسکتا ہے۔ چودہ سو سال کے بعد بھی ۱۹ رمضان المبارک کی شب مسلمانوں کی عقل پر دستک دیتی ہے کہ مسلمانو! اس زمانے کا خلا پُر کرنے کیلئے اس دور کا علیؑ کون ہے۔؟
کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے زمانے کے علی اور علی کے دل کے دل کے زخموں حکمت عملی ابو سفیان کے دل کے د کے سیاسی امام علی سکتے ہیں کے مطابق کہ خوارج ماضی کی کرتا ہے کیا گیا کے قتل اس بات ہیں کہ کے بعد قتل کے کے لیے کو بھی کا علی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے بغیر حکومت دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکتی، بیرسٹر گوہر
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا دعویٰ ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکتی، ملک میں 2024ء کے بعد دہشت گردی بڑھی۔
خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کوئی ایک سیاسی جماعت دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، پی ٹی آئی کے بغیر حکومت دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ آج تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا، حالات جیسے بھی ہوں ملک سب سے پہلے ہوتا ہے، 2024ء کے بعد ملک میں دہشت گردی بڑھی ہے۔