جرمن پارلیمان میں قرضوں سے متعلق قانون میں اصلاحات منظور
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2025ء) جرمن کی پارلیمان کے ایوان زیریں نے دفاعی اخراجات میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور اقدامات کے لیے 500 بلین یورو مختص کرنے کے لیے ملکی قرضوں کی حد میں تاریخی نرمی کی منظوری دے دی ہے۔
پانچ سو بلین یورو کا تاریخی جرمن فنڈ: قیام کا پہلا مرحلہ طے
جرمنی: سی ڈی یو اور ایس پی ڈی بڑے مالیاتی پیکج پر متفق
جرمنی میں حکومتی قرضوں پر عائد سخت آئینی پابندی میں نرمی کے بعد دفاعی اخراجات، شہری تحفظ، انٹیلیجنس سروسز اور سائبر سکیورٹی کے لیے لامحدود قرضے حاصل کرنے کی اجازت مل سکے گی۔
اس آئینی پابندی کو 'ڈَیٹ بریک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔نئے متوقع چانسلر فریڈرش میرس کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو، اس پارٹی کی ہم خیال باویرین قدامت پسند جماعت سی ایس یو اور بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی نے، جو گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت تشکیل دینے کے لیے آپس میں بات چیت کر رہی ہیں، ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت میں ترقی کو بحال کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے لیے 500 بلین یورو (546 بلین ڈالر) کے فنڈ کی تجویز پیش کی تھی۔
(جاری ہے)
سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش میرس قبل ازیں خسارے کے اخراجات کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔ لیکن یوکرین کے خلاف روس کی جنگ اور یورپ کے بارے میں واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے مخالفانہ موقف نے جرمنی اور اس کے یورپی اتحادیوں کو اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر بڑے پیمانے پر انحصار کم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
کامیابی کے لیے گرین پارٹی کے ووٹ بھی شاملاس قانون کو پاس کرانے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔
اس کے حصول کے لیے سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی نے آخری لمحات میں گرین پارٹی کی طرف سے اس بل میں تبدیلی کے مطالبے کو بھی اپنی تجویز میں شامل کر لیا۔اس پیکج کے تحت یوکرین کے لیے تین بلین ڈالر کی اضافی امداد بھی جاری کی جائے گی۔ بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے لیے 500 بلین یورو کے فنڈ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیوں کے لیے 100 بلین یورو بھی شامل ہیں۔
یہ ایک شرط ہے جو گرین پارٹی نے ان اقدامات کی حمایت کے لیے مقرر کی تھی۔ حتمی منظوری جمعہ 21 مارچ کو متوقعیہ بل اب جرمن پارلیمان کے ایوان بالا یا بنڈس راٹ میں جائے گا جہاں ملک کی تمام 16 وفاقی ریاستوں کی نمائندگی موجود ہے۔ بنڈس راٹ میں اس بل پر پر ووٹنگ جمعہ 21 مارچ کو ہوگی۔
قدامت پسندوں اور سوشل ڈیموکریٹس کے سینئر عہدیداروں نے امید ظاہر کی ہے کہ پارلیمانی ایوان بالا بھی اس قانون کو منظور کر لے گا۔
ا ب ا/ا ا (روئٹرز، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بلین یورو سی ڈی یو کے لیے
پڑھیں:
وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 227 سال پرانا قانون استعمال کرنے سے روک دیا
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکا میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وینز ویلا کے شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے جنگ کے دوران امریکا کو تحفظ فراہم کرنے والے 227 سال پرانے قانون کو استعمال کرنے سے روک دیا۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وینزویلا کے جرائم پیشہ گروہ ٹرین ڈی اراگوا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن امریکا کے خلاف غیر قانونی جنگ کر رہے ہیں، انہیں 1798 کے اجنبی دشمن ایکٹ کے تحت ملک بدر کیا جائے گا۔
تاہم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیمز بواسبرگ نے ہفتے کی شام ملک بدری روکنے کا حکم جاری کیا ہے جو 14 روز تک جاری رہے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جج جیمز بواسبرگ نے سماعت کے دوران کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ جلاوطن افراد کو لے جانے والے طیارے اڑان بھر رہے ہیں اور انہیں واپس جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ قانون امریکا کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگ کے دوران ایسے افراد کو حراست میں لے سکتا ہے، جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں، اسے آخری بار دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی نسل کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔
ہفتے کے روز اس اعلان پر کوئی تعجب نہیں پایا گیا، جہاں ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ٹرین ڈی اراگوا ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سرزمین کے خلاف حملے یا شکاری حملے کا ارتکاب کر رہا تھا، کوشش کر رہا تھا اور دھمکی دے رہا تھا۔
انہوں نے گزشتہ سال کی انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے متنازع قانون کو استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
امریکن سول لبرٹیز یونین اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے ہفتے کے روز اعلان جاری کرنے سے پہلے ہی انہیں اس کے استعمال سے روکنے کے لیے مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق سماعت کے دوران جج نے کہا کہ قانون میں ’حملہ‘ اور ’شکاری دراندازی‘ کی اصطلاحات ’دراصل دشمن ممالک کی کارروائیوں سے متعلق ہیں، اور یہ قانون شاید ٹرمپ کے اعلان کے لیے کوئی اچھی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔
اے سی ایل یو کے ایک وکیل نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اتوار کے روز ہوا میں وینزویلا کے تارکین وطن کے 2 طیارے موجود تھے، بی بی سی نے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی۔
یہ کیس اب قانونی نظام سے گزرے گا اور سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔
اس اعلان اور اس کے گرد ہونے والی لڑائی کو ٹرمپ کے حامیوں کو اکٹھا کرنا چاہیے، جنہوں نے غیر قانونی امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں کو کم کرنے کے وعدوں پر انہیں وائٹ ہاؤس واپس بھیج دیا تھا۔
جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے انہوں نے امریکی امیگریشن نظام کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کچھ قانونی ماہرین نے اس مطالبے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان جنگ کے بعد ماضی میں بھی غیر ملکی دشمن ایکٹ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، آئین کے تحت صرف کانگریس ہی جنگ کا اعلان کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کے حکم کے تحت امریکا میں موجود وینیز ویلا کے وہ تمام شہری جو کم از کم 14 سال کی عمر کے ہیں (ٹرین ڈی اراگوا کے رکن ہیں اور اصل میں شہریت یافتہ یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں) انہیں غیر ملکی دشمنوں کے طور پر پکڑا، روکا اور نکال دیا جائے گا۔
ٹرمپ نے اعلان میں یہ واضح نہیں کیا کہ امریکی حکام کس طرح اس بات کا تعین کریں گے کہ کوئی شخص پرتشدد، بین الاقوامی گینگ کا رکن ہے؟۔
مزیدپڑھیں:کوئی شک نہیں پاکستان میں دہشتگردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ ہے، رانا ثنااللہ