ایران کے پاکستان کی سرحدتک گیس پائپ لائن بچھانے کی خبروں کی حقیقت سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک )وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحد تک گیس پائپ لائن پہنچانے کا بیان درست نہیں، پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک نہیں آئی۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کا سیشن ہوا جس میں مختلف وزارت نے سوالات کے تحریری جوابات پیش کیے۔ وقاقی وزیر تجارت نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے سلسلے میں اہم پالیسی بیان دیا اور کہا کہ ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحد تک گیس پائپ لائن پہنچانے کا بیان درست نہیں، ایران نے پاکستان کی طرف گیس پائپ لائن اپنے ایک خاص علاقے تک ضروربچھائی ہے لیکن پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ ایران پر عالمی پابندیوں سے سب آگاہ ہیں، امریکا یک طرفہ طور پر پابندیاں لگاتا ہے، یہ پابندیاں عالمی قوانین کے مطابق نہیں لگائی جاتیں مگر ہماری عالمی تجارت میں 65 فیصد صرف امریکا و یورپ کے ساتھ ہے، ہمیں اپنی تجارت کو عالمی تجارت کے تناسب سے دیکھنا ہوتا ہے۔
وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ نے کہا کہ امریکی امداد کی معطلی سے پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی پر کافی اثرات مرتب ہونگے، فنڈز بند ہونے سے اہم شعبوں میں ہونے والی پیش رفت میں خلل کا خطرہ ہے، ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول میں تاخیر ہو سکتی ہے، امریکا نے یہ امداد صرف پاکستان کے لیے بند نہیں کی، وہ اپنی غیر ملکی امداد کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے،امریکی حکام سے بات چیت جاری ہے تاکہ 20 اپریل 2025 تک فنڈز کی بحالی ممکن ہوسکے۔ وزیر تجارت جام کمال خان نے موجودہ حکومت کے پہلے سال سے متعلق درآمدی چینی کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں جس میں بھارت سے 50 ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
وزیر تجارت نے بتایا کہ مارچ 2024 سے جنوری 2025 تک 3 ہزار 140 میٹرک ٹن چینی درآمد کی گئی، چینی کی درآمد پر 3 ملین ڈالرز سے زائد رقم خرچ ہوئی، چینی ملائشیا جرمنی، تھائی لینڈ، یو اے ای، امریکا، برطانیہ، ڈنمارک، چین فرانس، سوئٹزرلینڈ اور جنوبی کوریا سے درآمد کی گئی جب کہ پاکستان نے بھارت سے بھی 50 ہزار ٹن چینی درآمد کی۔ وزارت تجارت نے گزشتہ 5 سال کے تجارتی خسارے کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دیں جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران 1سو 54 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا، 1سو 36 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں، 2 سو 91 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں، درآمدات میں اضافے کی بنیادی وجہ معاشی نموع ہے۔وزارت تجارت کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2020 میں تجارتی خسارہ 23 ارب 16 کروڑ ڈالر ہوا، مالی سال 2021 میں تجارتی خسارہ 31 ارب 8 کروڑ ڈالر ہوا، مالی سال 2022 میں تجارتی خسارہ 48 ارب 35 کروڑ ڈالر ہوا، مالی سال 2023 میں تجارتی خسارہ 27 ارب 47 کروڑ ڈالر ہوا، گزشتہ مالی سال 2024 میں تجارتی خسارہ 24 ارب 11 کروڑ ڈالر ہوا۔
بتایا گیا کہ مالی سال 2025 میں سولر پینل، ٹرانسفارمرز اور بجلی کے ترسیلی آلات میں 60 فیصد اضافہ ہوا، بجلی کے ترسیلی آلات کی درآمدات 31 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی، صنعتی مشینری کے آلات میں 20 فیصد، ٹیکسٹائل مشینری میں 40 فیصد، آٹو پارٹس کی درآمدات میں 58 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران غیر ملکی قرضوں اور اور واجبات کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردی گئیں جو کہ وزارت خزانہ کی جانب سے پیش کی گئیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ جون 2023 تک پاکستان کے غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی کل رقم 126141 ملین ڈالرز تھی، یہ غیر ملکی قرضہ جی ڈی پی کا 43 اعشاریہ صفر تین فیصد ہے، مالی سال 2024 میں پاکستان نے 11 ہزار 475 ملین ڈالرز غیر ملکی قرضہ واپس کیا۔
مزیدپڑھیں:سیما حیدر اور سچن مینا کے ہاں بیٹی کی پیدائش
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کی سرحد تک میں تجارتی خسارہ کروڑ ڈالر ہوا گیس پائپ لائن قومی اسمبلی غیر ملکی کی درآمد مالی سال
پڑھیں:
افغانستان اسلحے کی غیرقانونی تجارت کا مرکز بن چکا
ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو جدید ترین اور وافر اسلحہ کہاں سے مل رہا پے؟
عالمی تنظیم، افغان پیس واچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے کئی صوبوں میں افغان طالبان حکومت کمزور ہونے سے امریکہ اور نیٹو کے چھوڑے ہتھیار ہی نہیں روس و چین کے بنے راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈ، بم ، نائٹ ویژن گوگلز، سنائپر رائفلز اور ٹیلی سکوپس، آٹومیٹک گنیں اور گولیاں فروخت ہو رہی ہیں۔
اسلحے کے بین الاقوامی اسمگلر حکومتی رٹ نہ ہونے سے روسی وچینی ساختہ اسلحہ سرحد پار سے لانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیمیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی بھاری فنڈنگ سے منہ مانگے داموں یہ اسلحہ خرید لیتی ہیں۔
اکثر صوبوں میں مقامی افغان طالبان لیڈر بھتّا لیکر یا نظریاتی بنیاد پر اسلحہ فروخت کرتے ڈیلروں کو تحفظ دیتے ہیں ،کھلے عام دستیاب جدید اسلحے ہی نے پاکستان دشمن تنظیموں و گروہوں کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور پاکستانی عوام پر حملے کر رہی ہیں۔
پاکستان دنیا میں’’ 11ویں طویل ترین‘‘ سرحدیں رکھنے والا ملک ہے ، افغانستان کے ساتھ 2670 کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کرنا نہایت کٹھن کام، افغان طالبان حکومت کو اپنی سرزمین پر اسلحے کی پھلتی پھولتی غیرقانونی تجارت روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا چاہیں۔