میسی ارجنٹینا کی ورلڈکپ کوالیفائنگ ٹیم سے باہر، مگر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
ارجنٹائن کو 2022 ورلڈکپ جتوانے والے کپتان لیونل میسی 2026 ورلڈکپ کوالیفائرز کے دوران اسکواڈ کا حصہ نہیں ہوں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی فٹبال لیگ میں (انٹرمیامی) کی نمائندگی کرنیوالے ارجنٹائن کے اسٹار فٹبالر لیونل میسی یوراگوئے اور برازیل کے خلاف 2026 کے ورلڈکپ کوالیفائنگ میچ میں اسکواڈ کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اسٹار فٹبالر پٹھوں میں کھچاؤ کی وجہ سے میچز سے باہر ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیں: میراڈونا کے علاج میں غفلت؛ سرجن سمیت 7 افراد کیخلاف مقدمے کی سماعت شروع
انٹرمیامی کیلئے کھیلتے ہوئے لیونل میسی پٹھوں میں تکلیف محسوس ہوئی تھی، جس کے باعث انہیں آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: 2022 کا فیفا ورلڈکپ شاید میرا آخری تھا لیونل میسی
ارجنٹینا کی ٹیم 12 میچز میں 25 پوائنٹس کیساتھ کوالیفائنگ ٹیبل پر پہلی پوزیشن پر قابض ہے جبکہ جمعہ کو دوسرے نمبر کی ٹیم یوروگوئے کیخلاف میدان میں اُترے گی۔
مزید پڑھیں: میسی کی شرٹ کے لیے ریکارڈ بولی
بعدازاں ارجنٹینا کی ٹیم 25 مارچ کو روایتی حریف برازیل کیخلاف اہم مقابلے میں ٹکرائے گی، بزایل کو نیمار جبکہ ارجنٹائن کو میسی کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لیونل میسی
پڑھیں:
جب کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات ممکن ہیں تو ناراض بلوچوں سے کیوں نہیں؟
اسلام ٹائمز: اس سے پہلے کہ لوگ خطرناک ’را‘ کا نام لیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ابتدائی سالوں میں ٹی ٹی پی کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کئی سال پہلے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں تشدد میں کردار کے حوالے سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے۔ ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سرپستی کی ہے۔ دی گریٹ گیم جاری ہے جس میں پاکستان بنیادی ہدف ہے۔ تحریر: عارفہ نور
کال کا وقت بالکل مناسب نہ تھا۔ افطار میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں پہلے ہی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی جبکہ میں ایک اہم کام میں مصروف تھی، کریم چیز کی فراسٹنگ ٹھیک سے مکس نہیں ہورہی تھی لیکن جب عظیمہ نے ’ہیلو‘ کے بعد ’بلوچستان‘ کہا تو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی نیچے رکھ دی کیونکہ یہ گفتگو مختصر نہیں ہونے والی تھی لیکن کیا میں ایسے وقت میں توجہ مرکوز کر پاؤں گی؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب توجہ سیاست کی طرف نہیں بلکہ پکوڑوں کی طرف ہوتی ہے۔ مگر کال کی دوسری طرف جو موجود تھی، اسے اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ عظیمہ میں یہ خوبی ہے کہ وہ سخت سوالات پوچھتی ہیں کہ دماغی تھکاوٹ کے باوجود آپ توجہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ آیا ریاست نے کبھی ناراض بلوچوں کو منانے کی کوشش کی ہے؟ ’ظاہر ہے کی ہے‘، میں نے سمجھایا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں ہوا تھا کہ جب عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ انہیں جلا وطن بلوچوں سے بات چیت کا کام سونپا گیا تھا اور وہ کئی بار یہ کہتے نظر آئے کہ اس حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے جبکہ ناراض بلوچ عوام نے کچھ ایسے مطالبات رکھے ہیں جن پر کام کیا جاسکتا ہے اور عبدالمالک کی نظر میں ان میں سے کچھ مطالبات کو پورا بھی کیا جاسکتا تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے واضح کردیا تھا کہ وہ نہ مطالبات پورے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
عظیمہ نے جواباً کہا مگر وہ براہِ راست مذاکرات نہیں تھے‘۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرح جہاں جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہوئے تھے مگر یہ جنگ بندی کم وقت ہی قائم رہ پائی تھی لیکن بلوچ عوام کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ عظیمہ نے جس بات کی نشاندہی کی وہ بھی درست تھی اور جب موازنہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا جائے تو فرق انتہائی واضح ہے۔ ایسے بہت سے مواقع آئے کہ جب ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں معاہدے پر معاہدے ہوئے کیونکہ تب ریاست اصل خطرے کو بھانپ نہیں پائی تھی تو اس سے نمٹنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ ایک جنرل کی جانب سے نیک محمد کے گلے میں ہار پہنانے کی تصویر شاید اس دور کے حالات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے لیکن بعد میں بھی جب اصل خطرہ واضح ہوچکا تھا تب بھی ان سے مذاکرات کے لیے کوششیں کی گئیں۔ اس کی مثال وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجے سوات میں صوفی محمد کی رہائی عمل میں آئی۔
بعد ازاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور انہیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے بھیجا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال وہ مذاکرات ہیں جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں ہوئے تھے لیکن بلوچستان میں عبدالمالک بلوچ کی جانب سے بات چیت کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا جبکہ اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ریاست نے بڑھتی ہوئی بغاوت کو دبانے میں بہت کم توجہ دی۔ نواب اکبر بگٹی جن کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی اور نکات پر اتفاق بھی ہوا لیکن پھر ایک آمر کی جانب سے ان کوششوں کو خراب کردیا گیا جس کی اقتدار پر گرفت کمزور ہورہی تھی۔ آمر پاکستان پیپلز پارٹی سے بات چیت کے لیے تیار تھے، ان کے جنرل ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے راضی تھے مگر اکبر بگٹی سے بات چیت کے لیے ان کے پاس گنجائش نہ تھی۔ (اور جب سے قبائلی لیڈران کی جگہ متوسط طبقے کی قیادت نے صوبے کی کمان لی ہے تب سے مذاکرات سے انکار میں مزید اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔)
ایک سے زائد مواقع پر ریاست نے ٹی ٹی پی کو ایک ایسے کردار کے طور پر دیکھا ہے جن سے بات چیت اور مذاکرات ہوسکتے ہیں حالانکہ ٹی ٹی پی جن علاقوں میں متحرک ہے وہاں اسے مقامی حمایت بھی حاصل نہیں لیکن بلوچستان میں شاذ و نادر ہی اس آپشن پر توجہ دی گئی جبکہ عمل در آمد تو بہت دور کی بات ہے۔ درحقیقت جیسے جیسے صوبے میں سیاسی انجینئرنگ میں اضافہ ہوا ہے تو مذاکرات کا خیال مزید ناقابلِ قبول ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل جیسے حلقوں کے علاوہ چند بلوچ ’سیاستدانوں‘ نے صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقتدار میں بیٹھے چند لوگوں نے اس کے خلاف دلائل پیش کرنے میں اپنی تمام طاقت صرف کردی ہے کیونکہ شاید ان کا وجود اور اہمیت کا انحصار ناراض بلوچوں کے ناراض رہنے میں ہی ہے۔
اگر بلوچستان میں انتخابات کسی حد تک آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو ٹی وی اسکرینز پر نظر آنے والے زیادہ تر سیاستدانوں کو توجہ دی جاتی اور نہ انہیں سنجیدگی سے لیا جاتا۔ یہ خیبر پختونخوا سے مختلف صورت حال ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود انتخابی نتائج میں اس طرح کی ہیرا پھیری نہیں ہوئی جیسی کہ ہم نے بلوچستان میں دیکھی۔ لیکن میں اصل موضوع سے بھٹک رہی ہوں۔ دونوں صوبوں کی شورشوں سے نمٹنے کے طریقہ کار میں یہ فرق اس وقت بھی موجود تھا کہ جب بلوچستان کی قیادت بدعنوان نہیں تھی یا اس کی قیادت پر سمجھوتہ نہیں کیا جارہا تھا۔ اس سے پہلے کہ لوگ خطرناک ’را‘ کا نام لیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ابتدائی سالوں میں ٹی ٹی پی کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کئی سال پہلے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں تشدد میں کردار کے حوالے سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے۔
ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سرپستی کی ہے۔ دی گریٹ گیم جاری ہے جس میں پاکستان بنیادی ہدف ہے۔ بعدازاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اُبھرنے کو بھی ’بیرونی‘ حمایت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود ٹی ٹی پی کو بات چیت کے قابل سمجھا گیا۔ کبھی بھی شدید پُرتشدد واقعات کو وجہ بنا کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ختم نہیں کیے گئے۔ بی بی سی کی ایک اسٹوری کے مطابق جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے فروری 2014ء میں ناراض بلوچوں کے لیے کمیٹی تشکیل دی تو گزشتہ ماہ 100 سے زائد افراد پُرتشدد واقعات میں اپنی جان گنوا چکے تھے۔ لیکن اب جب بلوچ عوام سے بات چیت کا خیال پیش کیا جاتا ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد سے ریاست اس معاملے میں کسی طرح کی کمزوری ظاہر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ گویا جیسے اس واقعے سے پہلے ریاست کا مزاج مختلف تھا۔
بلوچستان میں، تشدد اور بیرونی مداخلت کو ایسی وجوہات کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جس کے لیے ریاست کے پاس صرف طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کے برعکس بلوچستان میں باغیوں کو عوامی حمایت حاصل ہے لیکن ان سے بات چیت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست یا کوئی بھی ریاست تشدد کا جواب نہیں دے سکتی بلکہ زیادہ تر شورشوں میں حل بات چیت اور فوجی کارروائی کے امتزاج سے نکلتا ہے جیسا کہ عموماً ہم کہتے ہیں لیکن بلوچستان میں ہم نہ صرف عام فہم کی نفی کرتے ہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں ہم جو روش اپناتے ہیں، بلوچستان کے لیے وہ بھی ناپید یا ناقابلِ عمل ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ عظیمہ کے پاس اس کا بہترین جواب ہے لیکن ان دنوں اپنی آرا کا عوامی سطح پر یوں اظہار کرنا اچھا خیال نہیں۔ تو میرے خیال میں سوال کے ساتھ ہی اس تحریر کو ختم کرنا بہتر رہے گا۔
اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1898649/no-talks-for-baloch