کیا امریکی عالمی بالادستی خطرے میں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ایرانی دفاعی وزیر بریگیڈیر جنرل محمد رضا آشتیانی نے کہا کہ یہ مشقیں خطے میں استعماری قوتوں (امریکا)کی مداخلت کوناکام بنانے کا پیغام ہیں۔ ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شاہرام ایران نے زور دیا کہ چابہار بندرگاہ کی حفاظت ہماری قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ایک بیان میں امریکا کو تنبیہ کی گئی ہے کہ خارجی فوجی اڈوں کی تعمیر ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔
جبکہ چین کی سرکاری میڈیا آرگنائزیشن گلوبل ٹائمز چین نے جون 2024 ء ان مشقوں کی اہمیت کو ایک تجزیاتی مضمون کی تفصیلات شائع کرتے ہوئے واضح کیا کہ چابہار’’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ‘‘کا اہم حصہ ہے جو چین کو مشرقِ وسطیٰ، افریقا اور یورپ سے جوڑتا ہے۔چین ان مشقوں کو بیلٹ اینڈ روڈ جیسے اہم اقتصاداتی منصوبہ کے تحفط کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔ تجزیہ نگار وانگ ژیو نے لکھا کہ یہ مشقیں چین کی غیرجنگی سلامتی پالیسی کا عکاس ہیں۔ مضمون میں امریکہ پر الزام لگایا گیا کہ امریکی بحری بیڑہ علاقائی امن کے لئے خطرہ ہے جو آبنائے ہرمز میں غیر مستحکم صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ چینی ماہرِ دفاع لی جو نے کہا کہ روس-چین تعلقات اور فوجی تعاون کو مغربی پابندیوں کے خلاف جوابی اقدام ہیں اور یہ مشقیں ہماری مشترکہ سلامتی کی سوچ کو فروغ دیتی ہیںجبکہ ایران ان مشقوں کو امریکی ممکنہ مداخلت کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے لئے ضروری سمجھتا ہے تاکہ ایران بروقت اپنی مقامی طاقت کے کردار کو اچھی طرح اجاگر کر دے کہ وہ اپنی سلامتی کے لئے کہاں تک جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کے روس کی طرف جھکاؤکو عالمی سیاست میں مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد چین اور روس کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا ہے، تاکہ امریکہ کو ایک سفارتی برتری حاصل ہو سکے۔روس اور چین گزشتہ دہائی میں اقتصادی اور عسکری تعاون میں اضافہ کر چکے ہیں، جسے امریکہ اپنی عالمی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کی روس کے لیے نرم پالیسی، جیسے کہ نیٹو اتحادیوں پر دبائوڈالنا اور روس پر عائد کچھ پابندیوں میں نرمی کرنا، اسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے۔دوسری جانب، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی روایتی امریکی حکمت عملی سے ہٹ کر ہے، اور وہ امریکہ کی پرانی دشمنیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے، جو عالمی سیاست کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کی ’’پوتن جیسی سوچ‘‘ اور ان کی یکطرفہ خارجہ پالیسی سے مغربی عالمی نظام کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور یورپ نے ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا تھا جس میں نیٹو، اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور آئی ایم ایف جیسے ادارے شامل تھے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان اداروں کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔یورپی ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج، نیٹو میں اختلافات، اور کثیر القومی معاہدوں سے علیحدگی (جیسے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ اور ایران جوہری معاہدہ)یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ مغربی عالمی نظام سے خود کو الگ کر رہا ہے۔ اس سے چین اور روس جیسے ممالک کو اپنی عالمی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہا، تو مغربی عالمی نظام کمزور ہو سکتا ہے، اور ایک نیا عالمی سیاسی و اقتصادی توازن جنم لے سکتا ہے جس میں امریکہ کی طاقت محدود ہو جائے گی۔
ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات کے دوران پیدا ہونے والی تکرار نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ یوکرین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں امریکہ اور روس کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات اہم پیش رفت ہے۔ یہ مذاکرات اس بات کی علامت ہیں کہ دونوں فریق تنازعات کے حل کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے نتائج غیر یقینی ہیں۔چین، روس اور ایران کی فوجی مشقیں نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ ایران خطے میں کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ ان مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور عسکری دبا ئوکے باوجود ایران، چین اور روس کا اتحاد ایک نئی جغرافیائی حقیقت بن کر ابھر رہا ہے۔
ان اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایران، روس اور چین کی باہم فوجی مشقیں امریکی دبائو کے خلاف مزاحمت اور خطے میں اتحادکو مضبوط کرنے کے لیے ہیں۔ مشقوں کو بیلٹ اینڈ روڈ کی کامیابی اور غیرمغربی اتحاد (روس،چین،ایران)کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔لہٰذا یہ مشقیں خطے کے تمام ممالک کی طرف سے امریکا اور نیٹو کی یک قطبی دنیا کے خاتمے کے لئے ایک مشترکہ پیغام ہے کہ آئندہ کسی بھی قسم کی مداخلت کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عالمی نظام یہ مشقیں کہ ایران سکتا ہے اور روس ٹرمپ کی کے لیے کے لئے رہا ہے
پڑھیں:
امریکا کے یمن پر فضائی حملے، 31 افراد ہلاک، ایران کو بھی وارننگ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جن میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ حملے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حوثی حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں اور کئی دنوں تک جاری رہنے کی توقع ہے۔
ٹرمپ نے ایران کو بھی سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے حوثیوں کی حمایت جاری رکھی تو "امریکہ اسے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرائے گا اور ہم نرمی نہیں برتیں گے!"
حوثیوں کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، 13 شہری ہلاک اور 9 زخمی ہوئے، جبکہ صعدہ میں امریکی حملے میں مزید 11 افراد، بشمول 4 بچے اور 1 خاتون جاں بحق ہوئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق، یہ یمن میں ایک وسیع فوجی آپریشن کا آغاز ہے، جس میں جنگی طیارے بحیرہ احمر میں موجود USS Harry S. Truman ایئرکرافٹ کیریئر سے حملے کر رہے ہیں۔
حوثیوں نے امریکی حملوں کو "جنگی جرم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس جارحیت کا جواب دینے کے لیے مکمل تیار ہیں۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب امریکہ ایران پر دباؤ بڑھا کر اسے جوہری مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتا ہے، لیکن ایران نے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔