Daily Ausaf:
2025-03-19@00:20:33 GMT

کیا امریکی عالمی بالادستی خطرے میں ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ایرانی دفاعی وزیر بریگیڈیر جنرل محمد رضا آشتیانی نے کہا کہ یہ مشقیں خطے میں استعماری قوتوں (امریکا)کی مداخلت کوناکام بنانے کا پیغام ہیں۔ ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شاہرام ایران نے زور دیا کہ چابہار بندرگاہ کی حفاظت ہماری قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ایک بیان میں امریکا کو تنبیہ کی گئی ہے کہ خارجی فوجی اڈوں کی تعمیر ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔
جبکہ چین کی سرکاری میڈیا آرگنائزیشن گلوبل ٹائمز چین نے جون 2024 ء ان مشقوں کی اہمیت کو ایک تجزیاتی مضمون کی تفصیلات شائع کرتے ہوئے واضح کیا کہ چابہار’’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ‘‘کا اہم حصہ ہے جو چین کو مشرقِ وسطیٰ، افریقا اور یورپ سے جوڑتا ہے۔چین ان مشقوں کو بیلٹ اینڈ روڈ جیسے اہم اقتصاداتی منصوبہ کے تحفط کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔ تجزیہ نگار وانگ ژیو نے لکھا کہ یہ مشقیں چین کی غیرجنگی سلامتی پالیسی کا عکاس ہیں۔ مضمون میں امریکہ پر الزام لگایا گیا کہ امریکی بحری بیڑہ علاقائی امن کے لئے خطرہ ہے جو آبنائے ہرمز میں غیر مستحکم صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ چینی ماہرِ دفاع لی جو نے کہا کہ روس-چین تعلقات اور فوجی تعاون کو مغربی پابندیوں کے خلاف جوابی اقدام ہیں اور یہ مشقیں ہماری مشترکہ سلامتی کی سوچ کو فروغ دیتی ہیںجبکہ ایران ان مشقوں کو امریکی ممکنہ مداخلت کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے لئے ضروری سمجھتا ہے تاکہ ایران بروقت اپنی مقامی طاقت کے کردار کو اچھی طرح اجاگر کر دے کہ وہ اپنی سلامتی کے لئے کہاں تک جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کے روس کی طرف جھکاؤکو عالمی سیاست میں مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد چین اور روس کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا ہے، تاکہ امریکہ کو ایک سفارتی برتری حاصل ہو سکے۔روس اور چین گزشتہ دہائی میں اقتصادی اور عسکری تعاون میں اضافہ کر چکے ہیں، جسے امریکہ اپنی عالمی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کی روس کے لیے نرم پالیسی، جیسے کہ نیٹو اتحادیوں پر دبائوڈالنا اور روس پر عائد کچھ پابندیوں میں نرمی کرنا، اسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے۔دوسری جانب، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی روایتی امریکی حکمت عملی سے ہٹ کر ہے، اور وہ امریکہ کی پرانی دشمنیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے، جو عالمی سیاست کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کی ’’پوتن جیسی سوچ‘‘ اور ان کی یکطرفہ خارجہ پالیسی سے مغربی عالمی نظام کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور یورپ نے ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا تھا جس میں نیٹو، اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور آئی ایم ایف جیسے ادارے شامل تھے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان اداروں کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔یورپی ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج، نیٹو میں اختلافات، اور کثیر القومی معاہدوں سے علیحدگی (جیسے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ اور ایران جوہری معاہدہ)یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ مغربی عالمی نظام سے خود کو الگ کر رہا ہے۔ اس سے چین اور روس جیسے ممالک کو اپنی عالمی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہا، تو مغربی عالمی نظام کمزور ہو سکتا ہے، اور ایک نیا عالمی سیاسی و اقتصادی توازن جنم لے سکتا ہے جس میں امریکہ کی طاقت محدود ہو جائے گی۔
ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات کے دوران پیدا ہونے والی تکرار نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ یوکرین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں امریکہ اور روس کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات اہم پیش رفت ہے۔ یہ مذاکرات اس بات کی علامت ہیں کہ دونوں فریق تنازعات کے حل کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے نتائج غیر یقینی ہیں۔چین، روس اور ایران کی فوجی مشقیں نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ ایران خطے میں کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ ان مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور عسکری دبا ئوکے باوجود ایران، چین اور روس کا اتحاد ایک نئی جغرافیائی حقیقت بن کر ابھر رہا ہے۔
ان اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایران، روس اور چین کی باہم فوجی مشقیں امریکی دبائو کے خلاف مزاحمت اور خطے میں اتحادکو مضبوط کرنے کے لیے ہیں۔ مشقوں کو بیلٹ اینڈ روڈ کی کامیابی اور غیرمغربی اتحاد (روس،چین،ایران)کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔لہٰذا یہ مشقیں خطے کے تمام ممالک کی طرف سے امریکا اور نیٹو کی یک قطبی دنیا کے خاتمے کے لئے ایک مشترکہ پیغام ہے کہ آئندہ کسی بھی قسم کی مداخلت کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عالمی نظام یہ مشقیں کہ ایران سکتا ہے اور روس ٹرمپ کی کے لیے کے لئے رہا ہے

پڑھیں:

یمنی  حوثیوں کے حملے ایران کی کارروائی تصور ہوں گے، سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، ٹرمپ کی دھمکی

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کے حوثی عسکریت پسندوں کے کسی بھی مزید حملے کو براہ راست ایران کی کارروائی تصور کیا جائے گا اور تہران کو اس کے “سنگین نتائج” بھگتنا ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ حوثیوں کی طرف سے داغا گیا ہر گولہ، فائر کی جانے والی ہر گولی ایران کی قیادت اور اسلحے کی کارروائی سمجھی جائے گی۔ ایران کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور یہ نتائج بہت سنگین ہوں گے۔
خیال رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے روکنے کے لیے فوجی کارروائی کر رہے ہیں حوثی باغی جو ایران کے حمایت یافتہ سمجھے جاتے ہی، حالیہ ہفتوں میں اسرائیل اور بین الاقوامی جہاز رانی کے خلاف کئی حملے کر چکے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ حوثیوں کے حملے روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا رہے ہیں اور ایران کو حوثیوں کی حمایت فوری طور پر ختم کرنے کا کہا گیا ہےایران کی جانب سے بارہا ان الزامات کی تردید کی گئی ہے کہ وہ یمن کے حوثیوں کو اسلحہ یا مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔
یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں مزید اضافے کا اشارہ دے رہی ہے جہاں پہلے ہی ایران، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے درمیان شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • استکبار اور صیہونیت کے خلاف جنگ میں یمن فرنٹ لائن ہے، علی اکبر ولایتی
  • ایرانی سفیر نے اقوام متحدہ کو امریکی صدر کی دھمکی پر خط لکھ دیا
  • ایران کا اقوام متحدہ کو خط، ٹرمپ کے بیان کو بے بنیاد قرار دیدیا
  • حوثیوں کی چلائی گئی ہر ایک گولی کا جواب ایران سے لیا جائے گا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • یمنی  حوثیوں کے حملے ایران کی کارروائی تصور ہوں گے، سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، ٹرمپ کی دھمکی
  • وزیراعظم سے معروف امریکی ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنی کے سی ای او جیرومی کیپیلس کی ملاقات
  • حوثیوں پرحملہ ’’زیادہ سے زیادہ دبائو‘‘کا صرف آغاز ہے، امریکہ
  • ایران کی یمن کے متعدد علاقوں پر امریکی فضائی حملوں کی مزمت
  • ایران کی یمن کے متعدد علاقوں پر امریکی فضائی حملوں کی شدید مذمت