ام المومنین حضرت عائشہ ؓکا لقب صدیقہ تھا۔ آنحضرتﷺ آپ کو بنت الصدیق کہہ کر یاد فرماتے تھے، آٹھویں پشت میں آپ کا نسب حضورﷺ کے نسب سے مل جاتا ہے، ولادت، کسی بھی مستند تاریخ میں حضرت عائشہ ؓکی تاریخ ولادت کا ذکر نہیں ملتا’ تاہم امام محمد بن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت نبوتﷺ کے چوتھے سال کی ابتدا میں مکے میں ہوئی۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے، عموما ًہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش تک نہیں ہوتا اور نہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن حضرت عائشہؓ ؓلڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں۔ ان کی روایت کرتی تھیں۔ لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں۔ ہجرت کے وقت ان کا سن آٹھ برس تھا’ لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویﷺ کے تمام واقعات’ بلکہ تمام جزوی باتیں انہیں یاد تھیں۔ ان سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کو اس تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی سب سے پہلی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی جو آپ ﷺ کی سچی مونس اور غم خوار ثابت ہوئیں۔ مگر جب ان کی وفات ہوئی تو حضورﷺ کو بہت صدمہ پہنچا۔ آپﷺ ہمہ وقت پریشان رہتے تھے۔ ایک روز خولہ بنت حکیم آپﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپﷺ دوسرا نکاح فرمالیں۔
حضرت عائشہ ؓکا آنحضرتﷺ سے نکاح مشیت الہی میں مقدر ہوچکا تھا۔ جب یہ نکاح ہوا اس وقت آپ کی عمر 6برس تھی’ تاہم رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔ حضرت عطیہ’ حضرت عائشہ ؓکے نکاح کا واقعہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ ؓلڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ ان کی نانی آئیں اور انہیں ساتھ لے گئیں۔ حضرت ابوبکر نے نکاح پڑھا دیا۔حضرت عائشہ ؓکی تعلیم و تربیت کا اصل زمانہ رخصتی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اسی زمانے میں لکھنا پڑھنا سیکھا۔ رسول کریمﷺ سے قرآن پڑھا۔ آپ نے تاریخ و ادب کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ طب کا فن وفود عرب سے سیکھا تھا۔ اطبائے عرب جو نسخے آنحضرتﷺ کو بتاتے’ حضرت عائشہ ؓانہیں یاد کرلیتی تھیں۔ آپ کا گھر دنیا کے سب سے بڑے معلم شریعتﷺ سے آراستہ تھا۔ یہی درس گاہ حضرت عائشہ ؓکے علم و فضل کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔
حضرت عائشہ ؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں۔ وہ کوئی عالی شان گھر نہ تھا۔ مسجد نبویﷺ کے چاروں طرف چھوٹے متعدد حجرے تھے’ ان ہی میں حضرت عائشہ ؓکا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا۔ اس کا ایک اور دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا۔ اس حجرے کا صحن ہی مسجد نبویﷺ کا صحن تھا۔(آج کل اسی حجرے میں حضورﷺ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر آرام فرما ہیں) آنحضرتﷺ اسی دروازے سے ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ جب آپ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے’ حضرت عائشہ ؓاسی جگہ بالوں میں کنگھا کر دیتی تھیں۔ اس حجرے کی وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی۔ دیواریں مٹی کی تھیں۔ چھت کو کھجوروں کی ٹہینوں سے ڈھک کر اوپر سے کمبل ڈال دیا گیا تھا تاکہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا۔ گھر کی کل کائنات ایک چارپائی’ ایک چٹائی’ ایک بستر’ ایک تکیہ(جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجور رکھنے کے لئے دو برتن تھے۔ پانی کے لئے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لئے ایک پیالہ تھا۔ چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں’ گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔
اللہ کی طرف سے حضرت عائشہ ؓکی صفائی، آنحضرتﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی غزوے میں تشریف لے جاتے تو آپﷺ کی ایک بیوی خدمت گزاری کے لئے ساتھ ہوتیں۔ دو غزوات میں حضرت عائشہ ؓآپﷺ کے کے ہم راہ تھیں: غزوئہ بنی مصطلق اور غزوہ ذات الرقاع۔ اول الذکر غزوے سے واپسی پر ایک جگہ قافلہ نے پڑائو ڈالا۔ اندھیرے کی وجہ سے قافلے والوں کو علم نہ ہوسکا کہ حضرت عائشہ ؓاونٹ کے کجاوے پر موجود ہیں یا نہیں۔ حضرت عائشہ ؓکو قضائے حاجت سے فراغت میں تاخیر ہوگئی اور قافلہ رخصت ہوگیا۔ ام المومنین پیچھے بھاگنے کے بجائے قافلے کے قیام کی جگہ رک گئیں۔ حضرت صفوان بن معطل جن کی ڈیوٹی قافلہ کی گری پڑی اشیا کی نگہداشت تھی’ تھوڑی دیر کے بعد وہاں پہنچے تو حضرت عائشہ ؓکو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ انہوں نے اونٹ میرے قریب بٹھا دیا اور ”اناللہ” پڑھا۔ میں سوار ہوگئی۔ اس لفظ کے علاوہ پورے راستے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ نہیں سنا۔ ادھر مدینے میں منافقین نے طوفان اٹھا دیا۔ من گھڑت خبریں اور بے بنیاد الزام لگائے جانے لگے۔ حضورﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپﷺ بھی پریشان ہوگئے۔ حضرت عائشہ ؓپر حضرت صفوان کے ہم راہ تنہا سفر کو غلط رنگ دیا گیا۔ حضرت عائشہ ؓاپنے گھر تشریف لے گئیں۔ الزام کی صفائی اور تحقیق کے لئے آنحضرتﷺ نے صحابہ کا اعلی سطحی اجلاس مسجد نبویﷺ میں طلب کیا۔ آخر حضرت عمرکی رائے کے مطابق وحی الہی کے انتظار فیصلہ ہوا۔ اگلے ہی روز آیات قرآنی نازل ہوئیں تو آنحضرت ﷺاور حضرت ابوبکر سمیت تمام صحابہ کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ حضرت عائشہ ؓکی صفائی میں سترہ قرآنی آیات کا اترنا تھا کہ حضرت عائشہ ؓکی عظمت اسلامی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اسی طرح غزو ذات الرقاع کے موقع پر بھی حضرت عائشہ ؓکی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ آنحضرتﷺ حضرت عائشہ ؓسے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ کی عمر 67برس کی تھی کہ 58ھ میں رمضان کے مہینے میں بیمار ہوئیں۔ چند روز علیل رہیں۔ رمضان المبارک کی 17تاریخ کو نماز وتر کے بعد رات میں وفات پائی۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے لئے

پڑھیں:

حضرت حنظلہؓ کا لکھا کتبہ

یہ چند سال پہلے کی بات ہے، ترکی کے ممتاز خطاط ، یوسف بیلین (Yusef Bilin) سعودی عرب کے شہر ، طائف پہنچے۔ وہاں وہ قدیم مساجد دیکھنا چاہتے تھے جن میں سے اکثر مخدوش حالت کی وجہ سے اب بند کر دی گئی تھیں۔

وہاں انھوں نے مسجد الکوع بھی دیکھی جسے خاص طور پہ پاکستان سے جانے والے مسجد علیؓ بھی کہتے ہیں۔ روایت ہے، یہ مسجد حضرت علیؓ نے تعمیر کرائی تھی۔ روایت نے شاید اس باعث جنم لیا کہ اس کے عین سامنے ’’کرامت عداس النصرانی‘‘کا مقام واقع ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں طائف سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کو عداس نامی عیسائی غلام ملا تھا۔

عداس مکہ مکرمہ سے تعلق رکھنے والے ایک امیر خاندان کی ملکیتی باغ میں ملازم تھا۔ اس نے جب نبی کریم ﷺ کو تھکن سے چور دیکھا تو آپ ﷺ کی خدمت میں انگور پیش کیے۔ آپﷺ نے انھیں نوش فرمانے سے قبل بسم اللہ فرمایا تو عداس بہت حیران ہوا۔ اسے پھر بفضل ِ خدا آپ ﷺ میں نبوت کی نشانیاں دکھائی دیں اور وہ مسلمان ہو گیا۔ فتح طائف کے بعد حضرت علی ؓ شہر آتے جاتے رہتے تھے کیونکہ وہ مکہ مدینہ کے بعد عرب کا تیسرا بڑا نگر تھا۔

کتبوں کی دریافت

یوسف بیلین نے علاقے کی مساجد ملاحظہ کر لیں تو وہ وہاں واقع پہاڑیوں کی سیر کرنے لگے۔ مسجد علیؓ سے ایک سو میٹر (تین سو تیس فٹ)دور چلنے کے بعد انھیں ایک چٹان پر کچھ لکھا نظر آیا۔ بہ حیثیت خطاط وہ ’’قدیم عربی خط‘‘ (Paleo-Arabic) سے واقف تھے ۔ لہذا انھیں یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ چٹان پر لکھے الفاظ قدیم عربی خط کا نمونہ تھے۔ عرب میں عربی کے جتنے بھی خط زمانہ اسلام سے قبل رائج تھے، ماہرین اثریات اب انھیں ’’قدیم عربی خط ‘‘کے زمرے میں رکھتے ہیں۔

عرب میں پچھلے ایک سو سال کے دوران ماہرین اثریات کو چٹانوں پر لکھے کئی نقش یا کتبے مل چکے۔مگر ان میں صرف ایک ابتدائی دور اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ حصرت خالدؓ بن عاص کا آٹوگراف یا کندہ نام ہے جو حجاز کے علاقے، وادی البہا میں 2015ء میں دریافت ہوا۔ آپ حضرت عمرفاروق ؓ کے چچازاد بھائی کے فرزند تھے۔

حصرت خالدؓ بن عاص

حضرت خالد ؓ کے داد ا، ہشام بن مغیرہ قریش کے قبیلے، بنو مخزوم کے سردار تھے۔ ان کا شمار قریش کے بااثر لیڈروں میں ہوتا تھا۔ ان کی ایک دخترحضرت عمر فاروق ؓ کی والدہ تھیں۔ یہی صاحب عمرو بن ہشام کے بھی والد تھے جو تاریخ اسلام میں ابو جہل کے نام سے مشہور ہوا۔ولید بن مغیرہ ان کے بھائی تھے جن کے فرزند، حضرت خالدؓ بن ولید نے عظیم جرنیل کی حیثیت سے شہرت پائی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ غزوہ بدر میں حضرت عمر ؓ نے اپنے چچازاد بھائی اور حضرت خالد ؓ کے والد،عاص بن ہشام کو قتل کر دیا تھا جو لشکر کفار میں شامل تھے۔ یوں قریبی رشتے بھی حق و سچائی کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔ حضرت خالد ؓ بن عاص فتح مکہ کے موقع پر اسلام لے آئے تھے۔ آپ کا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں حضرت عمر ؓ نے حضرت خالد ؓ بن عاص کو قابل منتظم پا کر انھیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنایا تھا۔ آپ نے حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں وفات پائی۔

حضرت خالد ؓ بن عاص کے آٹوگراف دریافت ہونا ایک تاریخی واقعہ ہے کہ آپ پہلے صحابی ہیں جن کی لکھی تحریر زمانہ حال میں ایک چٹان پر سے دریافت ہوئی۔ تحریر کی قدامت معلوم کرنے والے سائنسی طریقے شہادت دے چکے کہ یہ تحریر اس زمانے (پہلی صدی ہجری کے ابتدائی دور)میں لکھی گئی جب حضرت خالد ؓ زندہ تھے۔

تحقیق کا آغاز

یوسف بیلین ایک اردنی نژاد امریکی اثریات داں،احمد الجالد (Ahmad Al-Jallad) سے واقف تھے۔ احمد جالد امریکا کی اوہایو سٹیٹ یونیورسٹی میں علومِ عربی کے پروفیسر ہیں۔ مشرق میں چٹانوں پہ کندہ حروف اور جملوں کا مطالعہ کرنے میں آپ کو دورجدید کا معروف ترین ماہر سمجھا جاتا ہے۔ احمد جالد مذید براں ایک اور عرب نژاد امریکی ماہر، ہاشم صدقی کے ساتھ ’’طائف۔ مکہ کندہ کاری سروے پروجیکٹ ‘‘(Taif-Mecca Epigraphic Survey Project)چلا رہے تھے۔ اس منصوبے کے لیے شاہ فیصل مرکز برائے تحقیق و علوم اسلامیہ ، سعودی عرب نے رقم فراہم کی تھی۔

   جب احمد جالد اور ہاشم صدقی کو طائف کی چٹان پہ کندہ قدیم عربی میں لکھے حروف کی بابت علم ہوا تو وہ فورا طائف پہنچے۔ انھوں نے پھر بغور ان حروف کا مشاہدہ کیا۔ تیز ہوا، گرد، بارش اور دیگر قدرتی اشیا نے حروف کے بعض حصے مٹا دئیے تھے۔ لکھے حروف کے طرزِ کتابت اور آب و ہوائی اثرات سے ظاہر تھا کہ یہ کتبے دور جدید میں نہیں لکھے گئے۔

بعد ازاں سائنسی طریقوں سے بھی ثابت ہو گیا کہ کہ حروف تقریباً پونے پندرہ سو سال پہلے لکھے گئے تھے۔

دو پیغام

چٹان پر اوپر نچے دو اشخاص کے نام اور پیغام لکھے ہیں۔ پہلا پیغام یہ پڑھنے کو ملتا ہے:

٭بسمک ربنا…انا حنظلہ بن …عبد عمرو… اوصے ببر اللہ

ترجمہ: اے میرے رب، تیرے نام سے شروع کرتا ہوں…میں حنظلہ ہوں بیٹا…عبدعمرو کا…میں (تمھیں)تلقین کرتا ہوں کہ اللہ کی جانب (رخ کر کے)تقوی اختیار کرو۔

دوسرا پیغام یہ کندہ ہے:

٭بسمک ربنا…انا عبدالعزی بن…سفیان… اوصے ببر اللہ

ترجمہ: اے میرے رب، تیرے نام سے شروع کرتا ہوں…میں عبدالعزی ہوں بیٹا…سفیان کا…میں (تمھیں)تلقین کرتا ہوں کہ اللہ کی جانب (رخ کر کے)تقوی اختیار کرو۔

یاد رہے، درج بالا جملے نقطے ڈال کر لکھے گئے ہیں ورنہ حقیقی کتبے میں وہ درج نہیں۔ وجہ یہ ہے، اس زمانے میں عربی زبان نقطوں کے بغیر لکھی جاتی تھی۔ نقطے ڈالنے کا رواج اموی خلفا کے دور سے شروع ہوا۔

شخصیات کی تلاش

اب احمد جالد اور ہاشم صدقی کتب تاریخ کا مطالعہ کرنے لگے۔مقصد یہ تھا کہ چٹان پہ جن شخصیات نے اپنے نام اور پیغام لکھے، ان کو شناخت کیا جا سکے۔ پوری چھان بین کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ ان کو عبدالعزی بن سفیان نامی شخص کا تذکرہ کسی کتاب یا مخطوطے میں نہیں مل سکا۔ تاہم حنظلہؓ بن عبدعمرو کے بارے میں واضح ہو گیا کہ آپ مشہور صحابی ہیں جنھیں ’’غسیل الملائکہ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ آپ 601ء میں پیدا ہوئے اور 625ء میں بہ موقع غزوہ احد شہادت پائی۔

عبدعمرو بن صیفی

حضرت حنظلہؓ کے والد کا نام عبدعمرو بن صیفی تھا۔جب نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہ مدینہ منورہ میں انصار کے قبیلے بنی اوس کا سردار تھا یا پھر بہت معزز مقام رکھتا تھا۔ اس کی کنیت ابو عامر راہب تھی۔ نام سے عیاں ہے کہ وہ ایک راہب تھا ۔ تاہم مورخین نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عیسائی تھا یا حضرت ابراہیم ؑ کے مذہب پر کاربند جسے عرب میں دین حنیف کہا جاتا تھا۔ مورخ البلاذری نے لکھا ہے کہ وہ خود کو رسول سمجھتا تھا۔اس کی بیوی انصار کے سب سے بڑے قبیلے، خزرج کے سردار، عبداللہ بن ابی سلول کی بہن تھی۔

مورخین نے لکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپﷺ کی ابو عامر راہب کے ساتھ نشستیں ہوئیں۔ آپﷺ نے بنو اوس کے سردار کو دعوت اسلام دی تو اس نے سوچ بچار کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر جلد ہی اہل مدینہ بیشتر معاملات میں نبی اکرم ﷺ سے مشورہ اور آپﷺ کی تجاویز و احکامات پر عمل کرنے لگے۔ یوں ابو عامر کا اثرورسوخ کافی کم ہو گیا جس پر اسے رنج پہنچا۔ وہ جلد نبی کریم ﷺ اور اسلام کا دشمن بن گیا۔ روایت ہے کہ وہ اپنے ساٹھ پینسٹھ ساتھیوں سمیت مکہ چلا گیا اور قریش کا حلیف بن بیٹھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی والدہ ، حضرت آمنہ کی قبر مبارک منہدم کرنا چاہتا تھا مگر اللہ تعالی نے اسے یہ فعل انجام دینے سے باز رکھا۔

 ’’مسجد الضرار‘‘

ابو عامر پھر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ابتدائی مورخین اسلام… الطبری، واقدی، ابن ہشام اور البلاذری نے لکھا ہے کہ اسی نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے منافقوں کو تجویز دی تھی کہ ’’مسجد الضرار‘‘ تعمیر کی جائے۔ مدعا یہ تھا کہ مسلمانوں کو تقسیم کیا جا سکے۔ نبی کریم ﷺ نے وحی نازل ہونے کے بعد یہ مسجد منہدم کرا ڈالی تھی۔ابوعامر پھر مکہ مکرمہ چلا گیا۔وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوا تاہم غزوہ احد میں کفار مکہ کے ساتھ مدینہ آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آدمیوں سے خندقیں کھدوائی تھیں تاکہ مسلمان ان میں گر جائیں۔ دوران جنگ نبی کریم ﷺ اسی منافق کے کھدوائے ایک گڑھے میں گر پڑے تھے ۔ تبھی آپ ﷺ کے چہرئہ مبارک کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا۔

کتب تاریخ میں درج نہیں کہ حضرت حنظلہؓ کب مسلمان ہوئے۔ مگر غزوہ احد میں ان کی شمولیت سے عیاں ہے کہ وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر نہیں چلے اور تب تک مسلمان ہو چکے تھے۔ گویا انھیں سچائی کی روشنی نظر آ گئی۔اور یہ بھی آشکارا ہے کہ وہ مدینہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے کیونکہ سردار خزرج، عبداللہ بن ابی سلول نے اپنی دختر، جمیلہؓ کا نکاح حضرت حنظلہؓ سے کیا تھا۔وہ بھی مسلمان ہو چکی تھیں۔

شہادت کا درجہ ِ بلند

اتفاق سے جب غزوہ احد کا موقع آیا تو انہی دنوں نکاح ہوا۔ حضرت حنظلہؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ وہ غزوہ میں شریک ہوں یا اپنے نکاح میں؟نبی کریم ﷺ نے انھیں نکاح میں شرکت کرنے کی ہدایت فرمائی۔ مگر حضرت حنظلہؓ جہاد میں شریک ہونے کے لیے بے تاب تھے۔اس لیے شب عروسی گذار کر وہ صبح سویرے ہی میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ان کو جہاد میں شرکت کرنے کی اتنی زیادہ بے تابی تھی کہ ٖغسل جنابت بھی نہ فرما سکے۔

حضرت حنظلہؓ نوجوانی کے جوش وجذبے سے مالامال تھے۔ وہ بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے سردار قریش، ابو سفیان کے قریب پہنچ گئے۔ وہ اپنے شکار سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتے تھے ۔تبھی ابو سفیان نے ساتھیوں کو مدد کے لیے پکارا۔ شداد بن اسولیثی نامی کافر حضرت حنظلہؓ سے لڑنے لگا۔اس دوران ابو سفیان نے پیچھے سے حضرت حنظلہؓ کی کمر میں نیزہ گھونپ دیا۔ آپ زمین پر گر پڑے اور جلد اللہ کو پیارے ہو گئے۔

مدینہ منورہ کے نامور صحابی

مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت حنظلہؓ کی شہادت سے ابو سفیان اور قریش کو بہت خوشی ہوئی اور انھوں نے نعرہ ہائے تحسین بلند کیے۔آپ کی شہادت پر انھوں نے نظمیں کہیں اور قصیدے لکھے۔قصیدوں میں ابو سفیان کا لکھا قصیدہ ’’حنظلہ بئی حنظلہؓ ‘‘مشہور ہوا یعنی ’’حنظلہ کے بدلے حنظلہؓ ‘‘۔ دراصل غزوہ بدر میں اسلامی لشکر نے ابو سفیان کا ایک بیٹا، حنظلہ مار دیا تھا۔

غزوہ احد میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے۔اس لیے ابوسفیان اور ابو عامر آپﷺ کو تلاش کرتے رہے۔ ایک جگہ انھیں حضرت حنظلہؓ کی لاش دکھائی دی۔ روایت ہے کہ بیٹے کی لاش دیکھ کر ابو عامر نے کہا:’’اس جنگ کے تمام مقتولین میں یہی مقتول مجھے سب سے پیارا ہے۔‘‘اس کی درخواست پر کفار نے حضرت حنظلہؓ کا لاش کا مثلہ کرنے سے پرہیز کیا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ بنی اوس میں حضرت حنظلہؓ بہت مشہور تھے۔ وہ خزرجی نوجوانوں کے مقابلے میں آپ ہی کو پیش کرتے تھے۔ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ حضرت حنظلہؓ وحی کی کتابت بھی کرتے رہے۔ اس روایت سے عیاں ہے کہ شہید لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

’’غسیل ملائکہ ‘‘

غزوہ اختتام کو پہنچا اور مسلمان شہدا کی لاشیں اٹھانے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’میں دیکھ رہا ہوں کہ فرشتے حضرت حنظلہؓ کو غسل دے رہے ہیں۔‘‘اس فرمان رسول ﷺ کے بعد شہید صحابی کو ’’غسیل ملائکہ ‘‘کہا جانے لگا۔ آپ تاریخ اسلام میں ’’تقی‘‘کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔

روایت ہے کہ جب حضرت حنظلہؓ کے باپ کی اسلام دشمنی اور شرانگیز ی انتہا کو پہنچ گئی توآپ کی غیرت ایمانی کو تاب ضبط نہ رہی۔ایک دن بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی’’ یارسول اللہﷺ، اگر اجازت ہوتو اپنے باپ کا سراتار لاؤں؟‘‘ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا’’ نہیں ہم ان سے براسلوک نہیں کریں گے۔‘‘تاہم آپﷺ نے غزوہ احد کے بعد ابو عامر کو ’’منافق‘‘کا لقب عطا فرمایا تھا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد ابو عامر طائف چلا گیا تھا۔ جب مسلمانوں نے طائف بھی فتح کر لیا تو وہ شام چلا گیا۔ وہاں وہ رومیوں سے مل کر عیسائی ہو گیا۔ وہ نفری اور اسلحہ جمع کر کے مکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ631ء میں چل بسا اور جہنم رسید ہوا۔

قبل از اسلام کا کتبہ

احمد جالد اور ہاشم صدقی، دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ طائف کی چٹان پہ کندہ حضرت حنظلہؓ کا نام اس زمانے کا ہے جب وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ اہل طائف مسلمانوں کے شدید دشمن تھے۔ لہذا کسی مسلمان کا طائف جانا اور وہاں ایک چٹان پر اپنا نام لکھنا تقریباً ناممکن تھا۔ اور ایسا سمجھنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مورخین و ماہرین اثریات کے مطابق زمانہ قدیم میں مسجد الکوع کی جگہ لات دیوی کا مندر واقع تھا۔ طائف میں واقع لات کا یہ مندر پورے عرب میں مشہور تھا۔

لات، منات اور العزی عرب کی تین ممتاز دیویاں تھیں۔ ان تینوں کے مندر عرب میں تعمیر کیے گئے تھے۔ احمد جالد اور ہاشم صدقی کا خیال ہے کہ عبدالعزی نامی فرد جس کا نام بھی چٹان پہ کندہ ہے، حضرت حنظلہؓ کا واقف کار تھا۔ عین ممکن ہے، وہی ان کو طائف لایا ہو تاکہ لات کے بت کی زیارت ہو سکے۔ اسی دورے کے دوران چٹان پہ اپنے اپنے نام لکھنے کا پروگرام بن گیا جس پر عمل بھی ہوا۔ جبکہ اللہ لفظ اس لیے لکھا گیا کہ تب بھی خاص طور پر مکہ ومدینہ کے کئی باشندے سیکڑوں بتوں کی پوجا کرنے کے باوجود اللہ ہی کو سب سے عظیم قوت کی حیثیت سے مانتے تھے۔

یہ ممکن ہے کہ حضرت حنظلہؓ اور عبدالعزی نے کسی کاتب سے اپنے نام کندہ کرائے ہوں۔ مگر بیان ہو چکا کہ حضرت حنظلہؓ کو کتابت وحی کا اعزاز حاصل ہوا۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ انھوں نے چٹان پر کندہ کاری کی ہو۔ ذی حیثیت فرد ہونے کی وجہ سے ان کے پاس کندہ کاری کرنے کے وسائل بھی تھے۔ یوں نامور شہید صحابی کے لکھے جملے آج ہمارے لیے مقدس حیثیت اختیار کر چکے۔ مدینہ جانے والے اہل وطن سے گذارش ہے کہ وہ شہر نبوی ﷺ کی زیارتیں دیکھنے نکلیں تو اس تاریخی زیارت کو بھی ملاحظہ کریں۔اس کو دیکھتے ہوئے دور نبوی ﷺ کا مقدس و محبوب ماحول آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جب یہ نگر برکات و تجلیوں سے بھرپور تھا۔ 

متعلقہ مضامین

  • اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
  • والدین اور چھوٹی بہن کے انتقال پر بات کرتے ہوئے ریمبو آبدیدہ ہوگئے
  • رمضان کا مہینہ روحانی غور و فکر اور خود احتسابی کے حصول کا وقت ہے، میرواعظ عمر فاروق
  • لاہور ایئرپورٹ پر جدہ سے آئے مسافر سے لاکھوں مالیت کی اسمگل شدہ ادویات برآمد
  • رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ‘ مغفرت
  • حضرت حنظلہؓ کا لکھا کتبہ
  • پاکستان بچائو تحریک
  • کچھ ذکر، ہم سے بچھڑے اداکاروں کا
  • افغان کرکٹر کی بیٹی انتقال کرگئی