ملک میں قوانین تو موجود ہیں مگر عمل درآمد نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے بچوں کے اغوا سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔
ملک بھر میں بچوں کے اغوا کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں عدالت نے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کے متعلقہ نمائندے کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ اٹارنی جنرل تمام آئی جیز سے ملاقات کریں۔ آئی جیز کے ساتھ آج تک کوئی ملاقات نہیں کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ آئی جیز کے ساتھ اٹارنی جنرل کی ملاقات ہوئی تھی، جس پر وکیل نے کہا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے ادارے تو قائم ہیں لیکن کام نہیں ہو رہا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جس کا کام ہے اسی نے کرنا ہے۔ ہم ہر کام خود نہیں کر سکتے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قوانین تو موجود ہیں، لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔
بعد ازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل موجود ہیں نے کہا کہ بچوں کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے باپ کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا
فوٹو: فائلسپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا میں ایک سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد اس کی جگہ بیٹی کو نوکری کےلیے اہل قرار دے دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد اس کی بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے درخواستگزار خاتون کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں، شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہوسکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟
اس دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازم کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جاسکتیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے جبکہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ خاتون کو نوکری دے کر آپ نے فارغ کیسے کردیا؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ خاتون کی شادی ہوچکی ہے اور والد کی جگہ نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پھر استفسار کیا کہ یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ بیٹی کی شادی ہوجائے تو وہ والد کے انتقال کے بعد نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا بولے خیبر پختونخوا سول سروس ایکٹ کے تحت نوٹیفکیشن کے ذریعے خاتون کو نکالا ہے۔
جسٹس منصور نے پھر استفسار کیا کہ اب کیا ایک سیکشن افسر قانون کی خود ساختہ تشریح کرے گا؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ خواتین کی معاشی خودمختاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تفصیلی فیصلہ دیں گے۔