—فائل فوٹو

پشاور ہائی کورٹ نے کینٹ میں وکلاء کے داخلے پر پابندی کے خلاف درخواست پر کینٹ انتظامیہ کو نوٹس جاری کر دیا۔

عدالتِ عالیہ میں جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ اور جسٹس اورنگزیب خان پر مشتمل بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ شناخت کرانے کے باوجود وکلاء کو پشاور چھاؤنی کے علاقے میں داخلے سے روکا جا رہا ہے، درخواست کے بعد ہائی کورٹ بار اور کینٹ انتظامیہ کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔

پشاور: ضمانت کے باوجود شہری گرفتار، وفاقی و صوبائی حکومت سے جواب طلب

پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت کے باوجود شہری کو گرفتار کرنے کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔

جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ نے کہا کہ اچھا ہے کہ بات چیت ہوئی ہے، اس طرح کوئی حل نکل آئے گا۔

درخواست گزار کے وکیل نے ہائی کورٹ سے عبوری ریلیف کی استداء کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کو کینٹ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔

جسٹس صاحبزادہ اسد نے کہا کہ 4 دن میں کینٹ انتظامیہ سے جواب طلب کرتے ہیں، انہیں بھی سنیں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: ہائی کورٹ

پڑھیں:

مقدمے سے بریت کے بعد جرم کا داغ ملزم پر ہمیشہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ مقدمے سے بریت کے بعد جرم کا داغ ملزم پر ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔

خیبر پختونخوا پولیس  میں کانسٹیبل بھرتی کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف درخواست کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت نے آئس کے مقدمے سے ڈسچارج ہونے والے شہری کو پولیس میں بھرتی کے لیے اہل قرار دے دیا ۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے عدالت میں بتایا کہ ملزم پر 2021 میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت آئس کا مقدمہ درج تھا۔ ملزم کا کردار ایسا نہیں کہ اس کو پولیس میں بھرتی کیا جا سکے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے نوکری کے لیے 2023ء  میں درخواست دی تو اس کا کردار کیسے خراب ہو گیا؟  جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ درخواست گزار پر فوجداری مقدمہ تھا، ایسے میں پولیس رولز کے تحت اچھا کردار نہیں رہتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب ایک شخص مقدمے سے ڈسچارج ہو گیا تو کیا اس کی سزا اس کو ساری زندگی ملے گی؟ عجیب منطق ہے کہ کسی شخص پر الزام ثابت نہ ہو تب بھی اس کی اہلیت پر شک کیا جائے۔ اگر درخواست گزار کا جرم اتنا ہی بڑا تھا، تو آپ نے تفتیش کے مرحلے پر بری کیوں کیا؟۔

ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ بری ہم نے نہیں کیا، بلکہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے کیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی شخص پر جھوٹا مقدمہ بنے اور وہ بری ہو جائے تو کیا ساری زندگی اس کو سزا ملے گی؟

بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار کی کانسٹیبل بھرتی کی درخواست منظور کر لی ۔ واضح رہے کہ درخواست گزار داوڑ نے 2023 میں خیبرپختونخوا پولیس میں کانسٹیبل کے لیے اپلائی کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ کے جج کیخلاف توہین آمیز ریمارکس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس برہم
  • عمران خان کی 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کی جلد سماعت کی استدعا
  • رہنما پی ٹی آئی محمد آصف کی حفاظتی ضمانت میں 15 اپریل تک توسیع
  • بچوں کے اغوا کیخلاف ازخود نوٹس کیس: سپریم کورٹ نے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کے نمائندے کو طلب کرلیا
  • مقدمے سے بریت کے بعد جرم کا داغ ملزم پر ہمیشہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • اسلام آباد: گراں فروشوں کیخلاف کارروائیاں جاری
  • کرسچن کمیونٹی کے لیے سینیٹری ورکرز کی ملازمتوں میں امتیاز کیخلاف درخواست سپریم کورٹ نے خارج کردی
  • پشاور: عیدالفطر کے موقع پر کھلونا اسلحہ فروخت کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ
  • کھلونا بندوقوں اور فائر کریکر پر پابندی، فروخت کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ