کراچی‘ اسلام آباد (کامرس رپورٹر+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (اوجی ڈی سی ایل) نے اٹک میں گیس کے نئے ذخائر دریافت کر لیے۔ ترجمان  کے مطابق او جی ڈی سی ایل پنجاب کے ضلع اٹک کے سوغری بلاک میں سوغری نارتھ-ون کنویں سے گیس اور کنڈینسیٹ کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ او جی ڈی سی ایل اس بلاک کی واحد لائسنس ہولڈر ہے اور 100 فیصد ورکنگ انٹرسٹ رکھتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کنویں کی کھدائی21 مئی 2024ء کو شروع ہوئی اور 4 ہزار 942 میٹر کی گہرائی پر گیس دریافت ہوئی، ابتدائی ٹیسٹنگ کے بعد کنویں سے 13.

95 ملین مکعب فٹ یومیہ (ایم ایم ایس سی ایف ڈی) گیس اور 430 بیرل یومیہ کنڈینسیٹ حاصل ہوا۔ ماری انرجیز لمیٹڈ، جسے پہلے ماری پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ (ایم اے آر آئی) کے نام سے جانا جاتا تھا، نے خیبر  پی کے  میں اسپنوام-1 ایکسپلوریشن کنویں میں ہائیڈرو کاربن کے مزید ذخائر دریافت کیے ہیں۔ کمپنی نے پیر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج کو اپنے نوٹس میں اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔ نوٹس میں سمانسک فارمیشن سے خیبر پی کے وزیرستان بلاک میں تلاش کے کنویں اسپنوم-1 میں گیس اور کنڈنسیٹ کی دریافت کی اطلاع دی گئی۔  کنویں میں 20.485 ایم ایم ایس سی ایف ڈی گیس اور تقریبا 117 بی بی ایل / دن کنڈنسیٹ 32/64 انچ پر بہہ رہا ہے جس میں 3،431 پی ایس آئی جی کے ویل ہیڈ فلونگ پریشر (ڈبلیو ایچ ایف پی) شامل ہیں۔  اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کنویں کی صلاحیت کا مکمل جائزہ لینے کے لئے اضافی ٹارگٹڈ فارمیشنز کی مزید جانچ جاری ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: گیس اور

پڑھیں:

کیا سمندری چٹانیں خود آکسیجن بنا سکتی ہیں؟ گہرے سمندر میں حیران کن دریافت

گہرے سمندر میں دھاتوں سے بھرپور چٹانوں کے بارے میں ایک حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے کہ یہ سورج کی روشنی کے بغیر آکسیجن پیدا کر سکتی ہیں۔ تاہم، سائنسدانوں کے درمیان اس دعوے پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔

گزشتہ جولائی میں نیچر جیو سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، سمندری فرش پر پائی جانے والی پولی میٹالک نوڈلز نامی چٹانیں اتنی برقی توانائی پیدا کر سکتی ہیں کہ وہ پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کر سکیں، جسے الیکٹرولیسس کا عمل کہا جاتا ہے۔ 

اگر یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ اس نظریے کو چیلنج کرتا ہے کہ زمین پر زندگی صرف سورج کی روشنی اور فوٹوسنتھیس کے ذریعے ممکن ہوئی تھی۔

یہ تحقیق خاص طور پر میکسیکو اور ہوائی کے درمیان کلیرین-کلپپرٹن زون میں کی گئی، جو کہ گہرے سمندر میں ایک وسیع علاقہ ہے۔ 

یہاں نکل، مینگنیز اور کوبالٹ جیسی قیمتی دھاتوں کی موجودگی نے مائننگ کمپنیوں کی دلچسپی بڑھا دی ہے، کیونکہ یہ دھاتیں الیکٹرک گاڑیوں اور کم کاربن ٹیکنالوجیز میں استعمال ہوتی ہیں۔

ماحولیاتی تنظیم گرین پیس نے اس دریافت کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گہرے سمندری ماحولیاتی نظام کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم ہونا باقی ہے۔ تنظیم نے بحرالکاہل میں گہرے سمندر کی کان کنی پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ نایاب سمندری حیات کو نقصان نہ پہنچے۔

یہ تحقیق جہاں زندگی کی ابتدا کے حوالے سے نئے سوالات اٹھا رہی ہے، وہیں گہرے سمندر کے وسائل پر انسانی دسترس اور ماحولیاتی خدشات کو بھی اجاگر کر رہی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • کیا سمندری چٹانیں خود آکسیجن بنا سکتی ہیں؟ گہرے سمندر میں حیران کن دریافت
  • ایمیزون کی خواتین جنگجوؤں کی 3 نسلیں روس کے ایک قدیم مقبرے سے برآمد
  • خوشخبری!!! ملک کے اہم علاقوں میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت
  • توانائی کے شعبے میں اہم پیشرفت، وزیرستان میں دوسرےبڑے گیس و تیل کے ذخائر دریافت
  • پاکستانی آبی ذخائر میں تشویشناک صورتحال،خطرناک رپورٹ جاری
  • شمالی وزیرستان اور اٹک سے تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت
  • شمالی وزیرستان میں تیل اور گیس کے مزید ذخائر دریافت
  • آبی ذخائر کی صورتحال، واپڈا نے خطرے سے آگاہ کردیا
  • 274 چاند رکھنے والا سیارہ زحل ’چاندوں کا بادشاہ‘ قرار