برمنگھم، منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ کے 9 ارکان کو 77 سال سے زائد کی سزائیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
برمنگھم میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے ایک گروہ، جو شہر بھر میں بھاری مقدار میں ہیروئن اور کوکین کی تقسیم کا ذمہ دار تھا، کو پولیس کی جامع تحقیقات کے بعد مجموعی طور پر 77 سال سے زائد قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
نو افراد کو ہیروئن اور کوکین کی سپلائی کی سازش کا مجرم قرار دیتے ہوئے برمنگھم کراؤن کورٹ میں 13 ہفتوں تک جاری رہنے والے مقدمے کے بعد یہ فیصلہ سنا دیا گیا۔
تحقیقات 22 مئی 2021 کو شروع ہوئیں، جب ایک مخالف گروہ نے اس پارٹی کے اڈے، اوک ووڈ روڈ، اسپارک ہل پر حملہ کیا۔ یہ گھر منشیات تیار کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
حملہ آوروں نے گھر میں گھس کر محمد اسحاق پر حملہ کیا تھا جس سے اس کے بازو پر گہرا زخم آگیا تھا حملہ آور فرار ہوگئے، اور پولیس کو اطلاع ملنے پر منشیات فروشوں نے منشیات کو چھپانے کی کوشش کی۔ پولیس نے سپارک ہل پارک میں 8 کلو سے زائد ہیروئن اور 1 کلو سے زیادہ کراک کوکین برآمد کی، جس کی مالیت تقریباً £226,700 تھی۔
اوک ووڈ روڈ کے گھر سے مزید منشیات، مکسنگ ایجنٹس، ترازو، چھلنیاں اور پلاسٹک بیگز برآمد ہوئے۔ تحقیقات میں سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا، جس کے بعد 20 اکتوبر 2021 کو متعدد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
یہ گروہ برمنگھم میں کم از کم 6 مختلف ڈرگ لائنز چلاتا تھا، جہاں گاہک کلاس اے منشیات خرید سکتے تھے۔ 2020 سے 2021 تک 18 ماہ کے دوران اس گروہ سے آٹھ بار منشیات برآمد کی گئیں۔
مجرم قرار دیے گئے افراد میں محمد عمران خان گروہ لیڈر، 14 سال 2 ماہ قید، محمد اسحاق حملے کا شکار، 10 سال 2 ماہ قید، کلیم اللّٰہ خان، 13 سال 3 ماہ قید، سہیل حسین، 9 سال 9 ماہ قید، ریاض محمد، 7 سال 6 ماہ قید، انور اویس 7 سال 4 ماہ قید، محمد حمزہ بٹ 8 سال قید، نوشاد محمد 7 سال 2 ماہ قید اور احمد اقبال کو سزا بعد میں سنائی جائے گی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی منشیات کے خلاف جنگ میں ایک اہم کامیابی ہے اور اس سے برمنگھم میں منشیات کی تجارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ماہ قید
پڑھیں:
مقامی تاجروں، سول سوسائٹی کے ارکان نے مقبوضہ کشمیر میں ترقی کے بھارتی دعوئوں کو مسترد کر دیا
سول سوسائٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ترقی کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد علاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مقامی تاجروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی مبصرین نے معاشی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں بھارت کے کھوکھلے دعوئوں کو بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے محض ایک پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں امن اور ترقی ظاہر کرنے کے لیے سرگرمی سے رپورٹیں جاری کر رہا ہے اور میڈیا مہم چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ترقی کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد علاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرنا ہے۔ تاہم مقامی کاروباری مالکان اور کارکنوں کا اصرار ہے کہ یہ دعوے زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ سرینگر کے ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ زمینی صورت حال ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دکانیں بند ہو رہی ہیں، کاروبار مشکلات سے دوچار ہے اور بے روزگاری اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ کوئی حقیقی ترقی نہیں ہے، صرف جبر ہے۔
سول سوسائٹی کے ارکان نے کہا کہ بھارتی حکومت علاقے میں اقتصادی ترقی کی خوشنما تصویر پیش کر کے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک کارکن نے کہا کہ نام نہاد ترقی کا بیانیہ دھوکہ دہی کا ایک اور طریقہ ہے۔ بھارت جھوٹی ترقی دکھا کر اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت بدستور سنگین ہے۔ انہوں نے علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایک تاجر نے بتایا کہ بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیں جبکہ کشمیری کاروبار متعدد رکاوٹوں اور وسائل تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2019ء کو دفعہ370 کی منسوخی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا کہ ایک ایسے علاقے میں امن اور ترقی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے جس کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جمائو والے علاقے میں تبدیل کیا گیا ہو۔