پی آئی اے انتظامیہ کا ایجنٹس کو ٹکٹس پر ڈسکاؤنٹ ،اربو ں کا ٹیکا
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
قومی ادارے کو ایک ارب 71 کروڑ روپے کا نقصان ہو گیا، تحقیقات کی سفارش
2015سے 2019تک مختلف ایجنٹس کو 18ہزار 3سو 42ٹکٹس پرڈسکاؤنٹ
پی آئی اے انتظامیہ نے ایجنٹس کو ٹکٹس پر ڈسکاؤنٹ دے دیا، قومی ادارے کو ایک ارب 71 کروڑ روپے کا نقصان ہو گیا، اعلیٰ حکام نے تحقیقات کی سفارش کر دی۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن نے سال 2015 سے سال 2019 تک مختلف ایجنٹس کو 18 ہزار 3 سو 42 ٹکٹس ڈسکاؤنٹ پر جاری کیں جو کہ پالیسی کے خلاف جاری کی گئیں، پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے جاری ٹکٹس کے طریقہ کار کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جس کے باعث ایجنٹس کو جاری ہونے والی ڈسکاؤنٹ ٹکٹس کی شفافیت معلوم نہیں ہو سکی، پی آئی اے کے خسارے میں ہونے کے باوجود ایجنٹس کو ڈسکاؤنٹ ٹکٹس جاری کی گئیں۔ پی آئی اے انتظامیہ کو جنوری 2021میں آگاہ کیا گیا جس پر انتظامیہ نے اپنے جواب میں کہا کہ قلیل یا کم مدت کے دوران سیل سلیب پر ڈسکاؤنٹ ٹکٹس جاری کی جاتی ہیں۔ اعلیٰ حکام نے پی آئی اے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ڈی اے سی کا اجلاس طلب کیا جائے لیکن اس کے باوجود ڈی اے سی کا اجلاس نہیں کیا گیا جس پر اعلیٰ حکام نے سفارش کی کہ ایجنٹس کو ہزاروں ٹکٹس ڈسکاؤنٹ پر جاری ہونے کے باعث ایک ارب 71کروڑ روپے کے نقصان ہونے پر انوسٹی گیشن کی جائے اور ذمہ دار پی آئی اے افسران کا تعین کیا جائے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پی آئی اے انتظامیہ ایجنٹس کو جاری کی
پڑھیں:
ہمیں مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں
موجودہ دنیا میں مصنوعی ذہانت انسانوں کےلیے جہاں حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے وہاں ترقی پذیر ملکوں میں خوف و تجسس اور وسوسے بھی پھیلے ہوئے ہیں۔
عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ کیا ترقی پذیر ملکوں میں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے عوام تو متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا اُن کے روزگار پر تو فرق نہیں پڑے گا؟ کیا انسانوں کی اہمیت ختم تو نہیں ہوجائے گی؟ کیا انسان کہیں اجنبیت اور تنہائی کا شکار تو نہیں ہوجائیں گے ؟ کیا لیبر فورس کی جگہ روبوٹ تو نہیں لے لیں گے؟ کیا مصنوعی ذہانت دنیا کے انجام کا باعث تو نہیں بنے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔
تیسری دنیا کے لوگوں کی یہ سوچ شروع ہی سے ہے۔ ہم ہر چیز کو اُس وقت اپناتے ہیں جب دنیا اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل کرچکی ہوتی ہے۔ ہم نے ترقی کے ہر عمل کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا اور اپنے ساتھ اپنی جیسی سوچ رکھنے والوں کو ملا کر اس کی مخالفت شروع کردی۔
معروف اداکار دلیپ کمار کی فلم ’’نیا دور‘‘ کی مثال یہاں فٹ آسکتی ہے کہ اُس علاقے کے لوگ سڑک بنانے کے مخالف تھے جبکہ دلیپ کمار اور ان کے ساتھ چند لوگ سڑک کو ترقی کا راستہ سمجھتے تھے اور آخر میں ہیرو کی جیت ہوئی اور سڑک بنا لی گئی۔ ہمارے ہاں بھی ایسا سوچنا، سمجھنا معمول ہے۔
مثال کے طور پر آج بھی لوگ موٹر وے کے مخالف ہیں۔ آج بھی لوگ سی پیک کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آج بھی لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آج بھی لوگ ترقی کے اُس راستے پر کانٹے بچھاتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ جیسے پیپلز پارٹی کے پاک، ایران گیس لائن کے منصوبے کو سبوتاژ کیا گیا، گوادر میں ترقی کے عمل میں مسلسل روڑے اٹکائے جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ٹرمینیٹر میں بھی اچھے اور برے مصنوعی ذہن کے کیریکٹر دکھائی دیے، جس میں ایک کیریکٹر اچھائی اور دوسرا برائی کی طرف داری کرتا ہے۔ جب اس طرح کی فلمیں منظر عام پر آئیں تو یوٹوپیائی لگتی تھیں کہ کیا کبھی کوئی کار بغیر ڈرائیور کے چل سکتی ہے؟ کیا کوئی انسان کا تخلیق کیا ہوا روبوٹ، عام انسانوں کی طرح حرکات و سکنات کرسکتا ہے؟ کیا کوئی دوسرے سیارے کی مخلوق زمین پر انسانوں کے درمیان رہ سکتی ہے؟ کیا کبھی ڈرون کے ذریعے بھی حملے کیے جاسکتے ہیں؟ کیا کبھی مرد اور عورت کے ملاپ کے بغیر اُن کی نسل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟ کیا کبھی عورت اور مرد کسی تیسری عورت کی کوکھ سے اپنا بچہ پیدا کرسکتے ہیں؟ لیکن آپ موجودہ صدی میں ان تمام چیزوں کا بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
سائنس کی بدولت دنیا میں ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیے گئے ہیں کہ کم فہم اور کم ذہن رکھنے والے انسانوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ڈاکٹر جیفری ہنٹن کو مصنوعی ذہانت کا بانی تصور کیا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بھی مصنوعی ذہانت کے پھیلاؤ سے پریشان ہیں اور وہ اسے مستقبل کےلیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت ہے کیا؟ مصنوعی ذہانت سے متعلق قیاس رائے کی جاتی ہے کہ انسانوں کا کام مصنوعی انسانوں سے کروایا جائے گا اور وہ زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوں گے۔ اس طرح انسانوں کی ضرورت کم ہوتی چلی جائے گی۔ یاد رہے کہ ایسا ہی پروپیگنڈہ کمپیوٹر کی آمد پر بھی کیا گیا تھا لیکن آپ دیکھیں کہ کیا کمپیوٹر خود کچھ کرسکتا ہے۔ اس کو چلانے اور اُس کو بنانے کےلیے بھی ایک انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ موٹر سائیکل، گاڑی اور جہاز چلانے کےلیے بھی ایک انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ گو کہ خودکار ٹرانسپورٹ متعارف ہوچکی ہیں لیکن اُن کو چلانے اور روکنے کےلیے بھی تو کسی انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔
ڈرایا جارہا ہے کہ کچن سے لے کر کھیتوں میں کام کرنے تک مصنوعی انسانوں سے کام لیا جائے گا۔ جیسے کراچی میں ایک مصنوعی ٹیچر جسے ’’اے آئی ٹیچر‘‘ کانام دیا گیا ہے، نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے مددگار تو ہوسکتے ہیں، ہمارے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔
اگر ہم اس کو مثبت انداز سے دیکھیں تو جہاں پر مصنوعی ذہانت سے انسان کام کریں گے وہاں پر کام کرنے والے انسان اُن سے مقابلے کی فضا کو قائم کر کے اپنی کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ خوش اخلاقی اور اپنے کام کو ایمانداری سے کرنے کی عادت پختہ ہوجائے گی۔ انسان ایک دوسرے کو احترام دیں گے اور اپنی اپنی سطح پر کام بہتر طریقے سے سر انجام دیں گے۔
ہمیشہ ہی دنیا میں ترقی کی نئی ایجادات سے ترقی کا عمل شروع ہوا ہے۔ جیسے پہلے کتابیں لکھنے کا کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا، پھر ٹائپ رائٹر آیا اور پھر ٹائپ رائٹر کا دور ختم ہوا تو اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی۔ اب دنیا میں اور ترقی ہوئی کہ آپ جو الفاظ اپنے منہ سے ادا کریں گے وہ الفاظ ٹائپ ہوجائیں گے اور پھر ان الفاظ کو آپ مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ ترقی کے اس عمل میں انسان کی توقیر کم نہیں ہوئی بلکہ جس قوم نے اس ٹیکنالوجی کو اپنایا وہ دنیا میں دیگر قوموں اور ملکوں سے آگے نکل گئی۔
آج ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جو قومیں ٹیکنالوجی اور مہارتوں سے لیس ہوں گی وہی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں گی۔ اس لیے مصنوعی ذہانت سے خائف ہونے کے بجائے اور اس کو مسترد کرنے کے بجائے ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے، اس کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہنا چاہیے اور اسے اپنا کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔
ٹیکنالوجی کو اپنانے سے آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں کتنی چیزیں بہتر ہوئی ہیں، جیسے سیکیورٹی کے نظام میں جدت لانے سے اور سیکیورٹی کیمروں کی وجہ سے ملک کے ہر ادارے نے اپنی سیکیورٹی کے نظام کو بہتر بنایا ہے اور پوری دنیا کے ساتھ ہمارے ملک کا سیکیورٹی نظام بھی بہتر ہوا ہے اور یہ آج کے دور میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمارے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ آپ دیکھیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے اسکول، اسپتال، ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ، مذہبی عبادت گاہوں اور گھروں تک کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اسی طرح موبائل فون بھی ہمارے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ جس سے انسان اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بناتا جارہا ہے۔ دنیا کے بیشتر کاروبارِ زندگی موبائل فون سے جڑے ہوئے ہیں اور اب اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کو بھی مثبت معنوں میں لیں اور اس کو مسترد کرنے کے بجائے اس کو اپنائیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ٹیکنالوجی کے منفی اثرات بھی معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں جیسے موبائل فون سے نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ انٹرنیٹ پر نئی نسل غیر اخلاقی مواد دیکھنے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ٹیکنالوجی کی بہت زیادہ دلچسپی سے نئی نسل کھیلوں اورکتابوں سے دور ہوگئی ہے۔
لیکن ان تمام عوامل کے باوجود ہمیں مصنوعی ذہانت کے مثبت پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے معاشرے میں قبول کرنا ہے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس سے خائف نہیں ہونا بلکہ یہ سوچتے ہوئے اسے قبول کرنا ہے کہ مصنوی ذہانت کو کنٹرول ایک انسان نے ہی کرنا ہے کیونکہ موجودہ دور میں اس کو اپنانے کے ساتھ ہی ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔