افغانستان اسلحے کی غیرقانونی تجارت کا مرکز بن چکا
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو جدید ترین اور وافر اسلحہ کہاں سے مل رہا پے؟
عالمی تنظیم، افغان پیس واچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے کئی صوبوں میں افغان طالبان حکومت کمزور ہونے سے امریکہ اور نیٹو کے چھوڑے ہتھیار ہی نہیں روس و چین کے بنے راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈ، بم ، نائٹ ویژن گوگلز، سنائپر رائفلز اور ٹیلی سکوپس، آٹومیٹک گنیں اور گولیاں فروخت ہو رہی ہیں۔
اسلحے کے بین الاقوامی اسمگلر حکومتی رٹ نہ ہونے سے روسی وچینی ساختہ اسلحہ سرحد پار سے لانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیمیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی بھاری فنڈنگ سے منہ مانگے داموں یہ اسلحہ خرید لیتی ہیں۔
اکثر صوبوں میں مقامی افغان طالبان لیڈر بھتّا لیکر یا نظریاتی بنیاد پر اسلحہ فروخت کرتے ڈیلروں کو تحفظ دیتے ہیں ،کھلے عام دستیاب جدید اسلحے ہی نے پاکستان دشمن تنظیموں و گروہوں کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور پاکستانی عوام پر حملے کر رہی ہیں۔
پاکستان دنیا میں’’ 11ویں طویل ترین‘‘ سرحدیں رکھنے والا ملک ہے ، افغانستان کے ساتھ 2670 کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کرنا نہایت کٹھن کام، افغان طالبان حکومت کو اپنی سرزمین پر اسلحے کی پھلتی پھولتی غیرقانونی تجارت روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا چاہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
طورخم سرحد پر تجارتی گزرگاہ 23 ویں روز بھی بند
ویب ڈیسک : کشیدگی کے باعث طورخم سرحد پر تجارتی گزر گاہ 23 ویں روز (آج) بھی بند ہے۔
کسٹم حکام کے مطابق طورخم سرحدی سے تجارتی گزرگاہ کے علاوہ پیدل آمدورفت بھی معطل ہے۔ کسٹم حکام نے بتایا کہ تجارتی گزرگاہ کی بندش سے یومیہ اوسطاً 30 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔
دوسری جانب جرگہ ممبر کا کہنا ہے کہ پاک افغان جرگہ کی کوششوں سے فائر بندی کا معاہدہ برقرار ہے، جرگہ مذاکرات کی بحالی کے لیے افغان جرگہ قیادت سے رابطے میں ہیں۔
پاکستان سے آٹے اور چاول کی آخری کھیپ بنگلہ دیش پہنچ گئی
یاد رہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راہداری طورخم دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث تین ہفتوں سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بند ہے، پاک افغان شاہراہ پر مال سے لدی گاڑیاں مختلف مقامات پر کھڑی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سالانہ تجارتی حجم اڑھائی ارب ڈالر سے کم ہو کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک آگیا ہے۔